ایک نوجوان نوکری کے لیے ایک کارخانے میں گیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ سفیدی اور پینٹنگ کے شعبہ میں چلا جائے‘ شاید وہاں کوئی گنجائش ہو۔ نوجوان نے وہاں پہنچ کر اپنی درخواست دی تو متعلقہ افسر کے ہاتھ میں اس وقت سفیدی کرنے والا ایک برش تھا جس نے اسے اونچا اچھالا اور واپس گرتے ہوئے برش کو اس کے دستے سے بڑی مہارت سے اُچک لیا اور نوجوان سے پوچھا کہ کیا وہ بھی ایسا کر سکتا ہے‘ جس پر نوجوان نے اثبات میں جواب دیا اور برش ہاتھ میں لے کر اونچا اچھالا اور اسے واپسی پر بڑی صفائی سے اُچک لیا‘ جس پر مذکورہ افسر نے اس کی درخواست پر لفظ ''نامنظور‘‘ لکھ کر درخواست اسے واپس کردی۔ نوجوان نے حیران ہو کر اس کی وجہ پوچھی تو افسر بولا۔ ''ہمارے اس شعبے میں سفیدی کے لیے کوئی درجن بھر لوگ پہلے سے موجود ہیں جو سارا دن یہی کچھ کرتے رہتے ہیں‘‘۔
ہمیں کالموں کا ایک مجموعہ موصول ہوا ہے جس پر ہمیں یہ لطیفہ یاد آیا کہ سارے کالم ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور بھائی لوگ ان کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ وہ ایک مضمونچہ‘ یا تجزیہ لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور اس کو کالم سمجھ کر چھاپ دیا جاتا ہے جبکہ اس تحریر کو کالم ہرگز نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کالم صرف فکاہی ہوتا ہے جس میں چھیڑ چھاڑ‘ ہلکی پھلکی تنقید یا نوک جھونک ہوتی ہے اور سنجیدگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لوگ یہ تحریریں اس لیے پڑھ جاتے ہیں ۔انہوں نے ظاہر ہے کچھ پڑھنا ہی ہوتا ہے اور ان تحریروں میں گزرے ہوئے کل کے واقعات پر کمنٹ یا تجزیہ ہوتا ہے‘ مزید یہ کہ انہوں نے اپنے پیسے پورے بھی کرنا ہوتے ہیں جبکہ کئی سال پہلے کے لکھی ہوئی اور کتابی صورت میں دستیاب ایسی تحریریں اس قدر پرانی ہو چکی ہوتی ہیں کہ انہیں پڑھنے کے لیے اپنے آپ کو آسانی سے آمادہ نہیں کیا جا سکتا‘ نہ ہی ان کی کوئی تاریخی اہمیت یا افادیت ہوتی ہے کہ یہ صرف مصنف کی ذاتی آراء پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے سے کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہوتا۔
پھر‘ ایسی تحریروں میں مصنف کا ایک طرف قدرتی جھکائو ہوتا ہے اور جو غیر جانبدارانہ ہرگز نہیں ہوتیں اور سیاسی تجزیوں میں مصنف اپنی پسند و ناپسند ہی کے تحت اظہارِ خیال کرتا ہے اور جس طرح اخبار کی عمر ایک روزہ ہوتی ہے‘ اسی طرح ان میں شائع ہونے والی تحریروں کی زندگی بھی ایک ہی دن کی ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ غیر متعلقہ ہو جاتی ہیں اور اس لیے ان کی افادیت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے‘ البتہ محققین کے لیے ان میں دلچسپی کا کوئی سامان باقی رہ گیا ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ان کی قسمت طاقِ نسیاں کی زینت ہونا ہی رہ جاتا ہے۔
ماضیٔ قریب میں جب کالم نویسی کا رواج ہوا تو اس سلسلے میں چراغ حسن حسرت‘ احمد ندیم قاسمی اور مشفق خواجہ کا نام لیا جا سکتا ہے‘ اور لطف یہ ہے کہ یہ حضرات فرضی نام سے لکھا کرتے تھے جبکہ اب ہم لوگ نہ صرف اصلی نام سے لکھتے ہیں بلکہ کالم کے ساتھ گھڑے جتنی بڑی تصویر بھی چھپتی ہے؛ چنانچہ حلقہ بگوش کے قلمی نام سے لکھے گئے مشفق خواجہ کے کالموں کے جو متعدد انتخابات شائع ہو چکے ہیں وہ پڑھنے والوں کے لیے آج بھی ایک ضیافتِ مطالعہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
