گوجرہ سے ہمارے دوست سید اذلان شاہ نے اپنا رسالہ ''نزول‘‘ اور شاعر نسیم سحرؔ پر لکھی گئی اپنی کتاب ''آوازہ‘‘ بھجوائی ہے۔ کتاب نسیم سحرؔ کی شاعری کا فنی و فکری مطالعہ ہے جو خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کی گئی ہے اور جس کی قیمت 250 روپے قائم کی گئی ہے۔ پسِ سرورق ہمارے ممتاز افسانہ نگار رشید امجد نے لکھا ہے جس کے مطابق مصنف نے شاعر کے موضوعات کا تعین کیا ہے اور ان کی عصری حیثیت متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے لیے کڑے تنقیدی معیار کو برقرار رکھا ہے۔ پوری کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ اذلان شاہ نے اپنے سارے کام کو ایک تجزیاتی عمل سے گزارا ہے...
ان کے رسالے کی یہ 9 ویں اشاعت ہے‘ جس کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ممتاز افسانہ نگار محمد حمید شاہد کا گوشہ شامل کیا گیا ہے۔ سرورق پر ان کی دیدہ زیب تصویر ہے جبکہ ان کے لیے توصیفی مضامین لکھنے والوں میں شمس الرحمن فاروقی‘ افتخار عارف‘ فتح محمد ملک‘ ناصر عباس نیر‘ ضیاالحسن‘ یٰسین آفاقی‘ غلام عباس‘ آصف فرخی‘ سید محمد اشرف‘ اسلم سراج الدین‘ ظہیر عباس اور یہ خاکسار شامل ہیں۔ علاوہ ازیں محمد حمید شاہد کے تین تنقیدی مضامین اور سات افسانے بھی رسالے کی زینت ہیں۔ ناصر عباس نیر‘ پریم رومانی اور سیمیں کرن نے مختلف تصنیفات کے جائزے پیش کیے ہیں۔ افسانوں کے حصے میں رشید امجد کا ا فسانہ ہے اور زاہد حسن نے ''ٹھمری میں پیلو کی بندش‘‘ کے عنوان سے مضمون باندھا ہے۔ اس کے بعد خالد قیوم کا افسانہ اور ڈاکٹر زین السائلین کا مختصر سفرنامہ ہے‘ جس کے بعد حمزہ حسن شیخ اور کرن شفقت کے افسانے ہیں اور وحید احمد کے ناول ''مندری والا‘‘ کا دوسرا باب۔ کتابوں پر تبصرے ہیں اور معمول کی حمدیں اور نعتیں جن میں سلیم کوثر اور دیگران کی نگارشات شامل ہیں۔
یاسمین حمید‘ دانیال طریر‘ مسعود احمد اور حسن جاوید کی غزلیں بطور خاص شامل کی گئی ہیں۔ دیگر غزل گوئوں میں انجم سلیمی‘ نصرت صدیقی‘ شاہد ذکی‘ رستم نامی اور دیگران شامل ہیں۔ حصۂ غزل میں سے آپ کی تفننِ طبع کے لیے کچھ شعر نکالے ہیں جو پیش ہیں:
گریۂ ہجر کو رُکنے کا اشارہ ہی نہ ہو
کیا خبر اپنے سمندر کا کنارہ ہی نہ ہو
کیا خبر بھول گیا ہو کبھی محور اپنا
آج جو خاک ہوا ہے وہ ستارہ ہی نہ ہو
یاسمین حمید
جنت کے پھل زمیں پہ گرانے کی دیر تھی
اک بار آسمان ہلانے کی دیر تھی
میں پیڑ میں قیام کروں گا تمام عمر
یہ بات طائروں کو بتانے کی دیر تھی
درندے ساتھ رہنا چاہتے ہیں آدمی کے
گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
اگائے گی ستارے اب یہ مٹی
زمیں پر آسماں لکھا گیا ہے
بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
پھر ایک روز مرے پاس آ کے اس نے کہا
یہ اوڑھنی ذرا قوسِ قزح سے رنگ مری
بدن پر ٹانک کر تارے اُڑایا جا رہا ہے
مجھے آخر پرندہ کیوں بنایا جا رہا ہے
میں سویا بھی نہیں ہوں اور سپنا دیکھتا ہوں
زمیں پر آسمانوں کو بچھایا جا رہا ہے
نظر آتی نہیں ہے بولنے والے کی صورت
سنائی دے رہا ہے جو سنایا جا رہا ہے
دانیال طریرؔ
اس جنگ میں ہارا ہوں جہاں میرے مقابل
کوئی بھی نہیں تھا مرے لشکر کے علاوہ
مسعود احمد
دعا چراغ ہے اور راستے میں چاہیے ہے
یہ عکس مجھ کو کسی آئینے میں چاہیے ہے
حسن جاوید
دن لے کے جائوں ساتھ‘ اُسے شام کر کے آئوں
بے کار کے سفر میں کوئی کام کر کے آئوں
انجم سلیمی
سمجھ میں آئے بغیر آ رہی تھی بات سمجھ
غلط طرح سے حکایت بیان ہو گئی تھی
جہاں پہ خود کو کسی کے حوالے میں نے کیا
وہیں پہ ختم مری داستان ہو گئی تھی
سید اذلان شاہ
علاوہ ازیں عمران نقوی‘ اسد محمد خاں اور علی بابا کی نظمیں ہیں‘ روحی طاہر اور اسلم سحاب کے دو دو افسانے بطور خاص شامل کیے گئے ہیں۔ شہباز یوسف کی تین غزلوں میں یہ شعر بہت اچھے لگے:
راس آنے ہی کو تھا ریت کا انبار مجھے
چل پڑی پھر سے ہوا‘ کر گئی بیکار مجھے
آخرش تیری کفالت سے بھی اُکتا گیا میں
آخرش بننا پڑا اپنا نمک خوار مجھے
اب جو سوچوں تو بدن خوف سے کانپ اٹھتا ہے
تو‘ تو اندر سے بھی کر سکتا ہے مسمار مجھے
آج کا مطلع
اب کہ اس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پائوں پر پائوں جو رکھنا تو دبا بھی دینا