علی احمد کیف بہاول نگر کا ایک طالب علم ہے اور اسی شہر میں مقیم نامور اور صاحب طرزشاعر عامر سہیل کے لب ولہجے میں شعر کہنے کی کوشش کررہا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ عامر سہیل کے اس طرز سخن کو مزید پھیلنا چاہیے کیونکہ نہ صرف اس کا ڈکشن نیا، الگ تھلگ اور غیرمانوس ہے بلکہ الفاظ کی نشست وبرخواست اور انتخاب بھی مختلف اور دیدنی ہے۔ زبان ہی کو شاعر کے ہتھیار کی حیثیت حاصل ہے جس کا غیرروایتی استعمال ہی شاعری میں ایک نیا جلوہ پیدا کرسکتا ہے۔ عامر سہیل کی طرح علی احمد کیف کی شاعری بھی ایک طرح کی پیچیدگی کی حامل ہے جیسا کہ نئی شاعری کو ہونا بھی چاہیے کیونکہ سہل ممتنع کا زمانہ اب گزرچکا ہے اور زیادہ تر موزوں گوئی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے کہ اس میں سے معنی اور مزہ دونوں غائب ہوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ نئے شاعر کے ہاں معنی کی اپروچ غیرروایتی اور مختلف ہے اور شعر کی بنت مشکل پسندی کی طرف مائل ہے، بلکہ اکثر اوقات وہ پوری بات کہنے سے گریز کرتا ہے اور شعر میں ایک اشارہ سا کرکے ایک طرف ہوجاتا ہے اور قاری سے کچھ زیادہ سروکار نہیں رکھتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ہرطرف دونمبر قاری ہی کا بول بالا ہے اور نیا شاعر اس قاری کی سطح پر اترکر شعر کہنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ماضی کی طرح اب ہرطرف ایک ہی نوعیت کی شاعری نہیں کی جارہی اور شاعر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی آواز الگ طورسے پہچانی جائے جبکہ ایک ہی طرح کی شاعری پڑھ پڑھ کر سنجیدہ قاری بھی تنگ آچکا ہے اور ہرسمجھدارشاعر کو اس کا مکمل احساس وادراک بھی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیدھے سادے طریقے سے کہا ہواہرشعر بے مزہ ہوتا ہے ، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے اشعار نہایت قلیل مقدار میں تخلیق ہورہے ہیں جس سے شاعری کا پیٹ بھرتا ہے نہ قاری کا۔ اس لیے ہردور میں نئے نئے راستے تلاش اور دریافت کیے جاتے ہیں۔ علی احمد کیف کی شاعری اور طرزبیان کو بیشک مثالی نہیں کہا جاسکتا ، تاہم یہ ایک طرح سے مثالی شاعری کی بنیاد ضرور بن سکتا ہے، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مثالی شاعری بھی زیادہ دیرتک مثالی نہیں رہتی کیونکہ یہ قتالہ اپنا فیشن اور پیرہن تبدیل کرتی رہتی ہے، اس لیے یہ شاعر کو بھی ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتی جبکہ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا شاعر کی ضرورت بلکہ مجبوری بھی ہے، اور ایسی شاعری پہلا کام یہ کرتی ہے کہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور یہ کام خود شاعری ہی کو کرنا چاہیے نہ کہ شاعر کو۔ بالآخر اس تعریف پر متفق ہونا پڑے گا کہ جو شاعری مختلف ہے ، نئی بھی وہی ہوسکتی ہے۔ اب یہ کس حوالے سے مختلف ہے، اس کا انحصار خود شاعر پر ہے کہ وہ اس واردات سے کس طرح عہدہ برآہوتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں ہرشاعر کا نسخہ ٔ کیمیا بھی دوسروں سے علیحدہ ہوتا ہے، اور، اگر نہیں ہوتا تو اسے ہونا چاہیے کیونکہ کوئی بھی جینوئن اور ذمہ دار شاعر اس غولِ بیابانی میں شامل ہونا نہیں چاہتا جو اس کے گردونواح میں رواں دواں رہتا ہے، اور، مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ قاری بھی اب تربیت یافتہ ہوتا جارہا ہے، حتیٰ کہ مشاعرے میں نئے شعر کو بھی داد ملتی اور تالیاں پٹتی ہیں، اور یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ تحریر ایک طرح سے علی احمد کیف کی حوصلہ افزائی تو ہے ہی، اس سے پہلے یہ عامر سہیل کو خراج تحسین بھی ہے کہ اس جدت طرازی کا سہرا اسی کے سر بندھتا ہے۔ بیشک ایسی شاعری کا حوالہ اس طور نہیں دیا جائے گا جس طرح مقبول شاعری کا دیا جاتا ہے لیکن صحیح معنوں میں شاعری کا یہ ایک نقطۂ آغاز ضرور ہے۔ اگرچہ عامر سہیل کی شاعری اپنی جگہ پر مکمل اور اپنی انتہائوں چھونے لگی ہے اور روٹین کی قاری بیزار شاعری کو اپنے ظہور سے یکسر مسترد کررہی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایسی شاعری کو ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا جاتا۔ چنانچہ اس مرتبے تک پہنچنے کے لیے یہ انتظار کرتی ہے کیونکہ اسے اپنے آپ کو تسلیم کروانے کی کوئی جلدی ہوتی ہے نہ شاعر کو۔ وہ اول اول تو قاری اور اپنے ہم عصروں کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کراتا ہے اور اس کے لیے وہ سرشاری ہی کافی ہوتی ہے جو ایسی شاعری تخلیق کرکے وہ حاصل کرتا ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ غالبؔ کو بھی غالبؔ بننے میں سوسال لگ گئے تھے! یہ ایسی صبرآزما چیز ہے کہ اس پیڑ کو پھل اس وقت لگتا ہے جب پودا لگانے والا کئی برس پہلے سفر آخرت اختیار کرچکا ہوتا ہے ، چنانچہ ایسی شاعری سے سلاست اور روانی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے ۔ ویسے بھی سب سے زیادہ کڈھب الفاظ اورناہموار لہجہ میرؔ کے ہاں دستیاب ہے۔ اور، اب نمونے کے طورپر اس شاعر کے چند شعر : ہم اشک بچھاتے ہیں پلکوں کے سہارے سے نیندوں کی امنگ ایسے جھرنوں کے نظارے سے سردی میں گلابوں سا اک پودا لگایا تھا دامن کی زماں گردی، پُرخواب ستارے سے الجھن میں کھڑی آنکھیں، ہاتھوں پہ دُکھے منظر نظروں کی سلائی ہے دوری کے پکارے سے امید شناسائی یک لحظہ نہ راس آئی بے زخم ترنگ ایسی اک بوند سہارے سے مہکی ہے خواب رو نظر، قصہ بھی دید ناک ہے گزرا ہے کاروان شب، روئے فلک پہ خاک ہے کیسا وجودِ ناز یہ ڈھونڈے ستارہ لمس کو فرشِ دروں میں غرق ہو، عرشِ فزوں پہ تاک ہے چہرہ صبائے سادگی، چسم وضو ہے روبرو یعنی بدن سمور ہے، ریشم بہ تن فراک ہے اک چاندنی کے عکس میں اترا نہیں گیا کچھ خلوتوں میں نیند سا آیا، نہیں گیا جلتی رہی تھی آنکھ میں صدیوں کی بے بسی امید کا ادھر کوئی جھونکا نہیں گیا تاروں کو دیکھتے ہوئے رونق لپیٹ دی سورج سے روشنائی کا قطرہ نہیں گیا آج کا مطلع آسماں سے اتارتا ہوں تجھے اور، خود سے گزارتا ہوں تجھے