چچا کا ایک مقطع ہے ؎
غالبؔ اگر سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
انتظار حسین آصف فرخی کو سفر میں ساتھ تو لے گئے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آصف نے اس کے عوض انہیں حج کا ثواب بھی نذر کیا یا نہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ موصوف نے خود بھی حج کر رکھا ہے یا نہیں کیونکہ ایک محاورے کے مطابق یہاں پر تو بلیاں بھی حج کرتی یا کم از کم حج کے لیے روانہ ہوتی ضرور پائی گئی ہیں۔ لیجیے‘ بلیوں کے ذکر پر وہ عجیب الخلقت بلی یاد آ گئی جس کی روداد انتظار صاحب نے اپنے ناول ''آگے سمندر ہے‘‘ میں کھول کر بیان کر رکھی ہے۔
اس کتاب کے بارے میں‘ ایک بار پھر‘ غالبؔ ہی سے رجوع کرنا کافی ہے کہ ع
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
یعنی سفر انتظار حسین کے ساتھ ہو اور اس کا بیان کرنے والا آصف فرخی جیسا جادوگر‘ تو اس سے آگے کچھ کہنے کی حاجت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ یقینا اس بوڑھی پری نے دوران سفر اور حسبِ سہولت آصف کو کبھی مکھی بنا دیا ہوگا‘ کبھی ہرن اور کبھی گھوڑا‘ جو موصوف کہیں ایک جگہ بھنبھنا رہے ہیں‘ کبھی دوسری جگہ قلانچیں بھرتے پائے جاتے ہیں اورکہیں سرپٹ بھاگتے ہوئے۔الحمرا میں ہونے والی حالیہ کانفرنس کے مشاعرے میں کشور ناہید بتا رہی تھیں کہ ان کی نئی کتاب (کشور ناہید کی نوٹ بک) بہت بک رہی ہے۔ ستم ظریف نے یہ نہیں کہا کہ کتاب کی یہ تیز رفتار فروخت تمہارے کالم لکھنے کے بعد شروع ہوئی۔ اگرچہ وہ چیزے دیگر ہے لیکن اسے آپ سفرنامے کے طور پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ بکتی تو نثر کی کتاب ہی ہے‘ شاعری کی طرح سال سال بھر سٹالوں پر پڑی ریں ریں نہیں کیا کرتی۔
کتاب کا دیباچہ ہمارے بھارتی دوست شمیم حنفی نے لکھا ہے جنہیں بھارتی کہنا پرلے درجے کی بدذوقی ہوگا کہ وہ گاہے بگاہے‘ کسی نہ کسی بہانے پاکستان آئے ہی رہتے ہیں۔ اس دیباچے ہی کا ایک اقتباس‘ جس نے کتاب کے پسِ سرورق کو سجا رکھا ہے‘ کچھ اس طرح سے ہے:
''آصف فرخی کے زیر نظر سفرناموں کو پڑھتے وقت بار بار ہم ایک بھید بھری کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں اور ان کے ادراک کی گرفت پر بار بار ہماری حیرت جاگتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ آصف نے اس روداد کو صرف اپنی یا انتظار حسین کی روداد کے بیان تک محدود نہیں رکھا ہے، ایک وسیع تر تناظر اور متعدد کرداروں کی شمولیت نے اس پورے قصے کو ایک ہمہ گیر فکری اور تخلیقی تجربے میں منتقل کردیا ہے۔ یوں بھی اس قصے کے مرکز میں ایک بین الاقوامی اور عالمی حیثیت رکھنے والے ادبی واقعے کی موجودگی نے‘ اسے ایک رنگا رنگ اور ایک ساتھ کئی جہتیں رکھنے والی ذہنی اور تخلیقی سرگرمی کے بیان کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ ''مین بُکرّ بین الاقوامی انعام 2013ء‘‘ کے پس منظر میں ایک ساتھ موجودہ ادبی دنیا کے کئی ممتاز لکھنے والوں کی شبے ہیں‘ اس قصے کو ایک اسرار آمیز ڈرامے کے طور پر بھی لاتی ہیں۔ اس طرح یہ سفر اس عہد کے فکشن سے مربوط ایک غیر معمولی حیثیت رکھنے والے واقعے کا بیان بھی ہے‘ جابجا ڈرامائی عناصر اور ایک جانی انجانی صورتِ حال کی عکاسی پر مشتمل۔ کمال کی بات یہ ہے کہ آصف نے اس قصے کو بہ ظاہر سامنے کی ایک سچائی یا ایک جیتے جاگتے واقعے کی سطح سے اٹھا کر اسے ایک تخلیقی واردات اور حیرت و استجاب کی فضا میں سانس لیتی ہوئی کہانی بنا دیا ہے‘‘۔
