شبنم شکیل ایک عمدہ شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ملنسار اور دلنواز شخصیت سے بھی مالا مال خاتون تھیں۔ عجیب بات ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی مرتا ہے، دنیا والوں کو تب ہی خبر ہوتی ہے اور کسی شاعر کے پیدا ہونے کا سراغ کہیں نہیں ملتا کیونکہ شاعر جب بنتا ہے تو اس کے پاس ضائع کرنے کے لیے تقریباً نصف عمر ہی باقی رہ گئی ہوتی ہے اور عموماً یہی حصہ اس کے ہونے کے جواز کے طور پر بھی سامنے آتا ہے اور اس کے باوجود کہ ہمارے اس دور میں شاعری کو کچھ زیادہ درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا حالانکہ شاعر ہونا یقینا فضیلت کی بات ہے۔ خاتون شعرا میں زہرہ آپا، فہمیدہ ریاض، عذرا عباس اور کشور ناہید کی کہکشاں شبنم شکیل کے بغیر مکمل نہیں ہوتی لیکن جیسا کہ کہکشائوں سے ستارے جھڑتے اور کم ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ ستارے بجھنے کی بجائے اپنی روشنی محفوظ بھی کر جاتے ہیں، ساری کی ساری ساتھ ہی نہیں لے جاتے بلکہ ہمارا ورثہ قرار پاتے ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ یہ ستارہ کوئی دن اور بھی باقی رہ جاتا حالانکہ وہ ایک طرح سے ہمارے درمیان موجود ہی رہتا ہے۔ شبنم شکیل بھی ایک ایسا ہی روشن ستارہ تھیں ع خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود اپنی شاعری کا چوتھا مجموعہ ’’غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘ میں نے اسے بھجوایا تو کچھ دنوں بعد اس کا فون آیا کہ ظفر صاحب! آپ نے ہمارے کہنے کے لیے تو کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ یہ بھی اس کی محبت کا ایک انداز تھا۔ ویسے ایسی یادگار غزلیں اس نے بعد ہی میں کہیں جن میں سے ایک کا یہ شعر ہے ؎ آدھی مان چکی ہوں اس کی آدھی بات پہ اڑی ہوئی ہوں اس کے علاوہ ایک عجیب بات یہ بھی ہے اور یہ میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ جو خواتین شاعری سے فکشن کی طرف آئیں، انہوں نے اس میدان میں بھی ہنرمندی کا اظہار کیا جن میں بشریٰ اعجاز اور شبنم شکیل بطورِ خاص قابل ذکر ہیں۔ شاعری کے تین، افسانوں کا ایک اور خاکوں کا ایک مجموعہ شبنم شکیل کے کریڈٹ پر موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شبنم کا ایک افسانہ‘ جس کا عنوان غالباً ’’ایک ہی کمرے کے مکین‘‘ تھا‘ ایک یادگار تحریر ہے اور جس کا خلاصہ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص دوسری شادی کر لیتا ہے لیکن اس کی پہلی بیوی اس قدر جابر اور سخت گیر ہے کہ وہ اس سے یہ عہد لے لیتی ہے کہ وہ دوسری بیوی کے پاس نہیں جائے گا اور باقاعدہ ان کی نگرانی کرتی ہے لیکن ایک بار پہلی بیوی گھر سے کہیں باہر گئی تو ان دونوں کو موقع مل گیا۔ پہلی کو پتہ چلا تو ظاہر ہے کہ اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور اپنی سوتن کو ہر طرح کی تنگی ترشی دینا شروع کر دی اور دوسری بیوی بڑی مشکل میں پڑی رہی۔ لیکن آخر کار پہلی بیوی کو رحم آ گیا اور اس نے اُسے ضروری سہولیات فراہم کرنا شروع کر دیں اور اس کے کھانے پینے کا بھی خیال رکھا۔ یہ انسانی فطرت میں رحم دلی اور تلافیٔ مافات کا ایک انوکھا اظہار تھا۔ اس طرح ’’پیلی چھتری والی‘‘ بشریٰ اعجاز کا ایک رومانوی لیکن زبردست افسانہ تھا۔ شبنم شکیل، عابد علی عابدؔ کی بیٹی ہونے کے حوالے سے اپنے باپ ہی کا قد کاٹھ اور شکل و شباہت لیے ہوئے تھیں۔ مشاعروں میں انہیں بطور خاص بلایا جاتا۔ شکیل بھی ایک دھیمے مزاج کے نفیس الطبع افسر تھے جو شبنم کی ادبی اور مجلسی زندگی میں ہمیشہ معاون اور مددگار رہے۔ شبنم اور شکیل کے لیے دعائے مغفرت اور ان کی مختصر اولاد کے لیے صبر کی تلقین۔ ناصرؔ کاظمی اگلے روز ممتاز اور صاحب طرز شاعر ناصر کاظمی کی برسی منائی گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی چھ ماہ پہلے بھی اس منفرد شاعر کی برسی منائی گئی تھی جس پر میں نے کالم بھی لکھا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وقت اور تاریخ کچھ آگے پیچھے ہو گئے ہوں بہرحال برسی کسی مرحوم شخصیت کو یاد کرنے کا بہانہ ہی ہوتا ہے اور اس لیے ناصر کاظمی جیسے شاعر کی یاد تو جتنی زیادہ منائی جائے، کم ہے کہ یہ ان کے لیے ایک خراج عقیدت و محبت بھی ہے۔ اس تقریب میں ناصر کے شاعر صاحبزادے باصرؔ سلطان کاظمی بھی شریک تھے جنہیں ایک یادگار پیش کی گئی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ناصر کے پرانے اور ہردم کے ساتھی انتظار حسین بھی تھے۔ شاعر تو وہ نہایت عمدہ تھے ہی، ناصر کاظمی کی خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ نرے شاعر ہی نہیں، شاعری کے بارے میں نہ صرف مخصوص خیالات رکھتے بلکہ ان کا اظہار بھی کرتے تھے۔ حنیف رامے، انتظار حسین، شیخ صلاح الدین اور دیگر ہم عصروں کے ساتھ ان کے طویل ڈائیلاگ بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ میر تقی میرؔ کا حوالہ ان کی گفتگو میں ضرور آتا کیونکہ نہ صرف وہ میرؔ سے بیحد متاثر تھے بلکہ اس بڑے شاعر کی روایت کے امین بھی تھے۔ اس کے علاوہ ذاتی ڈائری اور یادداشتیں لکھنے کا شوق بھی آخر دم تک رہا۔ پاک ٹی ہائوس کی شامیں انہی کے دم قدم سے آباد تھیں۔ مشاعرو ں میں بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا اور یہ وہ زمانہ تھا جب فیض احمد فیضؔ، منیرؔ نیازی اور ناصرؔ کاظمی کی شاعری کا ڈنکا چاروں کھونٹ بج رہا تھا۔ اور اب آخر میں اپنے حافظے کی مدد سے اس البیلے شاعر کے چند اشعار میں آپ کو شریک کر رہا ہوں: جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں کبھی دیکھی تھی اس کی ایک جھلک رنگ سا جم رہا ہے آنکھوں میں جس نے اک عمر دل میں شور کیا وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں گل نہیں، مے نہیں، پیالہ نہیں کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں ابھی وہ رنگ دل میں پیچاں ہیں جنہیں آواز سے علاقہ نہیں ابھی وہ دشت منتظر ہیں مرے جن پہ تحریرِ پائے ناقہ نہیں اے دوست ہم نے ترک تعلق کے بعد بھی محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی دائم آباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا داتا کی نگری میں، ناصرؔ میں جاگوں یا داتا جاگے دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر کوئی چپکے سے پائوں دھرتا ہے دل تو میرا اداس ہے، ناصرؔ شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے آج کا مطلع میں اپنے گھر میں رہتا ہوں، وہ اپنے گھر میں رہتا ہے فتور ایک اور ہی گھر کا ہمارے سر میں رہتا ہے