عہدِ موجود میں عطاء الحق قاسمی کے کالم خاصے کی چیز ہوتے ہیں جو پورے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے اور ان کے مجموعے گرم پکوڑوں کی طرح بکتے ہیں۔ اسی طرح گلِ نو خیز اختر اور اشفاق احمد ورک کے ہلکے پھلکے کالم بھی اپنا ایک جواز رکھتے ہیں۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ربع صدی پہلے اخبار میں صرف ایک کالم ہوا کرتا تھا جبکہ وقارا نبالوی بھی فرضی نام سے یا نام کے بغیر لکھا کرتے تھے۔ اب تو ماشاء اللہ اخبار کے دو اندرونی صفحے ایسی تحریروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں کالم کہنا سراسر زیادتی ہے ا ور ان کے مجموعے شائع کر کے مزید زیادتی کی جاتی ہے۔
''ماہ و سال‘‘ کے نام سے ایسے ہی کالموں کا مجموعہ عتیق صدیقی صاحب نے تحریر کیا ہے جسے ''کاغذی پیرہن‘‘ لاہور نے شائع کیا ہے اور جس کی قیمت 450 روپے رکھی گئی ہے۔ دیباچہ نگاروں میں شاہد شیدائی‘ جو اس کتاب کے ناشر بھی ہیں‘ مامون ایمن اور پروفیسر یونس شرر شامل ہیں جبکہ فلیپ پر واصف علی واصف اور اقبال سکندر کی رائے درج ہے۔ کتاب کا انتساب مصنف کی اہلیہ اور بچوں کے نام ہے۔ مصنف خود امریکہ کے رہائشی ہیں‘ البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ وہاں یا یہاں کس اخبار میں چھپتے رہے ہیں۔ کتاب میں جا بجا اشعار کے اندراج سے بھی کام لیا گیا ہے۔
کتاب کے موضوعات وہی ہیں جو ایسی تحریروں کے ہوا کرتے ہیں‘ البتہ اس میں ادبی موضوعات پر بھی دو کالم موجود ہیں جن میں ایک ناصر علی سید کے فن اور شخصیت پر ہے جن سے ہمارا یہ پہلا تعارف ہے اور شاعر کے جو منتخب اشعار مصنف نے درج کیے ہیں وہ روٹین کی شاعری اور معمولی درجے کے ہیں۔ دوسرا کالم حال ہی میں انتقال کر جانے والے ادیب اور شاعر افتخار نسیم (افتی) پر ہے جو باقاعدہ ''گے‘‘ تھا اور جس نے وہاں ایک سکھ سے شادی کر رکھی تھی جس کا ذکر ضروری تھا‘ لیکن مصنف اس سے اجتناب کرگئے‘ حالانکہ یہ شاعر کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھی اور جسے چھپانے کی مرحوم نے کبھی کوشش نہیں کی۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ افتی کے انتقال کے بعد وہ سکھ رنڈوا ہوا ہے یا بیوہ۔
تاہم افتخار نسیم ایک نہایت خوشگوار اور یارباش آدمی تھا۔ کوئی دس سال پہلے مجھے وہاں کی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے مشاعرے پر بلا رکھا تھا جس دوران مرحوم نے خصوصی ذوق و شوق بلکہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا‘ اور لکھا کہ یہاں شہر بھر میں آپ کے بینر لگے ہوئے ہیں اور پورا امریکہ آپ کا منتظر ہے۔ میں ویزا لگوانے کے لیے اسلام آباد گیا جہاں انہوں نے میرے انگوٹھے وغیرہ بھی لگوائے لیکن کچھ عرصے بعد لکھا کہ آپ کی انگلیوں کے نشانات صاف نہیں ہیں اس لیے آپ کے کاغذات امریکہ سے واپس آ گئے ہیں۔ براہ کرم اس کے لیے دوبارہ تشریف لائیں‘ لیکن میں دوبارہ تشریف نہیں لے گیا ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
آج کا مقطع
جنگل میں مور ناچ رہا ہے ابھی، ظفرؔ
جلدی سے کوئی دیکھنے والا کہیں سے لائو