سوویت یونین کے انتشار کے بعد دائیں اور بائیں بازو کا تنازعہ اگر ختم نہیں تو ہمارے ٹھنڈا ضرور پڑ چکا ہے حتیٰ کہ بائیں بازو کے اکثر پُرجوش ادیب اب امریکہ کے حامیوں میں شمار ہوتے ہیں، البتہ رجعت پسندی اور روشن خیالی یا لبرل ازم، دو متصادم نظریات ایسے ہیں جو ایسا لگتا ہے کہ ابد الآباد تک باقی رہیں گے کیونکہ نظریہ کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہتا ہے اور اس کے پیروکار بھی۔ چنانچہ ان مخالف نظریات کی رونق لگی ہی رہے گی۔ خاور نوازش کی مرتب کردہ کتاب ’’ادب، زندگی اور سیاست‘‘ کسی خاص نقطہ نظر کی حامل نہ ہونے کے باوجود بائیں بازو کا ایک ذائقہ اپنے اندر موجود رکھتی ہے جس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس کشمکش میں روشن خیالی کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہی رہے گا۔ ادب کے تحریر کردہ مضامین صرف مرتّبہ ہیں تاہم مضمون نگار حضرات کی اکثریت بہرحال بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ادیبوں ہی کو زیب دے رہی ہے جبکہ کتاب کا عنوان بھی اسی طرف جھکائو کا اشارہ ہے جو ایک خوبصورت اور فکر انگیز مطالعہ فراہم کرتی ہے۔ کتاب کو پانچ عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی ادب: تعریف، تعبیر اور صورت حال، ادب: زندگی اور سماج، ادب: نظریہ اور کومٹمنٹ، ادب: سیاست اور جمہوریت اور دانشور ادیب کا کردار، ذمہ داری اور وفاداری۔ یہ ہمارے مضامین مختلف کتابوں اور رسالوں سے اخذ کیے گئے ہیں جس سے مرتب کے مزاج اور محنت دونوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لکھنے والوں میں نور الحسن ہاشمی، انوار احمد، ایلیا اہرن برگ (ترجمہ) پریم چند، فرمان فتح پوری، دیوندراِسّر ، ممتاز حسین، شمیم حنفی، وجاہت مسعود، اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری، سجاد باقر رضوی، اے بی اشرف، محمد صفدر میر، محمد حسن، ایم ڈی تاثیر، رضی عابدی، آل احمد سرور، مجتبیٰ حسین، عابد حسن منٹو، یوسف حسن، قاسم یعقوب، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر سلیم اختر، علی سردار جعفری، وارث علوی، محمد علی صدیقی، اجمل کمال (ترجمہ) راجندر سنگھ بیدی، ممتاز شیریں، مسعود اشعر، شبنم مناوری، جمیل جالبی، انور سجاد، حسن عابدی (ترجمہ) فتح محمد ملک، انتظار حسین (ترجمہ) انیس ناگی، احتشام حسین، محمد حسن عسکری، نعیم احمد اور دیگران شامل ہیں۔ یہ مضامین ایک طرح سے ہماری ادبی تاریخ کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ اس کا پس سر ورق ہمارے ’’گمشدہ‘‘ دوست احمد سلیم کا لکھا ہوا جبکہ اندرونی فلیپ قاضی عابد کی تحریر ہے۔ احمد سلیم کے مطابق: ادب، زندگی اور سیاست، یہ تینوں اصطلاحات بظاہر ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہو کر بھی باہم یوں پیوست اور جُڑی ہوئی ہیں کہ انہیں الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ ان میں کلیدی لفظ زندگی ہے جس کے اہم وظائف میں ادب اور سیاست دونوں شامل ہیں۔ نوجوان مرتب محمد خاور نوازش نے ان تینوں کی اصطلاحات کو زیر نظر کتاب میں اس طرح مربوط کر دیا ہے کہ ادب اور زندگی، ادب اور نظریہ، ادب اور سیاست، ادیب کی ذمہ داریاں اور ان کے ساتھ جُڑے ہوئے نظری مباحث پرانے ہو کر بھی آج کی حقیقت لگتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ سماجی اور سیاسی زندگی میں ترقی پسند تبدیلیوں کے خلاف رجعت پسند قوتوں کی مزاحمت کا عمل مسلسل جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ زندگی میں تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھانے والے قلم کاروں نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے، اس لیے تیس کی دہائی سے چلنے والی یہ بحثیں آج بھی اپنی پوری معنویت کے ساتھ زندہ ہیں۔ پریم چند اور اختر حسین رائے پوری کے عہد سے لے کر اکیسویں صدی کے موجودہ دور تک یہ جدلی کشمکش جاری ہے… قاضی عابد کی تحریر سے ایک اقتباس: یہ کتاب اکیسویں صدی میں ایک پرانی بحث کو نئی صورتوں سے سامنے لاتی ہے۔ خاور نوازش خود ایک سنجیدہ نقاد ہیں۔ انہیں ادب کی جدلیاتی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اس میں معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی جہات کی نقاب کشائی سے بھی دلچسپی ہے۔ انہوں نے مغرب اور مشرق میں ادب اور سیاست کے تال میل میں جو کچھ بہترین انداز میں سوچا گیا اس کا ایک شاندار انتخاب کیا ہے… پیش لفظ کے علاوہ اس کتاب کا پہلا مضمون بعنوان ’’ادب، زندگی اور سیاست‘‘ مرتّب ہی کا قلمی ہے۔ کتاب کا انتساب انہوں نے اپنی نگران رہنما ڈاکٹر روبینہ ترین کے نام کیا ہے۔ اس تحریر سے صرف یہ اطلاع دینا مقصود تھی کہ یہ تحفہ کتاب چھپ چکی اور 600صفحات پر مشتمل ہے۔ ہمارے دوست سلطان رشک کے جریدہ ’’نیرنگِ خیال‘‘ کا تازہ شمارہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ اس میں سے بشیر احمد مسعود کی غزل میں سے چند اشعار: دل بہلایا جا سکتا ہے عشق کمایا جا سکتا ہے شیو بڑھائی جا سکتی ہے وقت بچایا جا سکتا ہے روٹی بیچی جا سکتی ہے پتھر کھایا جا سکتا ہے راہیں بدلی جا سکتی ہیں ہاتھ چھڑایا جا سکتا ہے امن کی خاطر دشمن سے بھی ہاتھ ملایا جا سکتا آج کا مقطع میں وہ روش ہوں، ظفرؔ، گلشنِ خیال و خبر کی کہ جس پہ بھول گیا ہے کوئی گلاب لگانا