اختر عثمان کو زبان و بیان پر جو تحکمانہ عبور حاصل ہے وہی اس کی شاعری کا طرۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ فارسی زبان کے خلاقانہ استعمال نے اس کی نظم کو مزید چار چاند لگائے ہیں۔ یہ نظم قاری کو کہیں بھی راستے میں نہیں چھوڑتی بلکہ اپنے ساتھ ساتھ رکھتی ہے۔ یہ شاعری قاری کو متاثر بھی کرتی ہے اور مرعوب بھی۔ الفاظ پر ایسی گرفت اور ان کا ایسا کمال استعمال کہیں اور مشکل ہی سے دستیاب ہوگا۔ اس کی نظم معنی کو توڑتی اور نئے معنی پیدا کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور قاری کو حیران کرنے کا کام جاری رکھتی ہے۔ دنیائے نظم میں اختر عثمان کا دم غنیمت ہے!
انارکلی
تری خیر انارکلی...تو جنموں لیکھ جلی...نورتن ترے درپے ہی رہے...دیوار میں چنوا کر نہ جیے تجھے سب دھنوان بلی...صدیاں گزریں، آکاش پھرا، کیا کیا نہیں چال چلی...پھربھی نہیں بات ٹلی...ترانائوں یگوں تک امر ہوا، تری سادہ مانگ بھلی...تری خیرانارکلی...وہ پتھر تھے کیا، یہ اگنی کیا!...جو گھائل ہو ،اسے لگنی کیا!...تن لوئی نہ ہو تو الگنی کیا، جل بھیتر جوالا جگنی کیا!...یہ سانونی، چیتی، پھگنی کیا!...یہ آتما پتھر، سلگنی کیا!...تری ہونی انت پھلی...تری ڈلک ڈھلے نہ ڈھلی...تو کویتائوں کی شہزادی، قصوں کی گود پلی...تری خیرانارکلی...
............
انارکلی! تری مانگ بھروں...بھوں سونت درانتی کترے من...کہیں رین کے بھیتر اترے جی...ترے بالک چندر سپترے جی...جل بیچ مانہہ نتھرے ستھرے جی...گنگا اشنان کروں...سیندور بھروں، بن ٹھن...تری مانگ بھروں انارکلی!...انارکلی!...تری مانگ بھروں...پہنائوں تجھے کنگن...لشکائے لہوترے ماتھے لاٹ...برہ نیّا اترے جوگ کے گھاٹ...گن ونتا ہے تیرا سمراٹ...میں دان کروں تن من...تری مانگ بھروں انارکلی!...انارکلی! تری مانگ بھروں۔
طویل نظم 'میں اسے دیکھنے جائوں گا‘ سے پہلا حصہ...
'میں اسے دیکھنے جائوں گا‘
میں نے دیکھا تھا اسے...شہر اور شعر کے اطراف میں سرکردۂ قامت شکناں...ریشمیں خلعت زیبا میں لہکتا ہوا جسم...پائوں میں چرم کے پاپوش تکبر کو کچل دینا جنہیں آتا تھا...کم صدا چاپ...جو کانوں کو بھلی لگتی تھی...اور وہ سگریٹ کی نہ تھی راکھ پہ دنیا تھی جسے ہاتھ جھٹک دیتے تھے......گاہ '' سنگم‘‘ پہ، گہے اور کہیں بیٹھا ہوا...بیشتر اپنے لیے ، اپنے تئیں بیٹھا ہوا...گاہ اطراف میں کچھ سائے سے...سائے...جن کے لیے وہ آپ کوئی سایہ تھا...دہر کے مایہ بے مایہ میں الجھا ہوا خوش مایہ تھا...گہے گنجینہ دندان سے شہوار لٹاتا دیکھا...اپنے بہلانے کو، اوروں کو ہنساتا دیکھا...میں نے دیکھا تھا اسے ...مصرع تازہ کے لہراتے ہوئے نشے میں...لفظ پر خستہ ، پریشان ، ردیفوں کی کم آمیزی پہ جھنجھلاتے ہوئے...کجیِ قافیہ کے طور پہ بل کھاتے ہوئے ...بار باراپنے معانی کے لیے... خلعتیں سیتا رہا...تلخیاں سہہ کے بھی تلخابہ جاں پیتا رہا...بن پڑا جب تک اک احساس تلے جیتا رہا...اور جب قامت موزوں کو خوش آیا خلعت...اپنی دکان کو خیاط یونہی چھوڑ کے چپ چاپ چلا...(اپنے بخیے بھی توتھے)...جانتا تھا کہ رفو کارازل محو ہے اوروں کو رفو کرنے میں...طاق تھا اپنا لہو کرنے میں،سست غوغا و غلو کرنے میں ۔
............
