پچھلے دنوں ڈاکٹر سلیم اختر کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب کے موقع پر محبی عطاالحق قاسمی نے مجھ سے کہا کہ آپ نے شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں چار قسطوں میں جو مضمون شائع کرایا ہے‘ آپ کو وہ نہیں لکھنا چاہیے تھا کیونکہ اس کی وجہ سے سارا بھارت آپ کے خلاف ہوگیا ہے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ پہلے یہ بتایئے کہ جو باتیں میں نے لکھی تھیں‘ وہ صحیح ہیں یا غلط‘ تو انہوں نے کہا کہ باتیں تو سو فیصد صحیح تھیں۔ جس پر میں نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو بھارت چھوڑ‘ ساری اردو دنیا بھی میرے خلاف ہوجائے‘ جس بات کو میں صحیح سمجھتا ہوں‘ ضرور لکھوں گا جبکہ مجھ سے محبت کرنے والے اور مخالف پہلے ہی بھارت میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں‘ اس دوران ایک دوست نے فیس بک پر شائع ہونے والے ایک مضمون کا ٹرانسکرپٹ مجھے دکھایا جس کے مصنف بھارت ہی میں ایک ایسے رسالے کے ایڈیٹر ہیں۔ فاروقی موافق اور نارنگ مخالف ہونے کی جس کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس مضمون میں ایک مکالمے کی صورت میں میرے مذکورہ مضمون کا جواب دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ چونکہ یہ عزیز اس معاملے میں فریق تھے نہ شریک‘ اس لیے میں غیر متعلقہ سمجھتے ہوئے اس پر اپنی رائے نہیں دوں گا۔ ماسوائے اس کے کہ میری کسی تحریر پر کوئی بھی تبصرہ کرنے کا ہر ایک کو حق حاصل ہے کیونکہ جو کام میں خود کرتا ہوں‘ اس سے دوسروں کو کیسے منع کرسکتا ہوں۔ کہیں بہتر ہوتا کہ فاروقی میری تحریر کا جواب حسبِ سابق خود دیتے جبکہ یہ مکالمہ خالصتاً میرے اورانہی کے درمیان چل رہا تھا اور انہیں اس سلسلے میں کسی سہارے یا کمک کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سلسلے میں ایک لطیفہ تو یہ ہے کہ فاروقی سے منسوب یہ بات کوئی پندرہ بیس سال سے ہوائوں میں گرداں تھی اور جس کا علم ہونے کے باوجود انہوں نے اس کی تصدیق کرنا ضروری سمجھا نہ تردید۔ حتیٰ کہ انتظار حسین کے حوالے سے پچھلے سال جب اس موضوع پر مجلّہ ’’دنیا زاد‘‘ کراچی میں میرا مضمون شائع ہوا، تب بھی انہوں نے اس کا نوٹس لینا مناسب نہ سمجھا۔ لیکن اب اچانک آ کر انہوں نے یہ گڑھا مردہ اکھاڑنا ضروری خیال کیا حالانکہ فاروقی اس رسالے میں خود بھی باقاعدگی سے چھپتے ہیں۔ اس ’’دیر آشنائی‘‘ پر یاد آیا کہ کوئی شخص کسی کے گھر کے سامنے کھڑا اسے گالیاں دے رہا تھا کہ ایک راہ گیر نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ اس نے پچھلے سال مجھے گینڈا کہا تھا۔ راہ گیر نے کہا کہ گینڈا تو اس نے تمہیں پچھلے سال کہا تھا لیکن گالیاں تم اسے آج دے رہے ہو۔تو وہ بولا کہ گینڈا میں نے دیکھا ہی آج ہے! سو‘ خوشی اس بات کی ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد ہی سہی‘ ہمارے دوست نے گینڈا دیکھ تو لیا۔ البتہ میں نے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کے حوالے سے جو واقعہ بیان کیا تھا‘ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فاروقی اس کی بھی تردید یا تصدیق کر دیتے۔ میں اپنی تو قسم نہیں دیتا لیکن میرا بیٹا جھوٹ نہیں بول سکتا۔ چنانچہ اگر فاروقی اس سے بھی مکرتے ہیں تو انہیں اس جملے سے بھی مکر جانے کا پورا پورا حق حاصل ہے جو اس سارے ’’فساد‘‘ کی جڑ ہے۔ اس کے علاوہ ایک کمزور شہادت اور بھی ہے کہ چند سال پیشتر محبّی غلام حسین ساجد سے اس ضمن میں بات ہورہی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی فاروقی صاحب سے اس کی تصدیق چاہی تھی جس پر انہوں نے کہا تھا کہ یہ بات میں نے ظفر اقبال کے بارے میں نہیں بلکہ علامہ اقبال کے بارے میں کہی تھی۔ اب اگر فاروقی اسی بات پر پکے ہوجائیں تو ایک دلچسپ بحث کا دروازہ کھل سکتا ہے کہ اقبال غالب سے بڑے شاعر تھے۔ اصل رونا اس بات کا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شاعری ہو یا تنقید‘ بھارت ایک بے برکت اور بد دعایا ہوا ملک ہے۔ غزلیہ شاعری میں وہاں محض موزوں گوئی سے کام لیا جارہا ہے اور یہ وبا ہمارے ہاں بھی موجود ہے‘ چنانچہ وہاں کے اکثر و بیشتر نقاد بھی شاعری اور موزوں گوئی میں جو فرق ہے‘ اس کا احساس و ادراک کیے بغیر، موزوں گوئی ہی کو شاعری قرار دے رہے ہیں اور قارئین کو بھی یہی کچھ باور کرا رہے ہیں چنانچہ وہاں اردو غزل کی جو حالت ہوچکی ہے اس کی ذمہ داری سے وہاں کے نقاد حضرات ہرگز مبرّا قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ حال ہی میں مجھے سلطان اختر،پریم کمار نظر اور پروین کمار اشک کی غزلیہ شاعری پر فاروقی کے مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور وہ میرے لیے ایک صدمے سے کم نہیں تھا کیونکہ ان کی تعریف کے اس قدر پُل ان مضامین میں باندھے گئے تھے کہ میں اپنے اس شعر کا واقعی قائل ہوگیا ؎ جو دوسرے یہاں کرتے ہیں شاعری ہے اگر تو میں جو کرتا ہوں وہ شاعری نہیں ہرگز میں خدا سے بہت ڈر کر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ یہ اور ایسے کئی دوسرے محض روٹین کے شاعر ہیں، حتیٰ کہ فاروقی نے اپنے مضامین اور دیگر تذکروں میں جو میری تعریف کر رکھی ہے‘ میری نظر میں وہ بھی کسی حد تک مشکوک ہوگئی ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں نقاد حضرات صرف پی آر کے آدمی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر وہ دوسروں کی بے محابا تعریف نہیں کریں گے تو وہ بھی انہیں اہمیت دینا چھوڑ دیں گے۔ محبی آصف فرخی نے مجھے بتایا ہے کہ فاروقی نے غزل پر انہیں اپنا مضمون بھجوایا ہے جسے وہ اگلے شمارے میں چھاپ رہے ہیں اور وہ اس پر میرا کمنٹ چاہیں گے۔چنانچہ مجھے اس کا انتظار اس لیے بھی ہے کہ جو رائے غصے یا رنجش کے عالم میں دی جائے وہ عمومی رائے سے خاصی حد تک صحیح اور بہتر ہوتی ہے۔ کئی سال پہلے یعنی میرے اور فاروقی کے ’’مقاطع‘‘ کے دوران انہوں نے انعام ندیم کے شعری مجموعے کا دیباچہ لکھا جس کے فلیپ پر میری رائے بھی درج تھی۔ اس مضمون میں انہوں نے جہاں جدید غزل اور اس کے ارتقا کا ذکر کیا وہاں میرا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ حتیٰ کہ جہاں انہوں نے شاعر کے ہاں زبان کے تجربات کا کھوج بھی لگا دیا تو میں وہاں سے بھی غائب تھا جس سے میں لطف اندوز بھی ہوا اور مرزا محمود (سرحدی) کا یہ شعر بھی مجھے یاد آیا ؎ بغاوت کے ترانے ہم نے گائے مگر پکڑے گئے فارغ بخاری سوال یہ نہیں ہے کہ میری اتنی مدّاحی کے بعد فاروقی نے اپنا رویہ اس طرح تبدیل کیسے کرلیا، کیونکہ وہ کام کوئی تیس، پینتیس برس پہلے شروع ہوا تھا جبکہ اب وہ بڑے ہوچکے ہیں اور اپنی ان تحریروں کو بچپن کی غلط کاریاں سمجھتے ہوئے‘ اب معاملات کو انہیں بالغ نظری سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اپنے ہر بیان سے رجوع کرسکتے ہیں جس کا ویسے بھی ایک نقاد جو حق حاصل ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ میری معروضات کا جواب اگر ضروری ہو تو انہیں خود دینا چاہیے اور حسبِ معمول اپنے ہی پرچے میں تاکہ اس سے دوسرے بھی لطف اٹھا سکیں کہ یہ دو دوست ایک مصنوعی لڑائی کس جوش و خروش سے لڑ رہے ہیں اور اس میں فی الحال دوسروں کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور میں جاتے جاتے ان سے یہی عرض کروں گا کہ ؎ محبت میرا تیرا مسئلہ ہے زمانے کو شریک ِکار مت کر آج کا مقطع اپنی کھینچی ہوئی سرحد سے گرزنے لگا ہوں دوسری بار کسی شوخ پہ مرنے لگا ہوں