بیگم صاحبہ نے خوبرو ملازمہ سے کہا: تم نوکری چھوڑ کر جارہی ہو، صاحب کو تمہارے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا اتنا پسند تھا، اب ان کا کیا ہوگا۔ نوکرانی نے جواب دیا: آپ ان کی فکر نہ کریں، وہ بھی میرے ساتھ ہی جارہے ہیں ! ہمارے دوست رانا اکرام ربانی پیپلزپارٹی چھوڑ کر نواز لیگ میں کیا گئے، پارٹی کے 100بنیادی کارکن بھی لپیٹ کر ساتھ لے گئے، حتیٰ کہ احمد حسن منا کو بھی اسی گھاٹ اتاردیا جن کا شمار کسی زمانے میں ان لوگوں میں ہوا کرتا تھا جو پارٹی کی اصل شناخت کا درجہ رکھتے تھے۔ جب پکی یاریاں بھی ٹوٹنے پر آجائیں تو تڑک کرکے ٹوٹ جایا کرتی ہیں۔ چنانچہ ان حضرات نے رانا صاحب کی ولولہ انگیز قیادت پر اعتماد کا اظہار، ذرا دیر سے سہی، لیکن کردیا۔ پارٹی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد پرویز مشرف کے لڑلگنے کے باعث اگلے الیکشن میں رائو سکندر اقبال کا جو حشر ہوا تھا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اب ان کے صاحبزادے عاطف سکندر نواز لیگ میں شامل ہونے کے بعد نواز لیگ سے‘ اپنے والد کی چھوڑی یا چھینی ہوئی سیٹ پر ٹکٹ کے لیے بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ پیپلزپارٹی شروع ہی سے رائو اور رانا برادری میں تقسیم چلی آرہی تھی حتیٰ کہ اس دھڑے بازی کو کم و بیش ہرجگہ پر بھٹو مرحوم کی بھی درپردہ حمایت حاصل رہی۔ چنانچہ قومی اسمبلی کا ٹکٹ رائو سکندر کے حصے میں آتا اور صوبائی کا رانا اکرام کو حقدار سمجھا جاتا۔ چنانچہ رائو صاحب دوبارہ منتخب ہوکر وفاقی وزیر بنے اور رانا صاحب ایک بار صوبائی وزیر اور دوسری بار پنجاب اسمبلی میں قائدحزب اختلاف کی کرسی پر براجمان رہے۔ پھریوں ہوا کہ رانا صاحب تو اوکاڑہ سے اپنی مسلسل غیرحاضری اور لاہور میں قیام کی وجہ سے آئوٹ ہوگئے اور رائو صاحب پارٹی چھوڑ کر۔ شاید اسی پرانی دھڑہ بندی کے کارثواب میں شامل ہونے کے لیے ہی رائو عاطف کے بعد خود بھی نواز لیگ کو زیب دے رہے ہیں تاکہ یہاں بھی حسب سابق رائو برادری کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ رائو برادری اگر خدانخواستہ دوزخ میں بھی جاپہنچے تو رانا صاحب اس کا پیچھا وہاں تک بھی کرتے نظر آئیں گے کہ آخر مستقل مزاجی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ الیکشن کے موقع پر رانا صاحب کے مقلدین رائو عاطف کو ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ خاندانی رقابت ہی کاشاخسانہ ہے ورنہ پارٹی کی نظریاتی بنیاد تو خود بھٹو صاحب کے وقت ہی سے منہدم ہونا شروع ہوگئی تھی ، حتیٰ کہ بھٹو صاحب نے جے ایم رحیم، حنیف رامے اور افتخار تاری جیسے نظریہ سازوں اور جانثاروں کے ساتھ ایسا ایسا عبرت ناک سلوک کیا کہ رفتہ رفتہ ڈاکٹر مبشر حسن سے لے کر فرخ سہیل گوئندی اور ڈاکٹر عبدالخالق جیسے لوگ یا تو بددل ہوکر خود ہی پارٹی چھوڑ گئے یا انہیں مکھن میں سے بال کی طرح صاف باہر نکال دیا گیا اور پارٹی تمام نظریات کو طاق نسیاں پر رکھتے ہوئے پاور پالیٹکس کے نظریے پر عمل پیرا ہوگئی حتیٰ کہ بی بی شہید بھی اسی پر کارمند رہیں ۔ چنانچہ پیپلزپارٹی جو کبھی ایک کیفیت کا نام تھا، دوسری جماعتوں کی طرح محض ایک گینگ بن کر رہ گئی؛ اگرچہ عوام کا ایک طبقہ اور بچے کھچے کارکن اب بھی کم وبیش اسی کیفیت میں مبتلا ہیں اور پارٹی کے پاس بیچنے کو یہی مال دستیاب ہے جس کی بدولت اسے الیکشن میں جتنی بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے، قبر فروشی کاطعنہ بھی اسے سننا پڑتا ہے۔ اور اب حالیہ دور میں اس نے کرپشن بلکہ میگا کرپشن کے جوجو ریکارڈ قائم کیے ہیں ان کے باوجود اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہے؛ حالانکہ موجودہ حالات میں یہ بڑے حوصلے کی بات ہے لیکن اگر وہ ایسا دعویٰ بھی نہ کرے تو اور کیا کرے۔ لوٹا ہونا پہلے پہلے بہت معیوب سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ خود میاں نوازشریف اس کے خلاف طرح طرح کی باتیں بنایا کرتے تھے لیکن انہوں نے ق لیگ سے ٹوٹے ہوئے اراکین کو گلے لگاکر گویا سجدۂ سہو کرلیا لیکن اپنی ازلی اور روایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے موصوف چودھری برادران کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے ورنہ اب تک نہ صرف یہ کہ ان کی اپنی جماعت کا نقشہ کچھ اور ہوتابلکہ انہیں بھانت بھانت کے وہ لوگ اپنی جماعت میں شامل کرنے کی ضرورت نہ پڑتی جو بہت جلد ان کے لیے مسائل اور مشکلات بھی پیدا کرنے والے ہیں جبکہ تحریک انصاف ایک ٹھوس خطرے کی شکل میں منہ پھاڑے ان کے سرپر کھڑی نظرآرہی ہے۔ سو، پیپلزپارٹی کے لوگ نواز لیگ میں جائیں یا نواز لیگ کے پیپلزپارٹی میں، دونوں جماعتوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ نکو ّنک آئے ہوئے عوام تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ یہ دونوں نہ صرف یہ کہ سٹیٹس کو کی جماعتیں ہیں اور ان سے تبدیلی لانے کی توقع کوئی بیوقوف ہی کرسکتا ہے بلکہ بدحکومتی ایک ایسا سیاہ داغ ہے جو دونوں جماعتیں اپنے اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے ہیں۔ نیز آزمودہ راآزمودن جہل است، کسی نے یونہی نہیں کہہ رکھا، اور نہ ہی جاہل عوام اب اتنے جاہل رہ گئے ہیں کہ انہیں سامنے کے زمینی حقائق بھی نظر نہ آرہے ہوں بلکہ دیہات کے جاہل گھرانوں میں بھی ایک آدھ پڑھا لکھا نوجوان ضرور موجود ہوتا ہے جو بزرگوں سمیت جملہ اہل خانہ کو الیکشن کے دوران صحیح سمت میں لے جانے پر مجبور کرسکتا ہے اور ایسا ہوتا نظر بھی آرہاہے۔ الا ماشاء اللہ یہ دونوں بڑی پارٹیاں جن سرویز اور تخمینوں پر انحصار کررہی ہیں ان کی حیثیت مغالطہ آمیز کارروائیوں کے سوا کچھ نہیں جبکہ بعض سرویز ایسے بھی ہیں جن پر کھلا الزام ہے کہ ان پر فلاں فلاں پارٹی بوجوہ اثرانداز ہے۔ یادرہے کہ الیکشن 70ء سے پہلے بھی اسی طرح کے کئی تخمینے پیش کیے گئے تھے، حتیٰ کہ ہماری اپنی ایجنسیاں دھوکا کھاگئی تھیں اور نتیجہ ان سب کے اندازوں سے قطعی مختلف نکلا تھا۔ وہ بھی تبدیلی ہی کی اجتماعی خواہش کا کرشمہ تھا اور آج بھی حالات ان سے مختلف نہیں ہیں اور تبدیلی اگر آنی ہے تو آزادانہ ووٹ ہی کے ذریعے آنی ہے اور ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ ماضی کے برعکس ہرووٹر اپنی آزاد مرضی اور ضمیر کے مطابق ووٹ ڈال سکے اور کسی طرح اس نام نہاد اور موروثی جمہوریت سے عوام کی گلوخلاصی نوشتہ دیوار کی صورت نظر بھی آرہی ہے۔ چنانچہ رانا اکرام ربانی جو خود بھی کبھی نظریاتی کارکن ہونے کے حوالے سے پیپلزپارٹی میں اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتے تھے اور وہ اگلی سی پیپلزپارٹی اب رہی بھی نہیں اس لیے اب ایسے حضرات کا پارٹیوں میں آنا جانا کوئی نظریاتی یا اصولی معانی نہیں رکھتا۔ لیکن ایک بات بہرحال طے ہے کہ یہ 100بنیادی کارکن اگر پیپلزپارٹی میں نظرانداز کیے گئے تو نواز لیگ کے پاس بھی انہیں سرپربٹھانے کی کوئی جگہ نہیں ہوگی کیونکہ ان کے اپنے کارکنوں کی حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے اور نہ ہی ان نوآمدوں کے لیے نئی جماعت میں کوئی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ یہاں بھی وہ دوسروں کے ساتھ دریاں اور کرسیاں بچھانے اور پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہی نظر آئیں گے یعنی آسمان سے گرکر بھی کھجور میں اٹک جائیں گے۔ یہ حضرات میرے بھی پرانے ہمسفر اور ذاتی دوست ہیں اس لیے میں تو ان کے حق میں دعا ہی کرسکتا ہوں کہ جہاں رہیں خوش رہیں۔ اور درویش کی صدا کیا ہے! آج کا مقطع اسی زرد پھُول کی بددعا ہے ظفرؔ، یہ دل کی فسُردگی مرا منتظر رہا مدّتوں جو پسِ نقاب کھِلا ہوا