منقول ہے کہ پنجاب پولیس کا ایک اے ایس آئی کسی کام سے مصر گیا تو ان کا عجائب گھر دیکھنے بھی چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ کچھ ماہرین آثارِ قدیمہ ایک ممی کی عمر کا تخمینہ لگانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے تھے لیکن کچھ پتہ نہ چل رہا تھا؛ چنانچہ اس نے ان سے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ممی اس کے حوالے کریں‘ وہ یہ مسئلہ حل کردے گا۔ وہ مان گئے اور اے ایس آئی ممی کو لے کر علیحدہ کمرے میں چلا گیا۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد واپس آ کر بولا: ’’لکھیے جی‘ تین ہزار چار سو سال اور تین مہینے!‘‘ ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ ’’خود ہی بک پڑی ہے!‘‘ تھانیدار نے جواب دیا۔ لوٹا ہوا مال متعلقہ معززین سے نکلوانا بظاہر کتنا بھی مشکل نظر آ رہا ہو‘ اصل میں ایک اے ایس آئی ہی اس کے لیے کافی ہے جو لوٹی ہوئی قومی دولت اُگلوا اور نکلوا سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کام ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اس کام کے لیے یہ اے ایس آئی تعینات کون کرے گا کیونکہ اس ضمن میں ہر کسی کا پانی مرتا ہے کہ اس صورت حال سے تعینات کرنے والے بھی دوچار ہو سکتے ہیں اور دونوں بڑے فریق ایک دوسرے کو بچانے کے کارِ خیر میں لگے ہوئے ہیں اور کوئی بھی ان معاملات میں دوسرے کو پریشان کرنا نہیں چاہتا۔ عامۃ الناس ہماری پولیس کے دبدبہ اور کمالات کے خود بھی معترف ہیں جو اس مثال سے واضح ہو سکتا ہے کہ بس میں بیٹھے ایک شخص نے ساتھ بیٹھی سواری سے کہا: ’’کیا آپ پولیس آفیسر ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں!‘‘ جس پر اس نے دوبارہ استفسار کیا: ’’کیا آپ کا کوئی بھائی پولیس افسر ہے؟‘‘ جواب نفی میں ملا تو اس نے پوچھا: ’’آپ کا کوئی رشتے دار؟‘‘ ’’میرا کوئی رشتے دار پولیس میں نہیں ہے‘‘ ساتھ بیٹھی سواری نے جواب دیا۔ ’’تو پھر میرے پائوں پر پائوں کس خوشی میں رکھا ہوا ہے‘ ماماں؟‘‘ اس نے جواب دیا۔ اس سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ عام لوگ ہماری پولیس کے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں۔ جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے تو اس کے لیے ایک یہی مثال کافی ہے کہ سوئس بینک میں جمع کرایا گیا پیسہ‘ سپریم کورٹ بھی نہیں نکلوا سکی اور حکومت کی طرف سے مقدمہ کھولنے کا خط ہی اس وقت لکھا گیا جب اس کیس کے کھولنے کی میعاد گزر چکی تھی! اس کے علاوہ بھی سپریم کورٹ کئی بار یہ کہتی نظر آتی ہے کہ فلاں کیس میں اگر کرپشن ثابت ہو گئی ہے تو حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ حتیٰ کہ جن سابق جرنیلوں کے خلاف کرپشن کیس میں کارروائی کرنے کا سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے‘ اُسے بھی کُھڈے لائن لگایا جا چکا ہے۔ لوگ ان معاملات میں سپریم کورٹ اور بالخصوص چیف جسٹس کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں لیکن حکومت جہاں چاہتی ہے‘ وہاں بھی عدلیہ کی دال نہیں گلنے دے رہی‘ حتیٰ کہ حکومت کے تبدیل ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ سابق اور موجودہ دونوں حکومتیں اکثر معاملات میں ایک دوسرے کی فوٹو کاپی لگتی ہیں‘ اس لیے راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ کرپشن‘ بدعنوانی اور بدحکومتی کی دلدل میں گوڈے گوڈے دھنسے ہمارے معزز اہلِ اقتدار سے‘ وہ کوئی بھی ہوں‘ یہ توقع ہرگز نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ کرپشن کے حوالے سے کچھ کریں گے کیونکہ چور چوروں کے ہاتھ کبھی نہیں کاٹا کرتے۔ یہ کام اگر کریں گے تو طالبان ہی کریں گے اور مذکورہ حضرات پر تھانیدار بھی یہی تعینات کریں گے جن کے پائوں کی دھمک صاف سنائی دینے لگی ہے۔ ہمارے کرم فرما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ مستقبل میں انہیں افغانستان میں طالبان کی حکومت بنتی صاف نظر آ رہی ہے۔ اگر صاحبِ موصوف کی بینائی ٹھیک کام کر رہی ہے تو انہیں اپنے ملک میں بھی ایسا ہونا صاف نظر آ جانا چاہیے‘ بصورتِ دیگر انہیں اپنی عینک تبدیل کروانے کی ضرورت ہے! سہ ماہی کارواں ’’کارواں‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے جسے نوید صادق‘ سید آلِ احمد کی یاد میں بہاول پور سے نکالتے ہیں‘ معیاری ادب پیش کرنا اب جرائد کی مجبوری بن چکا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہے؛ چنانچہ یہ پرچہ بھی اپنا معیار برقرار رکھے ہوئے ہے اور اسے برصغیر کے اہم اور نامور ادیبوں کی نگارشات اور تعاون مسلسل زیب دے رہے ہیں جبکہ فی زمانہ ایک ادبی رسالہ باقاعدگی سے نکالنا جان پر کھیلنے کے مترادف ہے کیونکہ ادبی رسالہ اشتہارات سے بالعموم محروم ہی رہتا ہے۔ موجودہ شمارے میں بھی حسبِ معمول معروف ادیبوں کی تحریریں شامل ہیں جبکہ کم و بیش 100 صفحوں پر مشتمل اس رسالے کی قیمت 50 روپے رکھی گئی ہے جو عین مناسب ہے۔ اعصار مراکز سے دور شائع ہونے والا یہ دوسرا پرچہ ہے جسے ہمارے شاعر دوست شاہد ماکلی نے تونسہ شریف سے جاری کیا ہے اور جو پہلے شمارے ہی سے شائقین ادب کو متوجہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ گوشۂ خاص میں مختلف ممتاز شعراء کی غزلیں اکٹھی چھاپنے کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ شاعری کا ایک معتدبہ حصہ سرائیکی تحریروں پر مشتمل ہے۔ غزلوں کی کل تعداد 78 بنتی ہے جبکہ نظمیں محض آٹھ دس ہیں جس سے پرچہ شاعری کے حوالے سے کچھ غیر متوازن سا ہو گیا ہے۔ 960 صفحوں پر محیط اس رسالے کی قیمت 100 روپے رکھی گئی ہے۔ اب اس میں سے احمد رضوان کی ایک غزل کے چند شعر: وہ کیا ہُوا جو سرِ زندگی تماشا تھا تو کیا وہ خواب ہمارا یونہی تماشا تھا تمام رات ستارے کچھ اور کہتے رہے سحر ہوئی تو کوئی اور ہی تماشا تھا تماشا دیکھنے والوں کو یہ نہیں معلوم تماشا ساز بھی پہلے کبھی تماشا تھا تماشاگاہ کی جانب کسی نے دیکھا نہیں تماشا گاہ کے باہر کوئی تماشا تھا کٹی ہے عمر عاشقوں کے درمیاں احمدؔ ہم اس جگہ تھے جہاں آدمی تماشا تھا آج کا مقطع اُس نے اُڑا بھی دیئے غم کے غبارے‘ ظفر میں یہ سمجھتا رہا اُس کی امانت میں ہیں