گاڑی میں دو سردار جی پاس پاس بیٹھے تھے کہ ایک نے دوسرے سے پوچھا:
''کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘
''امرتسر کے‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
''ہئی شاوا شے‘ میں بھی امرتسر ہی کا رہنے والا ہوں‘‘ پہلے نے جواب دیا۔ ''محلہ کون سا ہے؟‘‘ پہلے نے دوبارہ سوال کیا۔ جس پر دوسرے نے محلہ بتایا تو پہلا بولا:
''واہ بھئی واہ‘ میں بھی اسی محلے میں رہتا ہوں اور گھر کہاں پر ہے؟‘‘ پہلے نے پھر سوال کیا جس پر دوسرے نے بتایا کہ دکان کے سامنے جو پیلے رنگ کا گھر ہے وہاں‘ تو پہلا بولا:
''کمال ہے‘ میں بھی اسی گھر میں رہتا ہوں‘‘ جس پر قریب ہی بیٹھے مسافر نے کہا:
''سردار جی‘ آپ دونوں ایک ہی شہر‘ ایک ہی محلے بلکہ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو جانتے نہیں؟‘‘
''جانتے ہیں بلکہ سگے بھائی ہیں‘ بس ذرا ٹائم پاس کر رہے تھے!‘‘ ایک نے جواب دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت بھی بے بسی کی تصویر بنی‘ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ٹائم ہی پاس کر رہی ہے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ پہلے مذاکرات کے ضمن میں اس نے مولانا فضل الرحمن کو آگے کیا لیکن مولانا کی معذرت پر اب یہ ٹاسک مولانا سمیع الحق کے سپرد کیا گیا ہے۔ ان کی کیفیت یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے موصوف نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ طالبان کے کسی گروپ کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ یا واقفیت نہیں ہے۔ اب بھی انہوں نے مذاکرات کے لیے حکومتی شرائط دریافت کی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اس کے بعد وہ طالبان کی شرائط دریافت کریں گے۔ ان کا یہ بھی بیان آیا کہ طالبان آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات اگر درست بھی ہو تو اس کے ساتھ ضروری شرط یہ بھی ہوگی کہ کیا آئینِ پاکستان پر عمل بھی ہو رہا ہے؟ مثلاً کتنے ارکانِ اسمبلی ہیں جو آئین کے ا ٓرٹیکل 63,64 پر پورا اترتے ہیں؟ وہ پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ پولیو کے قطرے پلانے کے بھی خلاف ہیں اور بچیوں کی تعلیم اور انہیں ووٹ کا حق دینے کے بھی۔ علاقے سے فوج کی واپسی کا مطالبہ اس کے لیے مؤثر ہے۔ کیا ان میں سے حکومت کوئی بھی شرط مان سکتی ہے؟ حکومت کو تو وہ سرے سے مانتے ہی نہیں۔ اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے جو اصول ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو‘ تو حکومت کیا کچھ دینے پر تیار ہوگی؟ علاوہ ازیں حکومت کا بنیادی مطالبہ کہ وہ ہتھیار پھینک کر مذاکرات کریں تو وہ اس سے پہلے ہی صاف انکار کر چکے ہیں۔
پھر مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ جو ڈرون حملے ہیں ان کے رُکنے کی حکومت کیا ضمانت دے سکتی ہے۔ نیز یہ بھی کہ اگر مذاکرات کامیاب ہو بھی گئے تو ان کی بقا کا کیا مستقبل ہوگا کیونکہ یہ شق پہلے بھی کئی بار رُوبراہ ہوتی رہی ہے۔ مزید برآں‘ مولانا سمیع الحق ہوں یا ان جیسے کئی دوسرے دینی بزرگ‘ وہ طالبان کے قریب اس لیے ہیں کہ وہ ان کے نظریات سے عمومی اتفاق رکھتے ہیں‘ حتیٰ کہ مذہبی جماعتیں بھی‘ جن میں جماعت اسلامی بطورِ خاص شامل ہے‘ ان کے ساتھ ہمدردیاں اس لیے رکھتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ ان کا قارورہ اکثر و بیشتر ملتا ہے۔ یہ سب کی سب مل کر بھی طالبان کو حکومتی شرائط تسلیم کرنے پر کیونکر آمادہ کریں گی کہ یہی اختلافات حکومت سے وہ خود بھی رکھتی ہیں۔
اب رہا دوسرے آپشن یعنی جنگ کا معاملہ‘ تو کیا اس مسئلے پر حکومت پوری قوم کو متفق کر سکتی ہے؟ یقینا نہیں۔ اور جس جنگ کے پیچھے پوری قوم نہ ہو‘ اس کے جیتنے کے کتنے امکانات ہو سکتے ہیں؟ اور کیا فوج اس کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ ان کے ساتھ جنگ کا مطلب ہوگا بھرپور جنگ اور کیا افواج اس بھرپور جنگ کے لیے تیار ہیں جبکہ سرحدوں پر بھی ان کی موجودگی بوجوہ اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اس جنگ کے لیے فوج کے اندر بھی اتفاق رائے لازمی ہے جبکہ اس ادارے کے اندر بھی طالبان موافق عناصر موجود ہیں اور بعض عسکری اہداف پر حملوں کے دوران اس بات کا ثبوت بھی مل چکا ہے کہ دہشت پسندوں کو اندر سے بھی امداد دستیاب تھی‘ بصورت دیگر وہ ان کارروائیوں میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے‘ خاص طور پر جیل پر کامیاب حملہ اور کوئی ساڑھے تین سو قیدیوں کو صاف چھڑا لے جانے سے زیادہ چشم کشا بات اور کیا ہو سکتی ہے جس کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہیں خیبرپختونخوا انتظامیہ کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔
