"ZIC" (space) message & send to 7575

گدھے اور ہم

آپ ہی کے اخبار کی اطلاع کے مطابق موضع بڈیانہ سے پولیس نے تین افراد کو گرفتار کرکے کاٹے گئے 20گدھے برآمد کرلیے ہیں۔ اسی طرح گجرات کے نواحی گائوں خونی سے سو گدھوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے ہیں جن کا گوشت لاہور اور اسلام آباد کے بڑے ہوٹلوں کو سپلائی کیاگیا تھا۔ جہاں تک گدھے کے گوشت کے حلال یا حرام ہونے کا تعلق ہے تو منقول ہے کہ ایک صاحب اپنے گھوڑے پر کہیں مہمان گئے۔ میزبانوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ شام کا وقت ہے اور گوشت دستیاب نہیں ہو سکتا جس کے بغیر مہمان کی تواضع کی ہی نہیں جاسکتی۔ جب انہوں نے تیسری بار اس بات کو دہرایا تو مہمان نے دیکھا کہ صحن میں ان کا ایک مرغا پھر رہا تھا جسے دیکھ کر مہمان بولا۔
''اگر مجھے گوشت کھلانا ایسا ہی ضروری ہے تو میرا گھوڑا ذبح کرلیں!‘‘
''وہ تو ٹھیک ہے‘‘۔ میزبانوں نے کہا :'' لیکن تم واپس کس طرح جائو گے؟‘‘
''میں تمہارے مرغے پر بیٹھ کر چلا جائوں گا! ‘‘مہمان نے جواب دیا۔
یہ لطیفہ اس لیے سنایا ہے کہ اگر گھوڑا ذبح کیا جاسکتا ہے اور اس کا گوشت کھایا جاسکتا ہے تو آخر بیچارے گدھے نے کیا قصور کیا ہے جو اس کے بارے میں خبریں لگائی جارہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی رسے سے باندھنے کی روایت اور محاورہ پہلے سے ہی موجود ہے۔
اب سوال صرف یہ ہے کہ گدھے کا گوشت کھانے والوں پر کیا اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھی منقول ہے کہ پچھلی رات ایک انگریز کی آنکھ کھلی تو اسے بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ فریج کی طرف گیا لیکن وہاں کچھ دستیاب نہ ہوا۔ آخر کچن کے ایک دراز سے اسے کچھ بسکٹ مل گئے جو اس نے خوب مزے لے لے کر کھائے۔ صبح اس نے اپنی بیوی سے ان بسکٹوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیکری سے ایسے بسکٹ اور لے آیا کرے، جس پر بیوی نے بتایا کہ وہ تو کتے کے بسکٹ تھے لیکن موصوف نے کہا کہ بہرحال مجھے پسند ہیں تم لے آیا کرو۔ چنانچہ جب اس نے ان بسکٹوں کی خریداری میں اضافہ کردیا تو ایک دن بیکر نے اس سے کہا:
'' معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک اور کتا رکھ لیا ہے‘‘ جس پر اس خاتون نے اسے ساری بات بتادی۔ تاہم بیکر نے اسے بتایا کہ یہ بسکٹ انسانوں کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں، لیکن خاتون نے بتایا کہ وہ نہیں مانتے۔ کوئی سال چھ ماہ کے بعد جب بسکٹوں کی خریداری معمول پر آگئی تو بیکر کے پوچھنے پر خاتون نے بتایا کہ میرے میاں تو فوت ہوگئے ہیں! '' میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ یہ بسکٹ ان کو نہ کھانے دیں!‘‘ بیکر بولا۔
'' وہ بسکٹ کھانے سے فوت نہیں ہوئے‘‘ خاتون بولی، '' وہ تو گاڑیوں کے پیچھے بھاگ کر مرے ہیں!‘‘ 
