"ZIC" (space) message & send to 7575

لوٹ کے بُدھو گھر کو آئے

کوئی تین ماہ بعد فارم ہائوس واپسی ہوئی ہے۔ شہر میں نزولِ اجلال کی وجہ ہماری مضامین کی کتاب کی طباعت تھی جسے سنگ میل پبلی کیشنز چھاپ رہے ہیں۔ ''لاتنقید‘‘ اس کا نام رکھا گیا ہے جو کلیاتِ نثر‘ جلد اول ہوگی۔ پہلا فرق یہاں آتے ہی یہ محسوس کیا کہ زمین کا پھیلائو تو تھا ہی‘ یہاں آسمان بھی بہت بڑا نظر آتا ہے‘ یعنی ہر طرف آسمان ہی آسمان۔ دوسرا یہ کہ جن پودوں پر پہلے پھول ہی پھول تھے‘ وہاں اب ٹھیک ٹھاک مالٹے لگے ہوئے تھے جو نارمل سائز سے نصف ضرور ہوں گے۔ اس کے پھول کرنا کہلاتے ہیں اور کرن پھول بھی۔ اس سے یاد آیا کہ زمانۂ طالب علمی میں ایک جاپانی ہائیکو کا ترجمہ کیا تھا ؎ 
میں نے مانا کہ مجھ سے نفرت ہے 
تجھے اے رنگ روپ کی رانی 
پر، وہ اک سنگترے کا پودا جو 
بھر کے پھولا ہے میرے گھر کے پاس 
کیا اُسے دیکھنے نہ آئو گی؟ 
سٹرس کی فیملی کافی لمبی چوڑی ہے جو لیموں سے شروع ہو کر مالٹے‘ موسمبی‘ کینو‘ سنگترے اور کھٹی تک پھیلی ہوئی ہے بلکہ چکوترا بھی۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎ 
اُس ناری کے پاس دو 
ناگپوری سنگترے ہیں 
ناگپوری سنگترہ جو کینو کی شکل کا اور اس سے کافی چھوٹا ہوتا ہے اور نہایت شیریں‘ جو کہیں ناگپور ہی میں رہ گیا۔ ایک بڑے سائز کا سنگترہ بھی ہوا کرتا تھا جسے ہم ہوادار سنگترہ کہا کرتے تھے کیونکہ وہ اندر سے بہت چھوٹا نکلتا تھا‘ یقینا میٹھا بھی‘ جو ہمارے ہاں شرطیہ میٹھے کہلاتے ہیں‘ اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
صبح صبح گھاس پر ننگے پائوں چل کر تو نہیں دیکھا کہ بارش ہو چکی تھی اور پھسلنے کا اندیشہ تھا؛ تاہم پھسلنے کے لیے کیلے کا چھلکا مثالی چیز ہے جو اس حکایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک سردار صاحب کہیں جا رہے تھے کہ کیلے کے چھلکے سے پھسل کر گر پڑے۔ کپڑے جھاڑ کر اٹھے اور اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ تھوڑی دور جا کر ایک اور چھلکے سے پھسل کر گرے۔ ابھی چند قدم ہی گئے تھے کہ سامنے کیلے کا چھلکا پڑا تھا‘ جسے دیکھ کر بولے: 
''لو جی‘ لگتا ہے‘ ایک بار پھر پھسلنا پڑے گا!‘‘ 
بارش کی وجہ سے پرندے تو خال خال ہی نظر آئے؛ تاہم ایسا لگتا ہے کہ درختوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ درخت ویسے بھی‘ بقول انتظار حسین ذرا دیر سے پہچانتے ہیں۔ اور کوئی تبدیلی نہیں تھی ماسوائے اس کے کہ گلاب کے پھول سرے سے ہی غائب تھے جس کی کمی بعض پودوں نے پوری کردی ہے جو پھولوں سے لدے پھندے کھڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان پر خزاں کا کوئی اثر نہیں تھا۔ بارش کی وجہ سے موسم میں خُنکی کا یہ عالم ہے کہ نومبر کا سماں محسوس ہوتا ہے۔ بتی گئی ہوئی تھی‘ باہر نکل کر بیٹھا تو گویا اللہ میاں نے ایئرکنڈیشنر چلا رکھا تھا۔ ہوا جیسے پانی سے شرابور ہو۔ کتاب تو ابھی چھپنے کے مراحل ہی میں تھی‘ میری یہاں واپسی اس لیے بھی ضروری ٹھہری کہ اتنے عرصے سے واک چھٹی ہوئی تھی اور چلنے میں پہلے سے زیادہ دقت محسوس کر رہا تھا۔ چنانچہ راہداری ہی میں تھوڑا بہت چلا ہوں‘ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی؛ تاہم اس خاموشی میں ابھی ایک چھوٹی فاختہ نے اپنی آمد کا اعلان کیا ہے جسے غالباً قُمری اور ہم پنجابی میں ٹیٹرو‘ کہہ کر پکارتے ہیں اور معاً چچا غالب یاد آگئے ؎ 
قُمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ 
اے نالہ نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے 