لیکن اتنے بڑے بازار میں کوئی بھی نہ تھا...اک رفو کار نہیں تھا کہ دلاسا دیتا...حسد آور بھی تو تھی اس قدوقامت کی تراش...گل قبا پھاڑتے تھے دیکھ کے خلعت کی تراش...میں نے دیکھا تھا اسے تہ بہ تہ نشترکج بخیہ پہ بل کھاتے ہوئے...''پمز‘‘ کے وارڈ میں چھپ چھپ کے دھواں پیتے ہوئے...موت کو جھٹلاتے ہوئے... گاہ شمشیر کو سمجھاتے ہوئے...گاہ سجاد کو اک سمت میں لے جاتے ہوئے...اس نے منظر سے کوئی بات نہ کی...(میرے آقائے دھم کا پوتا، میرا ہمزاد، بزرگوں سے بہت ڈرتا تھا)...میں نے دیکھا تھا اسے...عشق بے وصل میں سرتابہ قدم غلطیدہ...ظاہراًخندہ موہوم پہ باطن میں بہت رنجیدہ...اپنی تنہائی کے رمنے میں سرشام خرامیدہ و موژولیدہ...ممکنہ حسن کی وادی میں کہیں خوابیدہ...میں نے دیکھا تھا اسے...گولیاں پھانکتے ان ہونٹوں کی گولائی میں...ایک موسم تھا کہ الفاظ تھے...پھونکے ہوئے شہنائی میں...دست و بازو پہ جہاں سوئیاں تھی کار آرا...کبھی ان ہاتھوں میں تھے اور کبھی ان بانہوں میں...شانے جن پر تھے مشینوں کے شکنجوں کے نشاں...ان پہ ٹک سکتے تھے اک وقت میں کتنوں ہی کے سر...(اک مرا سر بھی تھا، مجھ ایسے پسر مردہ کا)...اس کا قامت تھا چھ فٹ سے بھی سوا...کھلا رکھا گیا تابوت کا وہ پائینتی در...(کتنے نااہل ہیں تابوت بنانے والے)...میں نے دیکھا تھا اسے...کتنے دن ہوگئے جب میں نے اسے دیکھا تھا...ہاں، بہت ہوچکی، بس کوئی سمے دیکھنے جائوں گا اسے۔
حاشیہ
اور اب یوں ہے آنکھوں تلے ڈھیر کو دیکھ کر لوگ خوش ہیں...بہت خوش...وہ آشفتہ سر آخرش جال میں آگیا...شیشہ ساعت اک لمحۂ بے کنار...اس میں صحرا کے صحرا خزیدہ ہیں، پاگل بگولے کی اوقات کیا...کتنے سیلانیوں کو پلک بھر میں سیدھا کیا سیلیِ وقت نے ...(میرے استاد کے جسم پر نیل ہی نیل ہیں)میرا استاد جو بے کراں وقت کا ایک حلقہ تھا...اب وہ سوادِزماں میں ہے...(لاوقت کے چپ مضافات میں)...متن کا حاشیے سے جوناتا بھی ہو، متن پھر متن ہے حاشیہ ، حاشیہ...اور وہ غاشیہ تو سن وقت کا جس کو تخت سلیماں کہیں...اس پہ استاد تھا، گردباد...ایک لخطے میں قرنوں کی گردش کو تصویر کرتا ہوا، لفظ میں رنگ بھرتا ہوا...جانے تو سن کی چھل بل میں کیا تھا کہ اک آن میں زین جیسے ز میں ہوگئی...ہے '' کی ہستی‘‘ نہیں '' ہوگئی‘‘...وقت کے تھان سے ایک کترن اڑی، سلسلے کا سرا ادھ کھلا رہ گیا...اور اب یوں ہے لوگوں کی آنکھوں تلے ڈھیر ہے...میں سر سنگ مرقد لکھا حاشیہ پڑھ رہا ہوں...مگر متن کی کوئی صورت نہیں ہے...مرے جسم پر نیل ہی نیل ہیں۔
............
آج کا مطلع
وہ پھول ہو کہ شرارہ اُدھر سے آتا ہے
ہمیشہ پہلا اشارہ اُدھر سے آتا ہے