اس کا ایک پُرامن حل یہ ہو سکتا ہے کہ فاٹا کے اس علاقے پر ان کا حقِ حکمرانی تسلیم کر لیا جائے جہاں حکومت کی رٹ پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یا یہ ہے کہ سرِدست کوئی ایسا مشترکہ بندوبست وضع کر لیا جائے کہ دونوں فریق اس پر مطمئن ہو جائیں کیونکہ کسی ٹھوس رعایت کے بغیر مذاکرات کی کامیابی ممکن ہی نہیں ہے۔ اگرچہ بات اس پر بھی ختم نہیں ہوگی کیونکہ وہ حکومت کے بھی خاتمے کا مطالبہ کریں گے جسے وہ سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور جس کی کم از کم ممکنہ صورت درمیان مدتی انتخابات ہیں اور وہ بھی طالبان کی شرائط کے مطابق؛ چنانچہ حکومت اس سلسلے میں جو بھی رعایت دیتی ہے وہ اس پر قناعت نہیں کریں گے اور ہل من مزید کا تقاضا ان کی طرف سے جاری رہے گا کیونکہ فریق ثانی کی کمزوری پہلے ہی ان پر واضح ہو چکی ہوگی۔
اور اگر قوم اور فوج کے درمیان اتفاق رائے کے بعد جنگ کا آپشن ہی قابلِ عمل رہ جاتا ہے تو اس کے لیے فریقِ ثانی کا صحیح صحیح اندازہ کیونکر ہوگا؟ دہشت گردوں اور غیر دہشت گردوں میں تفریق کیونکر کی جا سکے گی؟ علاوہ ازیں یہ حضرات جو ملک بھر میں پھیل چکے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتے رہتے ہیں‘ ان پر قابو کیسے پایا جا سکے گا؟ اوّل تو دینی جماعتوں کی طرف سے جنگ کے آپشن پر رضامندی ہی جوئے شیر لانے کے برابر ہوگی اور اگر اس صورت میں اس آپشن پر عمل درآمد شروع کردیا جاتا ہے تو ان جماعتوں کی طرف سے ملک گیر احتجاج کے امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ ایک مزید ناگوار صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
جنگ کی صورت میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس پر ہمارے دونوں ہمسایوں یعنی بھارت اور افغانستان کا ردعمل اور رویہ کیا ہوگا اور ان میں سے کوئی اس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر اپنا لُچ تلنے کی تو کوشش نہیں کرے گا؟ بہرحال حکومت اس فیصلے میں جتنی تاخیر کرے گی‘ یہ بھی اس کے خلاف ہی جائے گا جبکہ حکومت کی جملہ بے تدبیریاں روزِروشن کی طرح عیاں ہو چکی ہیں اور روز بروز دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور حکومت شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیے اور آنکھیں بند کیے ہوئے یا بلی کے سامنے کبوتر ہونے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
جنگ کی صورت میں یہ یقین حاصل کرنے کے لیے کہ اس یورش میں موافق یا امن پسند لوگ بھی نہ مارے جائیں‘ فوج یہ اعلان کر سکتی ہے کہ ایسے لوگ اس علاقے سے نکل آئیں اور اپنے ہتھیار بھی ساتھ لا کر جمع کرا دیں اور اس کے بعد بمباری سے کام لے کر اس علاقے کو تورا بورا بنا دے اور اس کے بعد ایسا انتظام کرے کہ جو لوگ افغانستان کی طرف نکل جائیں‘ پھر واپس نہ آ سکیں اور وہاں سے نکل آنے والوں کے لیے کیمپ قائم کر دیے جائیں جبکہ پہلے ہی ایسے لاکھوں افراد پاکستان کی میزبانی کا لطف اٹھا رہے ہیں‘ یعنی ع
ایک بیدادگرِ رنج فزا اور سہی
تاہم حکومت کے پاس ایک آخری آپشن یہ بھی ہے کہ طالبان کے سارے مطالبات مان لیے جائیں بشرطیکہ وہ میاں صاحب کو متفقہ امیر المومنین تسلیم کر لیں جس پر تصفیہ ہونے کا زیادہ امکان ہے کیونکہ بصورتِ دیگر حکومت کے پاس کچھ بھی بچتا نظر نہیں آتا اور اس طرح سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی بچ رہتی ہے۔ اگرچہ یہ بھی کوئی مستقل حل نہیں ہوگا کیونکہ طالبان کسی وقت بھی امیر المومنین کو معزول کر کے اپنا نیا امیر المومنین چُن سکتے ہیں۔ بہرحال‘ یہ تو طے ہے کہ ملک کا نقشہ بہت جلد تبدیل ہونے والا ہے‘ اس میں جیت کس کی ہوتی ہے اور ہار کس کی‘ اس بات کا زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا کہ اونٹ نے آخر کسی کروٹ تو بیٹھنا ہی ہے!
آج کا مطلع
سفر کٹھن ہی سہی‘ جان سے گزرنا کیا
جو چل پڑے ہیں تو اب راہ میں ٹھہرنا کیا