اس وقت کراچی سے شائع ہونے والے سہ ماہی ''غنیمت‘‘ کا تازہ شمارہ میرے سامنے ہے جس میں محبی شمس الرحمن فاروقی کا تازہ مضمون نظر نواز ہوا ہے ؎
زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
واضح رہے کہ میری مراد شمس الرحمن فاروقی سے ہے‘ سہ ماہی ''غنیمت‘‘ سے نہیں۔ مضمون کا عنوان ہے ''الیاس بابر اعوان کی نئی نظمیں‘‘۔ بہت بہتر ہوتا اگر بھائی صاحب ان ذاتِ شریف کا سرسری تعارف بھی کرا دیتے کہ یہ کون صاحب ہیں۔ کہاں کے ہیں اور کب سے شعر کہہ رہے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔
فاروقی صاحب کا پہلا اور آخری تعارف اور پہچان ایک ثقہ نقاد کی ہے‘ اگرچہ آپ شاعری بھی کرتے ہیں لیکن یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے؛ تاہم غالباً تاکیدِ مزید کے لیے انہوں نے فکشن لکھنی بھی شروع کردی ہے۔ چنانچہ اپنے ناول ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کا نہ صرف انہوں نے انگریزی میں ترجمہ کروایا ہے بلکہ قارئین کی سہولت کی خاطر اپنے ''خبرنامۂ شب خون‘‘ میں ہر بار اس کے بارے تین چار توصیفی مضامین بھی باقاعدگی سے شائع کرتے ہیں تاکہ وہ یعنی قارئین اس ناول کی خوبیوں سے کماحقہ واقف ہو سکیں۔ اس ناول کی تعریف کرتے ہوئے میں نے ایک بار لکھا تھا کہ اس کا خاکہ تو پہلے سے موجود تھا‘ فاروقی نے تو صرف اس میں رنگ بھرے ہیں اور شاید اسی لیے یہاں کچھ لوگ انہیں شمس الرحمن فاروقی کے بجائے شمس الرحمن حجازی کہنے لگے ہیں کیونکہ ادھر ہمارے نسیم حجازی بھی یہی کام کیا کرتے تھے۔
خیر آمدم برسرِ مطلب‘ اپنے دو صفحی مضمون میں انہوں نے اپنے پسندیدہ شاعر کی دو نظموں کا مختصر جائزہ لیا ہے۔ دوسری نظم کا کچھ حصہ حسب ذیل ہے:
یہ گلی تھی عطر فروش کی
جہاں ذرہ ذرہ تھا خوش گلو
یہیں چلمنوں کی حکایتیں
کسی لمسِ عطر مزاج سے
ہوئیں ہمکنارِ شعورِ حُزن
تو راستوں پہ مہک اٹھی
سرِ بام وقت پہ روشنی
کیا عجیب وقت تھا صاحبو!
کسی راستے کا نہ پھیر تھا
نہ ہوائیں سحر مزاج تھیں
آگے لکھتے ہیں کہ تخیل کا وفور یہاں ہے۔ اشیا کو مجسم کر کے دیکھنے کا بھی ہنر یہاں ہے۔ پھر ضرورت کاہے کی ہے؟ انسانوں کو اپنے پیچھے لگانے کی... ان کی آواز سریلی ہے‘ دور تک پھیلے گی۔ میں جگرؔ صاحب کے پیغام محبت کا جویا نہیں ہوں۔ میں شاعر سے گلے ملنا چاہتا ہوں لیکن وہ جس اونچائی سے بات کرتا ہے وہاں میری آواز ہی نہ پہنچے گی‘ میرے ہاتھ بھلا کیونکر پہنچیں گے؟ میں سریلی آواز سے مست ہو گیا‘ یہی بہت ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ یہ آواز کس قدر سریلی ہے جو ہمارے دوست کو مست کرنے کے لیے کافی تھی‘ اس نظم کے صرف دو مصرعوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا یعنی:
کیا عجیب وقت تھا صاحبو!
