"FBC" (space) message & send to 7575

’’ارطغرل‘‘ اور’’ماہرین‘‘

ـ''دنیا بھر میں ٹیلی ویژن کی ایجاد نے کئی عمارتوں‘شہروں اور انسانوں کو ان کے اصلی قد سے اونچا کر دکھایا ہے‘‘ مختار مسعود نے ''آوازِ دوست‘‘ میں یہ تلخ حقیقت بیان کی ہے اور اس ایک جملے کے پس منظر میں آج کے سیاسی سٹیج پر پرفارمنس دینے والے کرداروں کو پرکھا جاسکتا ہے‘ یعنی اس جملے کو بطورِ میزان استعمال کریں تو باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آگہی و شعور فراہم کرنے کے نام پرذرائع ابلاغ نے ہم پر کیسا ظلم ڈھایا ہے؟ خاص طور پر جو چیز متعارف کرائی گئی ہے‘ وہ ہیں ''ماہرین‘‘ یعنی ایسے ایسے ''ماہرین‘‘ ہیں‘ جو قطع نظر کسی شعبہ میں مہارت کے‘ ہر موضوع پر گھنٹوں بول سکتے ہیں اور انہیں اس سے کوئی غرض بھی نہیں ہوتی کہ ان کی گفتگوسے عوام نے کیا حاصل کیا؟ ویسے عوام نے کیا حاصل کیا؟ اس سے تو کسی کو بھی کوئی غرض نہیں‘ بشمول حکمرانوں کے‘ اگر کچھ وقت ٹی وی سکرین یا سوشل میڈیا کو ایک محقق کی نظر سے دیکھ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ اگرچہ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد کم ہے‘ مگر ''ماہرین‘‘ کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ وہ بھی ایسے'' ماہرین‘‘ جو فلکیات ‘ طبیعات‘ لسانیات‘ عمرانیات غرض یہ کہ دنیا کے ہر علوم میں انفرادی طور پر یکساں اور بے پناہ مہارت رکھتے ہیں۔ 
خیر‘ ہمارے ذہن میں ''ماہرین‘‘ کا جو خاکہ ہے‘ اس میں مزید پختگی اس وقت آئی جب گزشتہ دنوں خلافت ِعثمانیہ کی تاریخ اور ایک خانہ بدوش قبیلے کی جدوجہد پر مبنی‘ بین الاقوامی شہرت کی حامل ترک ڈراما سیریل ''ارطغرل ‘‘پر سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا میں ایک مخصوص ''مکتبہ فکر‘‘ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی آراء سننے کو ملیں۔ ہوا یہ کہ جب یہ ڈراما سیریل پاکستان ٹیلی ویژن نے اردو میں دکھانا شروع کیا تو اس کی ویورز شپ تمام ریکارڈز توڑتی راتوں رات لاکھوں تک جاپہنچی۔ ہر جانب اس ڈراما سیریل کے تذکرے شروع ہوگئے ۔ کورونا کے باعث لاک ڈائون کے دوران گھروں میں رہنے والے عوام نے اس ڈرامے کو دیکھا اور دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اسے اس قدر سراہا گیا کہ ترکی کے حکومتی ایوانوں اور اس ڈراما کے اداکاروں کو اپنے پیغامات میں پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔ ایسے میں ماہرین کی ایک وہ قسم سامنے آئی‘ جسے بنیادی طور پر تو تکلیف اسلامی تاریخ سے تھی اور اسی بنیاد پر اس نے ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ کو جانچنے کے لیے سارے پیمانے ہی بدل ڈالے اور یہ صرف مقامی طور پر ہی نہیں‘ بلکہ بین الاقوامی ''ماہرین‘‘ کا بھی طرزِ عمل رہا۔برطانوی سرکاری نشریاتی ادارے نے اس ڈرامے پر تنقید کے حوالے سے کئی آرٹیکل لکھے اور اپنی روایات سے ہٹ کر پہلی بار اس ڈرامے میں ہیرو '' ارطغرل‘‘ کا کردار ادا کرنے والے اداکار کی نجی زندگی پر انتہائی گھٹیا قسم کا آرٹیکل تنقید کے نام پر لکھا۔دوسری طرح ''نیو یارک ٹائمز‘‘ اور'' واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی جانب سے ایک جانب تو اس ڈرامے کو بمباسٹک قرار دیا گیا اور ساتھ ہی اسے ترکی کی مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی سے منسوب کردیا گیا۔ قدیم عرب ترک مخاصمت کی وجہ سے عرب ممالک میں بھی تنقید سے بڑھ کر قدم اٹھایا گیا اور یہ ڈراما دیکھنے پر پابندی عائد کردی گئی‘ اسی طرح جب ڈراما سیریل '' ارطغرل ‘‘ کی نشریات پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو میں شروع ہوئی تو لبرل ازم کے دعویدار اچانک انتہا پسند بن گئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس ڈراما پر انتہائی گھٹیا اعتراضات اٹھائے گئے۔ ایک ٹاک شو میں ڈراما انڈسٹری کے ایسے ماہر جس نے یہ ڈراما دیکھا بھی نہیں تھا‘ فرمانے لگے کہ ڈرامے اسلامی تاریخ سکھانے کے لیے نہیں‘ بلکہ پیسہ کمانے کے لیے بنائے جاتے ہیں ۔ اب ‘ان ''ماہر ‘‘ صاحب کو کون سمجھائے کہ اگر پیسہ کمانا ہی ڈرامے کی کامیابی کو جانچنے کا پیمانہ ٹھہرار تو پھر اس ڈرامے ''ارطغرل‘‘ سے زیادہ پیسہ کس نے کمایا ہوگا‘ جو دنیا بھر کے 40سے زائد ممالک میں دیکھا جاچکا ‘ درجن سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا اور جس کی کاسٹ کو مختلف ممالک میں سرکاری مہمانوں کے طور پر مدعو کیا گیا ہے‘ اسی طرح ایک اور ''ماہر‘‘ اعتراض کرتے ہیں کہ قومی ٹی وی کو غیرملکی پروڈکشن نہیں دکھانی چاہیے۔ اب‘ یہ ''ماہر‘‘ شاید بھول گئے ہوں گے کہ ماضی میں قومی ٹی وی پر نائٹ رائڈر‘ سکس ملین ڈالر مین‘ ائیروولف‘ چپس سمیت درجنوں غیر ملکی سیریز دکھائی جاچکی ہیں ‘جبکہ بھارتی تیار کردہ کارٹون تو ابھی بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ الزام قومی ٹی وی پر ہی کیوں‘ نجی ٹی وی چینل کیا‘ اس زمرے میں نہیں آتے ‘ ان کا جائزہ لیا جائے تو بھارتی ڈراموں کی بہتات رہی ہے۔ ہمارے سنیما گھروں میں تو بھارتی فلمی دھڑلے اور فخر سے لگائی جاتی رہی ہیں‘ مگر اس وقت کسی ''ماہر‘‘ کو یہ خیال نہیں گزرا کہ غیر ملکی خاص طور پر دشمن ملک کے ڈراما اور فلمیں پاکستان میں کیوں دکھائی جارہی ہیں۔ایک ''ماہر‘‘کا یہ مشورہ تھا کہ '' ارطغرل‘‘ کے مقابلے میں ہمیں ''نور جہاں‘‘ پر ڈراما بنالینا چاہیے۔ ایسے ہی ایک اور ''ماہر‘‘ جن کا ظاہری تعارف تو ماہر ِ طبیعات ہونا چاہیے‘ مگر وہ اپنے اس شعبے سے ہٹ کر باقی ہر شعبے میں بات کرنے میں سرگرمی دکھاتے رہتے ہیں۔ چند روز قبل انگریزی روزنامے میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ سلطنت ِعثمانیہ کی تاریخ ڈیڑھ سو سال بعد لکھی گئی تھی‘ اس پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے ‘جبکہ ترکی نے اس پر ڈراما بنا دیا ہے۔ اب‘ ان حضرت کو یہ کیسے سمجھائیں کہ اگر اس کلیے کو اپنایا گیا تو پوری تاریخ ہی دریا برد کرنی پڑ جائے گی اور جہاں تک تعلق ہے‘ سلطنت ِعثمانیہ کا تو اس کا اختتام تو 1923ء میں ہوا ہے ‘ پھر جن تاریخ دانوں نے سلطنت ِعثمانیہ کی تاریخ پر قلم اٹھایا ہے‘ ان میں سے آٹھ غیر ملکی ہیں اور دنیا بھر میں ان کی کتب کو مستند سمجھا جاتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈراما سیریل ''ارطغرل ‘‘ میں خلافت ِ عثمانیہ کے قیام کی جدوجہد کے دوران دشمنوں کی جانب سے کی جانے والی سازشوں کو بے نقاب کیا گیا اور ان کی جانب سے استعمال کیے جانے والے اوچھے‘ گھٹیا اور انتہائی رزیل قسم کے حملوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ صلیبیوں کی جانب سے کوڑھ یا جزام کے مرض کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنے کے عمل کو دکھا کر Biological Weapons کا خیال دشمن مخالف قوتوں کی جانب استعمال کیے جانے‘ غداروں کو ہر سطح پر استعمال کرنے‘ مسلم حکمرانوں اور عوام میں بڑے پیمانے پر پیسے اور عورت کے استعمال سے غدار خریدنے اور جنگوں کے دوران انسانیت سے ہٹ کر بزرگوں ‘عورتوں‘ بچوں کے قتل ِعام جیسے ہتھکنڈے بھی واضح کیے گئے ہیں ۔ اس سے قبل کسی بھی مسلم ملک میں بننے والے ڈراموں یا فلم میں اتنی عمدہ انداز سے ان سازشوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا تھا۔ اب‘ یہ جو '' ماہرین‘‘ ہیں ‘ اصل میں ڈراما میں دکھائی گئی تاریخ پر تنقید کرتے ہیں؛ حالانکہ انہیں ڈراما کی ڈائریکشن‘ پروڈکشن‘ اداکاری سمیت تکنیکی خامیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے‘ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی خامی سامنے نہیں لاسکے۔ ان سے گزارش ہے کہ ڈراما یا فلم کی کامیابی ناظرین کے دیکھنے کی بنیاد پر جانچی جاتی ہے اور'' ارطغرل‘‘ کی ویورزشپ جو پاکستان میں ہے ‘اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی تنقید کے باوجود یہ ڈراما کامیاب ہوا ہے یا ناکام؟آخر میں عرض ہے کہ بے جا تنقید سے بہتر ہے کہ پاکستانی ڈرامے کو اس کا کھویا ہوا عروج دلوانے کے لیے کام کیا جائے! 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں