یادداشت ہی کے ضمن میں ایک اور قصہ بھی سن لیجئے: یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب صدر جنرل پرویز مشرف بھارتی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے آگرہ گئے اور اپنے ساتھ چند صحافیوں کو بھی لے گئے تھے جن میں میرا بیٹا آفتاب اقبال شامل تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم الٰہ آباد تو شاید نہ جاسکو البتہ وہاں میرے دوست فاروقی کی طبیعت ان دنوں خراب رہتی ہے جن کا بائے پاس بھی ہوا ہے، فون کرکے ان کی خیریت ضرور دریافت کرلینا۔ آفتاب بتاتا ہے کہ جب اس نے فون کیا تو اس وقت عبدالقادر حسن وغیرہ بھی بیٹھے تھے۔ فاروقی صاحب نے ریسیور اٹھایا اور کہا فاروقی، آفتاب نے کہا مجھے شرارت سوجھی اور میں نے کہا، کیا آپ ظفر اقبال کو جانتے ہیں؟ جواب میں ایک طویل خاموشی کے بعد کہا کہ بھائی، ظفر اقبال کو کون نہیں جانتا، اور آپ کون ہیں؟ آفتاب نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا، آفتاب، یہاں کسی کو نہیں بتانا کہ تم ظفر اقبال کے بیٹے ہو، ورنہ لوگ تمہاری بوٹیاں نوچ لیں گے۔ کوئی کہے گا میرے ساتھ کھانا کھائو، کوئی مووی دکھانے کا کہے گا اور کوئی سیر سپاٹے کا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرؔ کے بعد ظفر اقبال ہیں اور جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ 35 سال سے ظفر اقبال کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی کو تو چھ ماہ پہلے کی بات بھول گئی تھی۔ فاروقی صاحب والا معاملہ تو دس سال پہلے کا ہے، اس لیے انہیں یہ بات کب یاد ہوگی جس میں انہوں نے غالبؔ کو بھی صاف کردیا اور اقبال کو بھی اور اب تو خدا اسے مزید دراز کرے، ان کی عمر بھی کافی ہوگئی ہے جس میں یادداشت ویسے بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ پھر یہ گواہی تو میرے بیٹے کی ہے۔ اس پر تو قانوناً بھی انحصار نہیں کیا جاسکتا کہ گواہی کسی غیر جانبدار شخص کی ہونی چاہیے۔ فاروقی ’’شعرِ شررانگیز‘‘ کی چاروں جلدوں سمیت مجھے اپنی ہر تصنیف بھجوانے کی کرم فرمائی کرتے رہے ہیں لیکن وہ ’’لفظ و معنی‘‘ کے پہلے ایڈیشن کا نسخہ مجھے بھجوانا بھول گئے۔ البتہ دوسرا ایڈیشن جو ’’دنیا زاد‘‘ کراچی نے شائع کیا ہے، اس میں واقعی ایسی بات موجود نہیں ہے ماسوائے دو تین جگہ پر اپنی روایتی محبت کے ساتھ میرے ذکر کے۔ مثلاً صفحہ 226 پر یہ عبارت موجود ہے کہ ’’غالبؔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں میرؔ کے اسلوب کو برتتے ہیں لیکن ان کے یہاں آہنگ کی اونچائی میرؔ کے عام طرز کی نفی کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سوداؔ کے یہاں بذات خود غالب کی پیش آمد نہیں ہے۔ لیکن اگر سودا اور میرکو ملایا جائے تو غالب کا سا کردار واضح ہوسکتا ہے۔ ظفر اقبال کی غزل اس امتزاج کا بہترین نمونہ ہے۔۔۔‘‘ ہوسکتا ہے یار لوگوں نے اسی تحریر سے بات کااستنباط کرلیا ہو کہ ظفر اقبال غالبؔ سے بڑا شاعر ہے۔ علاوہ ازیں، میرے پاس مشفق خواجہ کے لیٹر پیڈ پر لکھی ہوئی ان کی ایک تحریر موجود ہے جو انہوں نے ایک خط میں درج کی تھی کہ شمس الرحمن فاروقی نے کسی ریڈیو ٹاک میں کہا ہے کہ ظفر اقبال غالبؔ سے بڑا شاعر ہے، اور یہ بھی کہ اس بات سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ یہ گواہی بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ان سے بھی تصدیق نہیں ہوسکتی کہ اگلے جہان پہنچ چکے ہیں چنانچہ گواہ اگر بیٹھ جائے یا انتقال کرجائے تو اس کا علاج تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے! ظاہر ہے کہ سید وقار حسین بھی میری طرح ایک بزرگ آدمی ہوں گے، اس لیے شاید موقعہ ملے تو ان سے بھی یہ پوچھنے کی ضرورت پڑ جائے کہ آپ سے اس حوالے سے جو بیان منسوب کیا جاتا ہے، کیا آپ کو یاد ہے یا نہیں۔ بہرحال! بات اتنی غیر اہم تھی کہ بعد میں دو تین ملاقاتوں میں بھی فاروقی سے میں نے اس کی تصدیق کرنا ضروری نہیں سمجھا، کراچی کے رسالے ’’سپپ ‘‘ اور فیصل آباد کے ’’زرنگار‘‘ میں میرا ایک مضمون بعنوان ’’ہم کو شاعر نہ کہو میر‘‘ شائع ہوا ہے جس میں پوری سنجیدگی سے کہا گیا ہے کہ یار لوگ خواہ مخواہ پریشان ہیں، میں تو اپنے آپ کو شاعر کہتا اور سمجھتا ہی نہیں۔ میں اگر شاعر ہوں بھی تو ردِ تعلّی کا شاعر ہوں اور سیلف پیروڈائزیشن کا قائل، اپنی نام نہاد شاعری میں جتنی بھداپنی اور اپنی شاعری کی خود میں نے اڑائی ہے، کوئی اور کیا اڑائے گا جبکہ میں تو یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ میرے مرنے کے 50 سال بعد یہ فیصلہ ہوچکے گا کہ میں چھوٹا شاعر تھا یا بڑا یا شاعر تھا بھی کہ نہیں۔ چنانچہ میں اگر ایسی کسی جلدی میں ہوں ہی نہیں تو میں غالبؔ جیسے شاعر کے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہوں جس کی انگلی پکڑ کر میں نے شعر کے میدان میں قدم قدم چلنا سیکھا۔ چنانچہ کالموں میں کہی گئی میری باتوں کو میرا مؤقف قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے بقول شمس الرحمن فاروقی میری اینٹی غزل کو ہی اصل شاعری قرار دے کر اس کے بارے میں رائے قائم کرنا۔ تاہم اتنی محبت اور یگانگت کے باوجود ہمارے درمیان اختلاف رائے بلکہ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے جسے مخالفانہ یا معاندانہ قرار دینا پرلے درجے کی ناانصافی ہوگا۔ ہم چاروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اختلاف رائے کو شجر ممنوعہ سمجھتا ہو۔ چنانچہ فاروقی نے اگر کہیں یہ بات کہہ بھی دی ہو تو انہیں اپنی ہر بات سے رجوع کرنے کا حق ہر وقت حاصل ہے کیونکہ کسی نقاد کو ہمیشہ کے لیے اس کی کسی بات کا پابند نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور ادبی رائے کبھی پتھر کی لکیر نہیں ہوتی کیونکہ ذہن اور ذائقے کا تبدیل ہوتے رہنا قدرتی بات ہے۔ سو، میری تعریف کی جائے یا تنقیص، میں اتنا ہی رہوں گا جتنا کہ ہوں۔ گھٹوں گا نہ بڑھوں گا۔ نیز، میں جیسا اور جتنا بھی ہوں، اپنے پائوں پر کھڑا ہوں، کسی بیساکھی کے بغیر اور اگر میں واقعتاً شاعر ہوں اور غالب سے بڑا بھی، تو اس پر مجھے کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر غالب کو اس کی زندگی میں کتنے سرٹیفکیٹ دیئے گئے تھے؟ اور ہاں، فنی اختلافات میں نے غالب کے ساتھ بھی روا رکھے ہیں اور ’’دیوان غالب مرمت شدہ‘‘ کا سلسلہ مضامین اسی سلسلے کا اظہار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ غالب لوگوں کے نزدیک ایک عقیدے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس سے میں اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اساتذہ کے حوالے سے بھی پرکھ پڑچول ہوتی رہنی چاہیے کیونکہ شاعر اگر زیر بحث رہنے سے محروم ہوجائے تو طاق نسیاں کی زینت بن جاتا ہے جبکہ کسی کو کسی سے چھوٹا یا بڑا قرار دینا ایک فضول اور لاحاصل بحث ہے۔ ہر شاعر اپنا کردار ادا کرتا اور دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ وہ زندہ اور قابل ذکر کب تک رہتا ہے۔ یہ اس کے کام اور قسمت پر منحصر ہے۔ اور، یہ جو بھائی صاحب نے لکھا ہے کہ ہوسکتا ہے کبھی مجروح سلطان پوری کا کوئی شعر ظفر اقبال کے نام سے مشہور ہوجائے تو میرے حق میں اس سے بڑی بددعا اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ جیب خالی جو ہوئی ہے تو کہیں جاکے، ظفر باز آیا ہوں محبت کی خریداری سے (جاری)