کسی راستے کا نہ پھیر تھا
پہلا مصرعہ باقاعدہ طور پر خارج ازوزن ہے کیونکہ اس کے شروع میں لفظ ''کیا‘‘ جس طرح باندھا گیا ہے‘ اساتذہ چھوڑ‘ کسی بھی شریف آدمی نے نہ باندھا ہوگا کیونکہ ''ک‘‘ کے ساتھ ہی مصرعے کا وزن پورا ہو جاتا ہے جبکہ ''یا‘‘ سراسر فالتو اور زائد از وزن ہے جبکہ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا:
وہ عجیب وقت تھا صاحبو!
اب اس کے بعد والا مصرعہ دیکھیے یعنی
کسی راستے کا نہ پھیر تھا
جو تعقیدِ لفظی کا شکار ہے کہ لفظ ''نہ‘‘ جہاں آیا ہے شاعر کی نقاہتِ فن ہی کی دلالت کرتا ہے اور کس قدر برا لگ رہا ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ مضمون نگار ان مصرعوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
''کس قدر خوبصورت مصرعے ہیں اور استعارے بھی خوب ہیں اور اسے 'شکوہ سو برس کے بعد‘ کا عنوان دینے کا جی چاہتا ہے‘‘۔
ایک اور پرلطف جملہ دیکھیے جو یہ مصرعے نقل کرنے سے پہلے جمایا گیا ہے کہ
''اپنی تمام رجائیت اور تلقین کے باوجود اقبال ایسے ہی ایک شاعر تھے‘‘
کسی بھی شاعر کے حوالے سے آپ اظہارِ سخاوت کسی بھی مقدار میں کر سکتے ہیں اور جو آپ ہر اس شاعر کے بارے میں کرتے ہیں جس پر بھی قلم اٹھاتے ہیں لیکن اگر ایسی فاش تکنیکی غلطیوں سے صرفِ نظر کریں گے تو آپ کی تنقیدی بصیرت ہی معرضِ سوال میں آئے گی۔ آپ نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں شائع ہونے والی غزلوں کے انتخاب پر مشتمل ایک کتاب پر تبصرہ کیا تھا جس پر میں نے اسی پرچے ''دنیا زاد‘‘ میں خیال آرائی کرتے ہوئے آپ کی اس اصلاح کو نادرست قرار دیا تھا جو آپ نے ایک شاعر کے دو اشعار پر ارزانی فرمائی تھی‘ اور اپنی دانست میں ان کی درست اصلاح بھی تجویز کی تھی جس پر آپ نے ایڈیٹر آصف فرخی سے فون پر یہ گلہ کیا تھا کہ آپ نے ظفر اقبال سے میرے خلاف یہ مضمون خود لکھوایا ہے!
حالانکہ مذکورہ اختلاف رائے کے علاوہ اس مضمون میں ہرگز ایسی کوئی بات نہیں تھی جس پر خدانخواستہ آپ کے خلاف ہونے کا گمان گزر سکتا ہو۔ سو‘ اگر آپ کی زُود رنجی اور بدگمانی کا یہ عالم ہو تو آپ سے خیر کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ میں یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنے پر مجبور ہوں کہ ایسے بیانات اور احوال نے آپ کی تنقید کو بھی معرضِ سوال میں ڈال دیا ہے کہ آپ معمولی اختلافِ رائے کو باقاعدہ مخالفت اور دشمنی سمجھتے ہیں۔ اور اگر تنقیدی آرا اور آپ کے فیصلوں پر غور کیا جائے تو آپ نے اب تک جو تھوک کے حساب سے میری تعریف کر رکھی ہے وہ بھی ع
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے
کے زمرے میں چلی جائے گی... اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے!
آج کا مطلع
مہربانی نہ عنایت کے لیے دیکھتا ہوں
اُس کو آنکھوں کی سہولت کے لیے دیکھتا ہوں