یہاں تک آ کر ایک طرح سے میرا کام ختم ہو گیا ہے کیونکہ مجھے صرف کسی کتاب کے شائع ہو جانے کی اطلاع ہی دینا ہوتی ہے‘ مزید یہ کہ یہ مجھے کیسی لگی ہے‘ اور بس۔ ابھی میں نے کتاب پڑھی بھی نہیں‘ بس جستہ جستہ ہی دیکھی ہے کیونکہ اس کام کے لیے کتاب کو پورا پڑھنا کچھ ایسا ضروری بھی نہیں ہوتا ورنہ آدمی اور کوئی کام کرنے جوگا نہیں رہ جاتا۔ لطف یہ ہے کہ آصف نے اس سفرنامے میں کچھ دوسرے لوگوں کی تحریریں بھی شامل کر رکھی ہیں‘ مثلاً رضا علی عابدی جن کی نثر کو نظرانداز کرنا آپ کو باقاعدہ کُفر تک لے جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انتظار حسین کی ایک اپنی تحریر ہے ،مسعود اشعر کا مضمون اور پھر ہمارے دوست حمید شاہد جن کا ایسے موقعوں پر موجود ہونا ایک معمول کی بات ہے۔
کتاب میں جو خاتون اس پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئی ہیں یعنی لیڈیا ڈیوس کی تحریروں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جو فکشن کی ذیل میں رکھے جانے کے باوجود باقاعدہ فکشن نہیں کہلا سکتیں جبکہ مختصر نویسی کی مثالیں خود ہمارے ادب میں پہلے سے موجود ہیں جن کی روشنی میں موصوفہ کو اس پرائز کا حقدار قرار دیا جانا باعثِ مایوسی نہ سہی‘ باعثِ حیرت ضرور ہے۔ ایسے ایوارڈز میں یقینی طور پر سیاست بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے یعنی مغرب کی نسبت کسی ایشیائی ادیب کی باری مشکل ہی سے آتی ہے۔ انتظار حسین کا اس ایوارڈ کے دس امیدواروں میں شامل ہونا انتظار حسین کے لیے کم اور خود اس ایوارڈ کے لیے اعزاز کی بات زیادہ ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جسے اپنی زندگی ہی میں ایک لیجنڈ کی حیثیت حاصل ہے جبکہ اس فہرست میں شامل لیڈیاڈیوس سمیت باقی نو میں سے شاید ہی کسی کو یہ امتیاز حاصل ہو یعنی ع
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
اور جہاں تک آصف فرخی کا تعلق ہے تو ان پر یہ شعر چسپاں نہیں ہوتا کہ ؎
بنّے میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مُشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
آندھی نہ سہی‘ ایک زبردست بگولہ تو انہیں بھی کہا جا سکتا ہے‘ بے شک انتظار حسین کی آندھی کے ساتھ ہی انہوں نے یہ سفر طے کیا ہو‘ یعنی وہ بھی کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں ہیں جبکہ انتظار حسین کے بارے میں تو یہی کہہ دینا کافی ہے یعنی بقولِ ناسخ کہ ع
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
اس کتاب میں اگر بظاہر تحریر میں کوئی خاص چیز نظر نہ بھی آئے تو قاری کو خود اس میں سے کوئی گوہرِ آبدار تلاش کر لینا چاہیے۔ اس سے زیادہ بے تکی بات شاید ہی کوئی اور ہو سکتی ہو کیونکہ تحریر میں وہ بات خود موجود ہونی چاہیے۔ البتہ قاری اگر اس میں سے کوئی اور بھی نکتہ نکال لائے تو یہ اس تحریر کی اضافی خوبی ہو سکتی ہے‘ اگرچہ اس کا کریڈٹ بھی قاری ہی کو جاتا ہے۔ جس طرح کسی نے کہہ رکھا ہے کہ شاعر کی معراج یہ ہے کہ وہ فردوسی ہو جائے‘ اسی طرح یہ کہا جا سکتا ہے سفر نامہ نگار کی معراج یہ ہے کہ وہ مستنصر حسین تارڑ ہو جائے۔ میں نے بہت کم سفرنامے پڑھے ہوں گے؛ تاہم بیگم اختر ریاض الدین کی کتاب ''سات سمندر پار‘‘ مجھے زیادہ اچھی لگی تھی۔ آصف کے سفرنامے میں وہ تارڑ والی بارہ مسالے کی چاٹ تو نہیں لیکن انتظار حسین کے ساتھ نے اس تحریر کو مزید چار چاند لگا دیئے ہیں۔ کتاب میں کہیں کہیں طاہر اسلم گورا اور انور سن رائے اور نیر مسعود کا ذکر بھی اچھا لگا جو سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی ہے اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔
آج کا مقطع
خود کھِلا غنچۂ لب اُس کا‘ ظفرؔ
یہ شگوفہ نہیں چھوڑا میں نے