اس لیے اگر فی الحال یہ معلوم نہیں ہوسکا، جیسا کہ خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ گدھوں کا یہ گوشت کس کس کے پیٹ میں گیا ہے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ان لوگوں میں خود ہی گدھوں کی صفات پیدا ہونے لگیں گی۔ مثلاً اگر کوئی شخص ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا یا دوسروں کو دولتی جھاڑتا نظر آئے تو فوراً اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے گدھے کا گوشت کھایا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف علامات سے اس کا ثبوت مل سکتا ہے، مثلاً اگر کسی کے سر میں سینگ نکل آئیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہوگا ۔ اگرچہ گدھوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے لیکن اگر ہمارے ہاں یہ محاورہ رائج ہے کہ فلاں تو ایسے غائب ہوگیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، تو ظاہر ہے کہ کبھی گدھے کے سر پر سینگ ہوتے ہوں گے جو غائب بھی ہوجاتے ہوںگے۔
ایک یہ بھی نشانی ہوسکتی ہے کہ کوئی اچھا بھلا دانا و بینا آدمی یکلخت خردماغ ہوجائے۔ یا اگر کوئی کنویں میں گر جائے تو اس سے بھی یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے ،کیونکہ کھوتا ہی کھوہ میں ڈالے جانے کا محاورہ بھی ہمارے ہاں پہلے سے موجود اور مستعمل ہے جبکہ گدھا کنویں میں گر کر بھی گدھا ہی رہتا ہے جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے ؎
خِر عیسیٰ اگر بہ مکہّ رود
چوں بیآید ہنوز خر باشد
یا کوئی شخص چلتے چلتے ایک دم سڑک پر لیٹنا اور پلسیٹے مارنا شروع کردے تو اس کا نتیجہ نکالنے میں بھی آپ دیر نہیں لگا سکتے یا بیوی کے ہمراہ شاپنگ سے واپسی پر سارا بوجھ اگر کسی صاحب نے خود اٹھا رکھا ہو تو اس کا مطلب بھی صاف ظاہر ہے کہ بار برداری صحیح طور پر ایک گدھے ہی کا کام ہے۔
آدمی کا نِرا گدھا ہونا بھی کوئی مصدقہ بات نہیں ہے کیونکہ نہایت عقلمند اور سمجھدار گدھے بھی پائے گئے ہیں جیسا کہ نمک کا ایک بیوپاری گدھے پر اپنا مال لاد کر دوسری جگہوں پر لے جاتا تھا۔ راستے میں ایک ندی پڑتی تھی جس میں سے گزر کر جانا ہوتا تھا۔ چالاک گدھا نمک کا وزن کم کرنے کے لیے ندی میں بیٹھ جاتا اور کافی دیر تک بیٹھا رہتا۔ حتیٰ کہ پانی میں گھل گھل کر جب نمک کا وزن بہت کم رہ جاتا تو اُٹھ کر روانہ ہوجاتا۔ تاہم اس کا مالک بھی گدھا نہیں تھا۔ اس لیے اس نے اس کی چالاکی پکڑلی اور اگلے دن گدھے پر نمک کی بجائے روئی لاد کر چل پڑا۔ ندی آئی تو گدھا حسب معمول اس میں بیٹھ گیا اور جب اٹھا تو روئی کا وزن دوگنا ہوچکا تھا!
گدھے اور گدھی میں فرق یہ ہے کہ گدھا ہوتا ہے اور گدھی ہوتی ہے۔ گدھا گاڑی میں صرف گدھے کو جوتا جاتا ہے جبکہ گدھی صرف گدھی گیڑ کے کام آتی ہے۔ مزید منقول ہے کہ ایک میراثی نے گدھی پال رکھی تھی۔ وہ جب اس سے ناراض ہوتی تو کان کھڑے کر لیتی اور اسے ایک عدد لات جڑدیتی۔ میراثی نے سوچا کہ ضرور اس کے کان میں کوئی گڑ بڑ ہے جو یہ لات مارنے سے پہلے اظہار ناراضی کے لیے کان کھڑے کرلیتی ہے۔ چنانچہ اس نے ایک دن اس کے دونوں کان درانتی سے کاٹ دیے۔ اس کے بعد جب بھی وہ قریب سے گزرتا وہ اسے لات جڑدیتی، جس پر میراثی بولا کہ کم از کم کانوںسے یہ تو پتا چل جاتا تھا کہ یہ ناراض ہے یا راضی۔نیز اب چونکہ گدھا خوری بھی ہونے لگی ہے ، اس لیے اب بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کے ساتھ ساتھ یہ محاورہ بھی رائج ہونا چاہیے کہ گدھے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔گدھی بہرحال گدھے سے زیادہ وفادار ہے جس کے حوالے سے یہ مقولہ مشہور ہے کہ جتھے دی کھوتی، اوتھے آن کھلوتی۔
آج کا مطلع 
اگر منہ نہ موڑو ہماری طرف 
تو دیکھیں گے ہم کیا تمہاری طرف 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں