تصنیف حیدر صاحب جو کسی سیاق و سباق کے بغیر مجھ پر چڑھ دوڑے ہیں‘ میں نے اس کا بُرا نہیں مانا‘ اگرچہ ان کے اکثر و بیشتر فرمودات خلافِ واقعہ ہیں۔ ان کی منطق عجیب و غریب اور ناقص ہے۔ اور اگر یہ انہوں نے آصف فرخی صاحب کے اشارے پر کیا ہے‘ تو بھی کوئی بات نہیں۔ وہ ہمارے دوست ہیں اور اپنے مؤقر جریدے میں اس طرح کی رونق لگائے رکھتے ہیں۔ اگر مضمون نگار بقولِ خود واقعی مجھے میرؔ و غالب کے بعد بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں تو اس کا کم از کم مطلب تو یہ ہونا چاہیے کہ مجھے پتہ ہے کہ شعر کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں۔ میرا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جس شاعری کے انہوں نے حوالے دیئے ہیں‘ میں اسے شاعری تسلیم نہیں کرتا۔ ان کا یہ کام لائق تحسین ہے کہ انہوں نے بھارت میں تخلیق کی جانے والی غزل کے معتدبہ نمونوں سے استفادہ کرنے کا موقع ہمیں فراہم کیا ہے۔ یہ سارے اشعار جو کم و بیش 90 بنتے ہیں‘ میری دانست میں ان میں ایک شعر بھی ایسا نہیں ہے جسے صحیح معنوں میں شعر قرار دیا جا سکے۔ یہ موزوں گوئی ہے اور قافیہ بندی۔
یہ محض گزارے موافق شاعری ہے‘ کسی تازگی اور تاثیر کے بغیر۔ کہیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ شاعری کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا۔ فسٹ کلاس ہوتی ہے اور تھرڈ کلاس۔ مطلب یہ کہ شعر اگر فسٹ کلاس نہیں تو سیدھا سادہ تھرڈ کلاس ہے۔ اصل مصیبت یہ ہے کہ ہم تحسین باہمی کے زمانے میں جی رہے ہیں‘ یعنی ع
من تُرا ملّا بگویم تو مرا حاجی بگو
ہمارے نقادانِ کرام کا مسئلہ بھی یہی ہے اور شعرائے عظام کا بھی۔ برادرم شمس الرحمن فاروقی جب پروین کمار اشک اور سلطان اختر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں تو میری جو اتنی تعریف انہوں نے کر رکھی ہے وہ بھی مشکوک ہو جاتی ہے! اس سے زیادہ میں کچھ عرض نہیں کرنا چاہتا۔ نیز اس حسن انتخاب کے بعد ان کی شعر فہمی میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ حتیٰ کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لینا چاہیے۔ میں نے تو ہاتھ کھڑے کیے ہوئے ہیں یعنی بقول اکبر الٰہ آباد ی ؎
شیخ سے بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
رفیق معتبرؔ صاحب کی قدر میں اس لیے کرتا ہوں کہ وہ کام کو سمجھتے ہیں۔ میں نے غالب کے حوالے سے محض اپنی اصلاح کے لیے چند سوالات اٹھائے تھے‘ جو میرا حق تھا۔ رفیق معتبرؔ صاحب نے اپنا حق ہی استعمال کرتے ہوئے ان کا جواب دیا ہے۔ وہ اپنے دعوے پر دلیل بھی لاتے ہیں اور سند بھی لیکن اکثر و بیشتر قائل نہیں کرتے۔ چنانچہ غالبؔ کے لیے جو وہ مومنؔ کی سند لائے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مومن بندہ بشر نہیں تھے؟ کیا وہ غلطی نہیں کر سکتے؟ سند لانے کو میں ویسے بھی خواہ مخواہ کی سترپوشی سمجھتا ہوں جس کا مطلب ہے کہ فلاں صاحب نے جو جھک ماری ہے‘ وہ اس لیے درست ہے کہ ایسی ہی جھک فلاں صاحب نے بھی مار رکھی ہے؛ چنانچہ ہمارے ہاں یہ رواج پڑ چکا ہے کہ کسی بھی استاد کی غلطی کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ نکالا جائے حالانکہ غلطی تو بہرصورت غلطی ہوتی ہے اور اگر یہ غلطی کسی استاد کی ہو تو زیادہ قابلِ افسوس ہے؛ تاہم اس توجہ کے لیے ان کا شکرگزار ہوں۔
نظمیں سب کی سب پڑھ گیا ہوں‘ یہ حصہ حسبِ معمول خوبصورت اور خوشگوار ہے۔ بھارتی شعراء کی نظموں سمیت۔ البتہ ایک بات میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ مشرقی پنجاب سے جو شاعری ہماری طرف آتی ہے وہ استحصال دشمنی سے معمور ہوتی ہے اور سامراج مخالف‘ جبکہ علاوہ ازیں نظموں میں یہ ذائقہ نظر نہیں آتا۔
حصہ نثر ابھی سارا نہیں دیکھ سکا؛ تاہم انتظار حسین اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کا مضمون خاصے کی چیز ہے۔ البتہ نیّر صاحب نے ایک شعر اس طرح سے نقل کیا ہے ؎
کبیراؔ کھڑا بزار میں مانگے سب کی خیر
نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بیر
ڈاکٹر صاحب تحقیق کر لیں کیونکہ میرے خیال میں کبیرؔ نہیں بلکہ اسی قدوقامت کے ایک دوسرے شاعر تُلسیؔ داس کا ہے۔ میری دلیل یہ بھی ہے کہ اس بحر میں کبیراؔ کا لفظ شروع میں اپنے صحیح وزن کے ساتھ نہیں آتا۔ اور اگر میرا خیال درست ہے تو اس شعر کی درست املا یوں ہوتی ؎
تُلسیؔ کھڑا بجار میں مانگے سب کی کھَیر
نا کاہو سے دوستی، نا کاہو سے بیر
بچوں کے ادب کے حوالے سے اراشد اشرف کا مضمون خوب ہے؛ تاہم انہیں صوفی تبسمؔ کی لکھی ہوئی نظموں کا ذکر کرنا شاید یاد نہیں رہا جو ضرب المثل ہو چکی ہیں اور لوگوں کو زبانی یاد بھی۔
افسانہ میری چائے کی پیالی نہیں ہے؛ تاہم شروع کے تینوں افسانے پڑھ گیا ہوں جو زبردست ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کو تو میں ویسے بھی مِس نہ کرتا۔ حسن منظر اور انیس اشفاق کی کہانیاں بھی خوب ہیں۔ باقی افسانے کسی دوسری نشست کے لیے اٹھا رکھے ہیں۔
کشور ناہید کا مضمون بھی دل گداز ہے اور یہ مضمون کشور ہی کو لکھنا چاہیے تھا۔ باقی تراجم بھی متاثر کرتے ہیں جبکہ تراجم کا حصہ ہمیشہ ہی جاندار ہوتا ہے۔
حصہ نظم کی طرف دوبارہ آتے ہوئے‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب کئی دوسروں کے علاوہ جناب احمد ندیم قاسمی بھی نثری نظم کو نہیں مانتے تھے‘ تو میں نے لکھا تھا کہ جو لوگ نثری نظم کو شاعری نہیں سمجھتے‘ انہیں نسرین انجم بھٹی کی نظمیں پڑھنی چاہئیں! وجاہت مسعود نہ معلوم پہلے کہاں تھے‘ یا میں ہی کہیں اور تھا‘ ان کی نظموں نے خوش بھی کیا اور حیران بھی۔ شاہین عباس کی غزل کے تو ہم قتیل شروع سے ہی چلے آ رہے ہیں‘ ان کی نظم نے بھی بہت مزہ دیا۔ زاہد حسن ہر بار متاثر کرتے ہیں جبکہ احمد شہریار‘ اوم پربھارکر اور امئے کانت کی نظمیں بھی قابلِ تعریف ہیں۔
آخر میں جو تراجم کا حصہ ہے بطور خاص جاندار ہے کہ سرسری دیکھنے سے بھی اس کی اہمیت اور قدرو قیمت اُجاگر ہو جاتی ہے۔ برادرم آصف فرخی اگر غزلوں کی بجائے ایسے تراجم ہی شائع کیا کریں تو کیا ہی اچھا ہو۔ آخر اجمل کمال بھی تو ''آج‘‘ میں غزلیں نہیں چھاپتے کیونکہ جیسی غزل بالعموم لکھی جا رہی ہے‘ اسے شائع کرنے سے غزل کے بارے میں مزید مایوسی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
اس بار پرچہ خاصا صحت مند ہے اور ساڑھے تین سو صفحات کو محیط۔ اس جریدے کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے جس کا ٹائٹل سلمان حسن نے بنایا ہے۔
آج کا مقطع
ماندا تختے بھی‘ ظفر ‘ بیچنے والا ہے جو شخص
ٹوٹی کشتی کو بچانے کے لیے آیا تھا