عمران خان نے پارٹی انتخابات کا آغاز کرکے جو مثال قائم کی ہے اس کا یہاں پہلے سے کوئی نام و نشان نہیں ملتا یعنی بقول شاعر ؎ کُودا کوئی یوں چھت پہ تری، دھم سے نہ ہوگا جو کام کیا ہم نے وہ رُستم سے نہ ہوگا شہزاد احمد (مر حوم) میرا بہت عزیز اور بے تکلف دوست تھا۔ اپنے شعری مجموعہ ’’گل آفتاب‘‘ جس میں زبان کے تجربات کا ڈول ڈالا گیا تھا، کا انتساب میں نے اس کے نام کیا تھا۔ البتہ جب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو میں نے انتساب تبدیل کر دیا۔ شہزاد نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ جب انتساب تمہارے نام کیا تھا تو تم کون سا خوش ہوئے تھے۔ وہ بولا کہ وہ تو تم نے مجھے غیرت دلانے کے لیے کیا تھا ،جس پر میں نے کہا لیکن تم نے غیرت کھائی تو نہیں! اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان نے دوسری پارٹیوں کو غیرت دلانے کے لیے یہ اقدام کیا ہے تو کسی کا اس پر غیرت کھانے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حق بات تو یہ ہے کہ بلا مقابلہ ’’منتخب‘‘ ہونے والوں کو اس کامیابی پر جشن منانے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے چُلّو بھر پانی کا بندوبست بھی کرنا چاہیے جو خود بھی ہر بار بلا مقابلہ کامیاب ہوتے ہیں اور نیچے کا سارا کام بھی چٹوں اور پرچیوں کے ذریعے اور نامزدگیوں ہی سے چلاتے ہیں اور اپنی اپنی پارٹی پر نہ صرف یہ کہ خود قبضہ جمائے بیٹھے ہیں بلکہ اس کے مختلف مناصب پر اپنی اولاد اور دیگر رشتہ داروں کو بھی متمکّن کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی آئے دن کی تقریروں میں نہ صرف جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں بلکہ عام انتخابات کے مطالبے میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ہمارے ہاں جو سرمایہ بنیاد نظام مسلّط ہے اور جس میں صرف سرمایہ دار ہی الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے وہاں عوام کے پچانوے فیصد طبقے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی جن کے لیے اور جن کے نام پر یہ پانچ فیصد اشرافیہ ہر بار برسرِاقتدار آتی ہے اور پنجابی محاورے کے مطابق بھینسیں بھینسوں کی چونکہ نہیں ہوتی ہیں، اس لیے اگر یہ طبقہ اپنے اپنے عہد میں کچھ کرتا ہے تو اپنے لیے یا اپنے ہم مرتبہ لوگوں کے لیے کرتا ہے جبکہ عوام کا کام صرف ان کے حق میں ووٹ ڈالنا ہوتا ہے یا روز بروز غربت کے گڑھے میں دھنستے جانا۔ بعض سیاسی جماعتیں گینگ اور جتھے ہیں جن کے اسلحہ برداروں میں چھٹے ہوئے بدمعاش بھی ہوتے ہیں اور پولیس کو مطلوب اشتہاری بھی۔ پھر ان کے اپنے قبضہ گروپ ہیں جن کے ذریعے یہ کمزور افراد کی جائیدادیں ہتھیانے کا کار خیر سرانجام دیتے ہیں اور کسی کارروائی کا خوف نہیں رکھتے کیونکہ پولیس بھی ان کے تابع ہوتی ہے اور سرکاری سرپرستی بھی انہی کو حاصل ہوتی ہے کہ سرکاری اقتدار کی عمارت انہی کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہر طرح کے چھوٹے بڑے جرائم انہیں زیبا ہیں جن میں رسّہ گری اور ڈکیتیاں تک شامل ہیں۔ رشوت ستانی اور نوکریاں بیچنا اس کے علاوہ ہیں۔ تبدیلی عمران خان کا بڑا زبردست نعرہ ہے جبکہ اس کی راہ میں مسائل بھی حائل ہیں اور جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ شہری علاقوں کے برعکس ووٹروں کی ایک بہت بڑی اکثریت کا تعلق دیہات سے ہے جہاں تعلیم کی کمی کے تناسب سے روشن خیال اور تبدیلی کا صحیح ادراک رکھنے والے نسبتاً بہت کم تعداد میں موجود ہیں کیونکہ ہمیشہ سے مقتدر اشرافیہ اور جاگیردار طبقے نے اپنے اپنے دیہاتی علاقوں میں علم کی روشنی پھیلنے ہی نہیں دی، حتیٰ کہ سڑکیں تک نہیں بننے دیں جبکہ ان کے مزارعے اور آدمی انہی کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں اور آزادانہ رائے دہی کا کوئی تصور ہی وہاں موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ایسے علاقوں میں عمران خان کی کوئی دال گل سکتی ہے۔ ہاں، جیسے 70ء کے زمانے میں پیپلزپارٹی یا بھٹو کے حق میں ایک ہوا چل پڑی تھی اور اب تو لوگ اس سے کہیں زیادہ تنگ اور کبیدہ خاطر ہیں، تو ایسی ہی ایک ہوا عمران خان کے حق میں بھی چل سکتی ہے۔ بے شک وہ ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد کا زمانہ تھا، تاہم مفاہمت، گٹھ جوڑ اور مک مکا پر مبنی حالیہ نام نہاد جمہوریت، نتائج کے اعتبار سے اس دور کی نسبت زیادہ مایوس کن رہی ہے اور تبدیلی کے اسرار و رموز کا صحیح طور پر ادراک نہ رکھنے والا دیہاتی بھی اس نعرے سے متاثر ہو سکتا ہے جبکہ عمران خان کا آزمودہ ہونا بجا طور پر ایک ترغیب اور کشش اپنے اندر رکھتا ہے۔ زمینی حقائق اور عمومی اندازوں کے مطابق موجودہ الجھے ہوئے مسائل کو حل کر لینا بظاہر کسی بھی آنے والی حکومت کے بس کا روگ نظر نہیں آتا لیکن عمران خان جیسا ایک نیا لیڈر اس مردہ قوم میں یقینا زندگی کی روح پھونک سکتا ہے اور اس بدنصیب ملک کی سوئی ہوئی تقدیر جاگ بھی سکتی ہے کیونکہ ایک نیا نکور آدمی ہی لوگوں میں ایک ولولہ تازہ پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے اور جب کوئی بھی پسماندہ قوم ایک لیڈر کے ساتھ یکسو ہو کر کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ کئی ایسے بھی معجزے برپا کر سکتی ہے، عام حالات میں جن کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ سو، دوسری ساری جماعتوں کے برعکس، عمران خان کا پارٹی الیکشن کرا دینا نہ صرف بجائے خود ایک بہت بڑی تبدیلی ہے بلکہ اس حتمی تبدیلی کی شروعات کا درجہ بھی رکھتی ہے جو عمران خان سمیت ہم سب کی منزل بھی ہے اور جو ابھی سخت محنت اور بہت سی قربانیوں کی طالب بھی ہے، یعنی ؎ نظر کے سامنے رہتا ہے نقشہ اس عمارت کا ظفرؔ جس کے لیے ہم نے کبھی مسمار ہونا ہے سو، عمران خاں اگر اس بار کامیاب نہیں بھی ہوتا یا مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں بھی کر پاتا تو یہ اس کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ یہ جنگ اقتدار کے لیے نہیں لڑ رہا اور اس کے نعرے ’’تبدیلی‘‘ کا مقصد و منتہا محض اقتدار حاصل کرنا ہے بھی نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ تبدیلی کے اس کارواں کو رواں دواں ضرور کر دے گا۔ مطلب یہ کہ اگر اس جماعت کا نام تحریک ہے تو یہ محض تحریک بن کر بھی بہت سے معرکے سر کر سکتی ہے کیونکہ جو لوگ اس کارواں میں شامل ہونے سے رہ جائیں گے، انہیں بالآخر اس کوتاہی کا احساس ضرور ہو جائے گا اور وہ اگلی بار اس کی تلافی کے لیے بھی تیار ہوں گے اور اگر سچ پوچھیں تو تبدیلی کا یہ پہیہ چل پڑا ہے جو اب کسی صورت رکنے کا نہیں۔ اس قوم نے تو خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اب کم از کم یہ کام تو شروع ہو گیا ہے جبکہ ایک صحیح آغاز محاورے کے مطابق ’’آدھی کامیابی تو ہوتا ہی ہے‘‘ اور اگر حرکت شروع ہو جائے تو پانی کی طرح کامیابی اپنا راستہ خود بناتی ہے کہ خدا کے ہاں بھی دیر ہے، اندھیر نہیں۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو دونوں بڑی پارٹیوں کی فرد عمل بالکل خالی ہے بلکہ بڑے بڑے گناہوں کے اندراج سے بھری پڑی ہے اور کیفر کردار کا اگر کوئی قانون ہے تو وہ ’’روبراہ ‘‘ بھی ہوتا ہے اور خود پر عمل بھی کرواتا ہے۔ اگر ایمانداری سے دیکھیں تو عمران خان کا دامن سراسر خالی بھی نہیں ہے۔ ورلڈ کپ کا اعزاز، کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی وغیرہ جبکہ یار لوگوں کے دامن میں کرپشن، زر اندوزی، اثاثہ سازی، اقربا نوازی اور عوام دشمنی کے علاوہ اور کچھ دستیاب نہ ہوگا۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کی بیداری کے اس سنہری زمانے میں عوام الناس کو دونوں میں تفریق و امتیاز کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ دوستی کے پردے میں چھپا ان کا دشمن کون ہے اور صحیح معنوں میں دوستی کا دم بھرنے والا کون، کہ وہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں! آج کا مطلع بدلے ہُوئے موسم کی فضا سب کے لیے ہے یہ ابر، یہ گلشن، یہ ہوا سب کے لیے ہے