میرے دوست، شاعر اور نقاد ابرار احمد مجھ سے اکثر کہا کرتے ہیں کہ کم و بیش آپ کی ہر غزل میں آپ نے دو تین شعر اپنے اور اپنی شاعری کے خلاف کہہ رکھے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا اور مجھے یہ بھی تسلیم ہے کہ یہ ایک منفی اور نحوست آمیز طرزِ عمل ہے، جس کا شدید احساس مجھے عارف شفیق کی غزلوں کا مجموعہ ’’یقین‘‘ دیکھ کر ہوا‘ جس میں شاعر نے تقریباً ہر غزل میں کم از کم اتنے ہی شعر اپنی تعریف میں کہہ رکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک مثبت طرزِ عمل ہے جس کی ہمارے معاشرے کو جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ حق بات بھی یہی ہے کہ جو شاعری کو شب و روز پھٹکارنے میں ہی مصروف رہتا ہو، لوگ بھی اس کے کلام کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں کہ جس شاعر کی شاعری خود اس کے اپنے نزدیک قابلِ تعریف نہ ہو، دوسرے اسے کیونکر درخورِ اعتنا سمجھیں گے۔ بصورت دیگر قارئین بھی اس شاعری کی تعریف اور استقبال کے بغیر نہیں رہ سکتے جو شاعر کی اپنی نظر میں اس حد تک قابلِ تعریف و توصیف ہو کہ شاعر نے خود اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے شاعر کو دوسروں کی تعریف کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں رہ جاتی کیونکہ اس معاملے میں وہ بہت حد تک خودکفیل ہوتا ہے اور کسی بیرونی تحسین کی بیساکھی پر دارومدار رکھنے کے بجائے خود اپنے پائوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ یعنی ع یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا وہ اپنے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں کہ میرا ایک شعر سینٹ میں پڑھا گیا اور ایک ہنگامے کا سبب بنا۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ہمارا کوئی شعر کبھی کسی یونین کونسل میں بھی نہیں پڑھا گیا چہ جائیکہ ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے میں اس کی گونج سنائی دی ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ کتاب کا مختصر دیباچہ بھی سینٹر عبدالحسیب خان کا تحریر کردہ ہے جن کے تعاون سے یہ کتاب زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ یہ اس مجموعے کا پانچواں ایڈیشن ہے اور جس کا مطلب ہے کہ مصنف کے علاوہ اہلِ فن، بالخصوص اہلِ کراچی بھی اس کے تحسین گزاروں میں شامل ہیں‘ ورنہ ہُماوشما کا تو زندگی بھر میں کتاب کا ایک ایڈیشن بھی چھپ جائے تو وہ نچلا نہیں بیٹھتا۔ عارف شفیق نے اپنی شاعری کو استعاروں اور اشاروں کے ذریعے چیستاں بنانے کی بجائے صراطِ مستقیم پر رواں دواں رکھا ہے چنانچہ یہ دو جمع دو چار قسم کی شاعری ہے جبکہ ہم جیسوں کی شاعری تو بالعموم دو جمع دو تین ہوتی ہے یا پانچ۔ اسی لیے زیادہ تر لوگ اسے مُنہ نہیں لگاتے اور اول الذکر قسم کے شعراء کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور ان کی شاعری کے ایڈیشن دھڑا دھڑ شائع ہو کر جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کراتے رہتے ہیں۔ دنیا سے بھی سرخرو ہوتے ہیں اور آخرت سے بھی ع ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند عارف شفیق کو چونکہ کرافٹ اور اوزان پر مکمل عبور حاصل ہے‘ اس لیے وہ عام شاعری کے مدار سے نکل کر موزوں شاعری کی فضا میں داخل ہوتی نظر آتی ہے اور قاری کو اس سے متاثر ہونے اور سبق حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ چونکہ یہ شاعری آسان اور عام فہم واقع ہوئی ہے، اس لیے آپ اسے سہلِ ممتنع بھی کہہ سکتے ہیں اور غالب کی طرح انہیں یہ بھی نہیں کہنا پڑتا کہ ع مشکل ہے زبس کلام میرا‘ اے دل جبکہ شاعر اس سرشاری میں خود بھی شامل ہے جیسا کہ اس نے اپنے پیش لفظ میں کہہ رکھا ہے کہ جب میں اپنے اشعار شہر کی دیواروں پر لکھے دیکھتا ہوں یا عوامی جلسوں میں جب میرے اشعار عوام کے جذبات اور سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں تو مجھے ایک نیا حوصلہ ملتا ہے۔ اس لحاظ سے آپ انہیں عوامی شاعر بھی کہہ سکتے ہیں کہ حبیب جالب کے اشعار کی پذیرائی بھی اسی طرح ہُوا کرتی تھی اور جسے اب ہمارے وزیراعلیٰ پنجاب جلسوں میں گا گا کر چار چاند لگا رہے ہیں جبکہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ سید قائم علی شاہ کو عارف شفیق کی شاعری سے استفادہ کرنے کی سعادت ابھی حاصل نہیں ہوسکی۔ع تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو ہمیں اعتراف ہے کہ ہم اس مجموعے کی پانچ غزلیں ہی بمشکل پڑھ سکے ہیں جس کی وجہ حسد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ بھی ایک قدرتی جذبہ ہوتا ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور جس کے اپنے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ چنانچہ اب ہم نے ارادہ باندھ لیا ہے کہ شہر کی دیواروں پر اور کوئی تو ہمارا شعر لکھنے سے رہا، ہم یہ کام خود کریں گے تاکہ اپنے نام کا ڈنکا کسی حد تک ہم بھی بجا سکیں۔ نیز اپنے دیوان کا ایک ایک نسخہ سیاسی قائدین کو بھی بھجوانے کا اہتمام کریں گے تاکہ وہ جلسوں میں ہمارے شعر پڑھ کر ہماری شاعری کی دھاک بٹھائیں کہ ہم کون سا کسی سے کم ہیں۔ افسوس کہ یہ نسخۂ کیمیا اب تک ہماری نظروں سے پوشیدہ ہی رہا۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔ اب آخر میں آپ کی نفیس طبع کے لیے اس مایۂ ناز کتاب میں سے کچھ اشعار : پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے کیوں مرا نام و نسب سوچ لیں پیغمبروں سے سلسلہ مل جائے گا پتھروں میں بھی گلابوں کو کھِلا دیتے ہیں عجیب لوگ ہیں عارف، بجھا رہے ہیں مجھے اندھیرا اوڑھے جو بیٹھے ہیں روشنی میں مری مجھے یقین ہے عارف میں ایک سورج ہوں ہوا کے دوش پر رکھا ہوا چراغ نہیں جو بنایا تھا میں نے تاج محل کیا کوئی دوسرا بنائے گا جدید لہجے میں تازہ خیال لکھتا رہا تمام عمر میں اپنی مثال لکھتا رہا دیتا ہوں فیصلہ میں ہر اک ظلم کے خلاف یہ شاعری ہے میری عدالت عوام کی مرا ہر شعر کیوں زندہ ہے عارف اگر تخلیق کی قوت نہیں ہے آج مطلع اسی جہاں میں ہوں لیکن جہاں نہیں میرا زمیں کسی کی ہے اور آسماں نہیں میرا