بلکہ ایک کوا بھی عین سر پر سے ہمارا گویا مذاق اُڑاتا ہوا گزر گیا ہے۔ دھوپ نکلنے پر شاید دیگر پرندے بھی ظاہر ہوں۔ کووں کی بہتات اس قدر ہے کہ اسے ہمارا قومی پرندہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ شاہین تو پہاڑوں کی چٹانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بارے چڑیوں نے بھی راگ الاپنا شروع کردیا ہے جو طلوعِ صبح کی خاص نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ محاورہ درست نہیں ہے کہ وہاں تو چڑیا پر نہیں مار سکتی کیونکہ پر مارنے میں اسے کوئی رکاوٹ کہیں درپیش نہیں ہوتی۔ نہ ہی آپ اُڑتی چڑیا کے پر گن سکتے ہیں۔ ویسے بھی چڑیوں کے پروں کی تعداد ایک سی ہی ہوتی ہے اور ان کے پر گننے کا کوئی فائدہ یا مطلب نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا ہے کہ گوجرانوالہ میں صرف چڑیاں ہوتی ہیں کیونکہ چڑے سارے کے سارے یار لوگ بھون کر کھا چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے چڑیوں کی باری بھی آ جائے۔ 
ہوا رُک رُک کر چل رہی ہے جو واقعتاً بھیگی بھیگی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اسے سکھایا بھی جا سکتا ہے۔ غالباً اللہ میاں کی سب سے بڑی نعمت ہوا ہی ہے جو سراسر مفت دستیاب ہے۔ بوندا باندی شروع ہو گئی ہے اور اُٹھ کے اندر آ گیا ہوں یعنی ؎ 
واہمے سب دماغ سے نکلے 
بارش آئی تو باغ سے نکلے 
پرندے بھی‘ جو اِکا دُکا نکلے تھے کہیں چھپ چھپا گئے ہیں‘ البتہ کھڑکی کے شیشے سے بارش سے لطف اٹھاتا ہوا ڈفی صاف نظر آ رہا ہے۔ سگ باش‘ برادرِ خورد مباش‘ تو سن رکھا تھا‘ ایک صاحب کے بارے میں منقول ہے کہ بوجہ انکساری خط کے آخر پر اپنے آپ کے لیے سگِ دنیا کا لقب چن رکھا تھا‘ حتیٰ کہ لوگوں نے انہیں واقعی سگِ دنیا کہنا شروع کردیا۔ امریکی مزاح نگار مارک ٹوین لکھتے ہیں کہ ہم بہت غریب ہوا کرتے تھے‘حتیٰ کہ رات کو چوروں کو ڈرانے کے لیے باری باری کتوں کی طرح بھونکا کرتے تھے۔ ایک صاحب کسی سے ملنے کے لیے گئے تو اس کا کتا ان کی طرف بھونکتے ہوئے لپکا جس پر وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے‘ جس پر کتے کے مالک نے کہا: 
''ڈرنے کی ضرورت نہیں‘ کیا آپ نے پڑھ نہیں رکھا کہ بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے‘‘ جس پر مہمان بولا: 
''میں نے تو پڑھ رکھا ہے لیکن ہو سکتا ہے آپ کے کتے نے نہ پڑھ رکھا ہو!‘‘ 
سو‘ ہوا کے بعد بارش بھی ایک ایسی نعمت ہے جس پر آپ کا کچھ نہیں لگتا کیونکہ پانی بھی ہر جگہ مفت نہیں ملتا۔ بلکہ صاف پانی تو شاید ہی کہیں دستیاب ہو‘ حتیٰ کہ خریدا ہوا پانی بھی مشکوک ٹھہر چکا ہے‘ جب کہ کنوئوں میں بھی اب صرف کنوئوں کے مینڈک ہی باقی رہ گئے ہیں جبکہ مینڈکی کو زکام ہوتا ہے حالانکہ مینڈکوں کو بھی ہونا چاہیے۔ رم جھم رُکی ہے تو پھر باہر آ گیا ہوں کیونکہ اندر بیٹھا نہیں جاتا۔ گرمی ہے اور جنریٹر کا تیل ختم ہو چکا ہے؛ تاہم‘ باہر بھی ہُو کا عالم ہے ماسوائے اس مشین کی بیزار کُن آواز کے جو کچھ فاصلے پر ایک زیرِ تعمیر گھر میں چل رہی ہے۔ منیجر کو فارغ کر دیا گیا تھا جس کی جگہ احسن نامی نوجوان کو تعینات کیا گیا ہے جو پڑھا لکھا بھی ہے اور جو بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے آیا کرتا تھا۔ باقی عملہ وہی ہے‘ خان بابا سمیت جو باقی ملازمین پر ایک طرح کا نمبردار ہے۔ لوڈ زیادہ تھا‘ پتہ چلا ہے کہ میٹر جل گیا ہے چنانچہ اب دو میٹر لگوانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں تاکہ لوڈ تقسیم ہو سکے اور بجلی کی آمدورفت جاری رہے جس میں آمد کم ہوتی ہے اور رفت زیادہ۔ اور اگر عالم یہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ آسمانی بجلی ہی پر گزارا کرنا پڑے کہ ع 
ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر 
آج کا مطلع 
خاص کوئی نہیں، عام کوئی نہیں 
ہاتھ موجود ہیں کام کوئی نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں