ادیب برادری کو خوشخبری ہو کہ ان کے محبوب نثرنگار انتظار حسین نے بالآخر قدم قدم چلنا شروع کردیا ہے۔ انتظار حسین کا چلنا ایک خبر ہے بلکہ ان کا رُکنا بھی ایک خبر تھا۔ لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ کوئی فلم سٹار بیمار پڑ جائے تو میڈیا میں باقاعدہ اس کے لیے بلیٹن شائع اور نشر کیے جاتے ہیں۔ ایک سینئر اور جینوئن ادیب کی اہمیت تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے ہماری حکومتیں تو گونگی بہری ہیں ہی‘ معاشرہ بھی مایوس کن کردار ادا کر رہا ہے جس سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
انتظار صاحب نے فون پر بتایا کہ انہوں نے چلنے کی پریکٹس شروع کردی ہے۔ خدا کرے وہ جلد از جلد بھاگنا بھی شروع کردیں۔ ایک صاحب نے دوسرے کو بھاگنے کے صحت افزا فوائد بتاتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا تم نہیں بھاگتے تو اس نے کہا کہ میں تو اس وقت بھاگتا ہوں جب کوئی میرے پیچھے بھاگتا ہے؛ تاہم دعا ہے کہ وہ فی الحال باقاعدگی سے آہستہ آہستہ ہی چلنا شروع کردیں۔ منقول ہے کہ ایک طالبہ کالج دیر سے پہنچی۔ اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی‘ میں گھر سے نکلی ہی تھی کہ ایک اوباش نوجوان نے میرا پیچھا کرنا شروع کردیا۔
''لیکن اس کا تمہارے دیر سے آنے سے کیا تعلق ہے؟‘‘ اس سے پوچھا گیا‘ جس پر وہ بولی:
''وہ کم بخت چل ہی بہت آہستہ آہستہ رہا تھا...‘‘
تاہم صاحبِ موصوف جب آہستہ آہستہ چلنا شروع کردیں گے تو ہم ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھیں گے‘ مبادا وہ کوئی ایسی وجہ ہو جسے وہ بتانا پسند نہ کریں؛ تاہم ایک بھاگنا جان چھڑانے کے لیے بھی ہوتا ہے‘ مثلاً بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔ اور‘ یہ محاورہ بھی کسی سست الوجود شخصیت پر ہی فٹ کیا گیا لگتا ہے جو خود چور کا پیچھا کرنے کی بجائے اس کی لنگوٹی ہی پر اکتفا کر کے بیٹھ گئے۔ اول تو چور کا لنگوٹی چھوڑ کر بھاگنا ہی خاصا محلِ نظر ہے کیونکہ لنگوٹی نہ صرف اس کے بھاگنے میں حارج نہیں تھی بلکہ اس کے بھاگنے میں مددگار بھی ثابت ہوتی ہے کہ بھاگتے وقت کپڑوں کو تو سنبھالنا پڑتا ہے‘ لنگوٹی تو دیگر اشیاء کے علاوہ اپنے آپ کو خود ہی سنبھالے ہوئے ہوتی ہے جبکہ انتظار صاحب تو ویسے بھی لنگوٹ کے بہت پکے بتائے جاتے ہیں۔
تفنن برطرف‘ بات حکومت اور معاشرے کی بے حسی کے حوالے سے ہو رہی تھی کہ زندہ لیجنڈ کی قدر و قیمت کے ادیبوں کو یہاں کتنی اہمیت دی جاتی ہے جو ایک بیمار معاشرے اور ایک بے مغز حکومت کی چغلی کھاتا ہے۔ صرف فیض احمد فیض روڈ نام کی ایک سڑک نظر آتی ہے جو ہماری کسی حکومت کی فیاضی کی چغلی کھا رہی ہے‘ ورنہ جانے والوں میں سے ناصر کاظمی‘ منیر نیازی اور اشفاق احمد کو اس قابل بھی نہیں سمجھا گیا کہ جس گلی میں وہ رہائش رکھتے تھے‘ وہی ان کے نام سے منسوب کر دی جاتی۔ کیا 121سی ماڈل ٹائون کو اشفاق احمد روڈ کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا؟ اسی طرح انتظار حسین کے علاوہ عبداللہ حسین‘ بانو قدسیہ اور مستنصر حسین تارڑ کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے... تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو
حق تو یہ ہے کہ ان ادباء کو اس کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہی اس سے ان کے مرتبے میں کوئی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا کام ہی ان کا سب سے بڑا انعام ہے بلکہ اس میں حکومتوں اور معاشرے کی اپنی ادب نوازی اور بیداریٔ ضمیر پوشیدہ ہے اور جو ان کی زندگی اور توانائی کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ بصورت دیگر یہ ایک اجتماعی مُردنی ہے جو جا بجا چھائی نظر آتی ہے اور جس کا مطلب ہے کہ آپ ادب کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کی جڑیں بھی کاٹ رہے ہیں اور اپنی آئندہ نسل کو ایک ایسا ملک دے کر جا رہے ہیں جس میں اصل زندگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
سو‘ انتظار حسین جس گلی میں رہتے ہیں‘ اگر اُسے ہی انتظار حسین سٹریٹ کا نام دے دیا جاتا تو موصوف کی ٹوپی میں سرخاب کا کوئی پر نہ لگ جاتا‘ لیکن حکومت یعنی موجودہ حکومت کی ادب نوازی کا حال تو یہ ہے کہ ادب کی ترویج و ترقی کے لیے جو ادارے پہلے سے موجود ہیں وہ بھی ابتری کا شکار ہیں۔ اکادمی ادبیات اور دیگر ایسے اداروں کے بجٹ میں مسلسل کٹوتی کی جا رہی ہے۔ ایک عرصے سے یہ چیئرمین کے بغیر ہے، ''نئے ادب کے معمار‘‘ سلسلے کی کتابوں کی اشاعت کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔ خود رسالہ ''ادبیات‘‘ کی اشاعت بے قاعدگی کا شکار ہے۔ جن بیمار اور نادار ادیبوں کے وظائف مقرر تھے‘ ان کی ادائی مشکوک ہو کر رہ گئی ہے جبکہ مقتدرہ قومی زبان‘ نیشنل بک فائونڈیشن‘ اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ وغیرہ کو خرچہ بچانے کے لیے آپس میں مدغم کیا جا رہا ہے جس سے ان کی کارکردگی یقینا متاثر ہوگی۔ علاوہ ازیں‘ حال ہی میں باہر سے لاہور آنے والے ادیبوں کے لیے جس رہائشی ہاسٹل کی خوشخبری سنائی گئی تھی وہ بھی لگتا ہے کہ بیوروکریسی کے کاغذات ہی میں کہیں گم ہو چکی ہے اور حکومت سمجھ رہی ہے کہ پاک ٹی ہائوس کی تزئین و آرائش ہی ان کی بخشش کے لیے کافی ہے۔
پھر عرض کروں گا کہ مندرجہ بالا شخصیات خود اپنے استحقاق میں اس مقام پر فائز ہیں جو ان کے لیے کافی ہے۔ مجید نظامی روڈ پر سے گزرتے ہوئے ایک خوشی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے لیکن اگر کسی سڑک کو آئی اے رحمن کے نام سے بھی منسوب کردیا جاتا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی جبکہ ظفر علی خان روڈ بھی پہلے سے موجود ہے‘ حتیٰ کہ نور جہاں روڈ بھی‘ حالانکہ مہدی حسن روڈ کا ہونا اس سے بھی زیادہ ضروری تھا۔ بہرحال‘ ختمِ کلام اس دعا پر کہ ہمارا دوست بہت جلد کبھی بھارت میں نظر آئے‘ کبھی کسی مغربی ملک میں‘ اور دورے پر پاکستان میں بھی وارد ہوتا رہے‘ آمین!
آج کا مقطع
چلنے والوں کی، ظفرؔ مرضی ہے
کام تھا راہ دکھانا میرا