ایک عزیز نے لکھا ہے کہ ظفر اقبال نظم نہیں لکھ سکتے مگر اس پر خیال آرائی کرتے رہتے ہیں۔ ارے بھائی! آپ نظم کہتے ہیں‘ میں تو غزل بھی کہاں لکھ سکتا ہوں‘ اور‘ اگر لکھوں بھی تو اس کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ اگرچہ میں نے مجموعہ بھر نظمیں بھی کہہ رکھی ہیں‘ حتیٰ کہ چند نثری نظمیں بھی۔ پھر یہ بھی ہے کہ جو شخص غزل لکھ سکتا ہے وہ نظم کیوں نہیں لکھ سکتا کہ نظم میں بھی وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو اس سے پہلے کئی بار غزل میں کہی جا چکی ہوتی ہیں؛ تاہم ہر دو اصناف کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی کہ ادب میں حتمی بات کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
غزل پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں ہر مضمون کئی کئی بار باندھا جا چکا ہے اور اب اس میں مزید کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ یہ بات صحیح بھی ہے اور نہیں بھی‘ کیونکہ ہر پرانے مضمون میں بھی لاتعداد نئی طرفیں اور جہتیں ایسی ہوتی ہیں جو نکالی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل ابھی تک زندہ ہے اور زندہ رہے گی کیونکہ یہ بنیادی طور پر محبت کی شاعری ہے‘ اور‘ جب تک محبت کا وجود دنیا میں موجود ہے‘ غزل کہی بھی جاتی رہے گی اور اس کی طلب بھی برقرار رہے گی‘ ورنہ یہ کب کی اپنی موت مر چکی ہوتی جبکہ شاعری کا کم و بیش سارے کا سارا ٹیلنٹ غزل ہی کو زیب دے رہا ہے اور یہ عفیفہ جان چھوڑتی نظر نہیں آتی۔
محبی فخر زماں نے ایک جگہ لکھا ہے بلکہ وہ ایسا سمجھتے بھی ہیں کہ جو شاعری مزاحمتی نہ ہو‘ میں اسے شاعری نہیں مانتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جو شاعری جذبۂ عشق سے ہٹ کر ہے‘ میں اسے شاعری تسلیم نہیں کرتا۔ حالانکہ دونوں باتیں کئی لحاظ سے مبالغہ آمیز ہیں‘ اس لیے کہ آج کل خالص تو کوئی چیز رہ ہی نہیں گئی۔ ہر چیز ملاوٹ زدہ ہے اور اسی ذیل میں شاعری بھی آتی ہے‘ فرق صرف تناسب کا ہے کہ شاعری میں محبت کے معاملات کتنے ہیں اور دوسرے کتنے۔ پھر‘ یہ ہے کہ ہر آدمی کوشش ہی کرتا ہے اور اس سے زیادہ ممکن بھی نہیں ہے بلکہ اگر ساری شاعری کو کوششِ ناکام بھی کہہ لیا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا۔ اس لیے ملا جلا سبھی کچھ چلتا رہتا ہے۔
پھر یہ ہے کہ غزل اور نظم میں اب وہ اگلی سی دوری رہ بھی نہیں گئی۔ فرخ یار کی یہ نظم دیکھیے:
میں نے اُسے اتنا دیکھا ہے
جتنا دو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
لیکن آخر دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے!
اب اگر انہی الفاظ کو دو مصرعوں میں سمو دیا جائے تو یہ غزل کا شعر ہے۔ عرض کرنے کا مقصد ہے کہ آپ کہیں لکیر نہیں کھینچ سکتے۔ پھر‘ یہ آپ کے موڈ پر منحصر ہے کہ بات آپ کس حوالے سے کرنا چاہتے ہیں‘ وہ عشقیہ ہو یا غیر عشقیہ:
یعنی لکھ دی اُسی طرح کی غزل
ہو گیا جس طرح کا بھوت سوار
اصل بات تو یہ ہے کہ میں عنبرین صلاح الدین کے حوالے سے بتانا چاہتا تھا کہ یہ محبت کی شاعرہ ہیں۔ اب تک تو عورت پر ہی شاعری کی جاتی رہی ہے‘ مراد عشقیہ شاعری سے ہے۔ لیکن اگر عورت خود عشقیہ شاعری کرنے لگے اور ایک عاشق کا کردار سنبھال لے تو یہ ایک طرح سے دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پروین شاکر سے لے کر معصومہ شیرازی اور رفعت ناہید جیسی کئی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں۔ اس کی شاعری کے کچھ مزید نمونے دیکھیے:
وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے
سمندر کے کناروں پر‘ ہوا کے نرم جھونکوں میں... مری آواز سنتا ہے‘ رُوپہلے خواب بُنتا ہے... لپکتی ڈوبتی ہر موج پر گزرا کوئی لمحہ اُبھر کر جب اُسے دلگیر کرتا ہے... مجھے ملنے کی‘ پانے کی وہ ایسے میں نئی تدبیر کرتا ہے... گھروندے ریت سے تعمیر کرتا ہے... پرندوں کے پروں کی سرسراہٹ سے وہ چُنتا ہے مری آہٹ... سنہرے پانیوں میں میری آنکھوں کی چمک تحریر کرتا ہے... سمندر تو اُسے کہہ دے... مرے کمرے میں ساحل کی ہوا بھرنے لگی ہے... اور چہرے کو نمی چھونے لگی ہے... مجھے کیوں ہر مسافت میں وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے... کہیں کھونے نہیں دیتا‘ جدا ہونے نہیں دیتا... مری آنکھوں میں رہ رہ کر اُبھرتا ہے تلاطم جو اُداسی کا... مجھے سونے نہیں دیتا!
مری کھڑکی سے آ کر آسماں دیکھو
مری کھڑکی سے آ کر آسماں دیکھو! تمہارا نقش کیسے جا بجا نکھرا ہوا نیلاہٹوں میں ہے... مرے چہرے پہ دھوپ اور چھائوں کی اٹکھیلیاں کرتے... تمہارے عکس کے بادل... مرے کمرے کے اندر تک... اندھیروں اور اجالوں کا تسلسل یوں بناتے ہیں... کہ ہر لمحہ تمہارے ساتھ کا احساس رہتا ہے... تمہاری یاد کا روشن کنارہ پاس رہتا ہے... مجھے یوں وسعتوں نے گھیر رکھا تھا... کہ میں حیران تھی اپنی ہی ہستی پر... مگر اب ہر سوالِ نارسا کو... اپنے ہونے کے کسی امکان سے بڑھ کر نہیں پاتی... اگر کچھ سوچ سکتی... جان بھی لیتی! مگر ہر استعارہ... ہر ستارہ... میری جانب دیکھتا ہر اک کنارہ... بس حصارِ آرزو کے سحر میں لپٹا ہوا ہے... اور مکاں سے لامکاں تک ایک اک لمحہ... تمہارے سے تمہارے تک ہی بس سمٹا ہوا ہے... مری کھڑکی سے آ کر آسماں دیکھو... اگر دیکھو... تو تم بھی آسماں کو اس طرح دیکھو... کہ جیسے یہ مری کھڑکی کے اندر آ سمایا ہے!
جو رہی سو بے خبری رہی
مجھے بس ایک جانب دیکھتے رہنے کی عادت تھی... بھلا کیا تھا مرے اُس دوسری جانب... مجھے کیسے خبر ہوتی... مری سب آرزوئیں‘ خواہشیں‘ ادراک کے منظر... مرے اُس اک طرف تھے... دوسری جانب خلا تھا... یا مجھے ایسا لگا تھا... کوئی روزن‘ دریچہ‘ کوئی دروازہ... اگر تھا بھی تو بس... اُس ایک ہی جانب کھلا تھا... جس طرف خوابوں کا رستہ تھا!... مجھے بس ایک جانب دیکھتے رہنے کی عادت تھی۔ جہاں تم تھے!... مگر یہ بات بھی تو ہے... تمہارے اس طرف کیا تھا... مجھے کیسے خبر ہوتی... مجھے یہ بھی خبر کب تھی... مجھے کچھ بھی پتا کب تھا!
.........
ایسا پہلی بار ہوا تھا
آنکھیں رستہ بھول گئی تھیں
کھڑکی کے اک کونے میں رکھا آکاش عجب ہے‘ بات غضب ہے
خواب میں کھڑکی ہے یا کھڑکی میں ہے خواب‘ غضب ہے‘ بات غضب ہے
وال کلاک کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں‘ تصویریں گرنے لگتی ہیں
کمرے میں جنگل ہے‘ رستہ ہے‘ دریا ہے‘ سب ہے‘ بات غضب ہے
ہو نہ جائے کہیں انجام سے پہلے انجام
اس کہانی کو اسی طور سے چلنے دیں گے
میں نے پلٹ کے دیکھا نہیں تھا کہ رو نہ دوں
اور تم کو دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی
میرے اس شہر میں ایک آئینہ ایسا ہے کہ جو
مجھ کو اس شخص سے اوجھل نہیں ہونے دیتا
آج کا مقطع
جو مارنا ہے ظفرؔ کو تو شاعری سے مار
کہ دوست وہ تری تنقید سے نہیں مرتا