غزلوں کے مجموعے ''زندگی جینا سکھا دیتی ہے‘‘ کے مصنف جناب فیصل عباس لکھتے ہیں: استاد محترم جناب ظفر اقبال صاحب! السلام علیکم۔ سدا خوش رہیں‘ سلامت رہیں۔ آج کہ اس دور میں آپ جیسے لوگوں کا ہمارے درمیان ہونا نعمت خداوندی سے کم نہیں‘ کیونکہ آپ کی تنقید ہم جیسے لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو اپنے آپ کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے کسی نہ کسی بڑے شخص کی رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں۔ میں ایک عام سا شاعر ہوں اور ادب کا ادنیٰ سا طالب علم۔ مجھے یہ کہتے ہوئے نہایت شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ابھی تک بے استادہ ہوں۔ قسمت کی ستم ظریفی سے آج تک کسی ایسے شخص سے ملنا ہی نہیں ہوا جس سے شاعری کے رموز و اوقاف سیکھیں جا سکتے۔ غمِ روزگار میں اس قدر الجھا ہوا ہوں کہ بس اردو بھی برائے نام ہی جانتا ہوں۔ جتنا جاننے کی کوشش کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ نہیں جانتا۔ آپ کا بہت بڑا پرستار ہوں صرف آپ کی شاعری کی وجہ سے نہیں کیونکہ آپ اچھے شاعر کے ساتھ ایک اچھے نقاد بھی ہیں۔ موجودہ دور میں کسی آدمی میں اتنا حوصلہ نہیں دیکھا جو اس قدر نڈر ہو کہ کسی کی خوبیاں اور خامیاں دونوں بیان کرتا ہو اور سب سے اچھے بات یہ کہ آپ کی تنقید کسی کو راہ سے بھٹکانے کے
لیے نہیں راہ دکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ اتنا حوصلہ اس شخص میں ہوتا ہے جو سامنے والے کی گالیاں سن کر بھی مسکرانے کا ظرف رکھتا ہو۔ شاعری کرتے ہوئے بارہ سال بیت گئے ہیں مگر بقول آپ کے ؎
میں بھاگتا پھرتا ہوں بیہودہ تعاقب میں
یہ شعر کی تتلی ہے جو ہاتھ نہیں آتی
اپنی کتاب آپ کو بھجوا رہا ہوں۔ اگر پڑھنے پہ مجبور کرے تو ضرور پڑھیے گا۔ اور اگر پسند نہ آئے تو بے شک ردی کی نذر کردیجیے گا کیونکہ آپ خود کہتے ہیں کہ کتاب خود اپنے آپ کو پڑھواتی ہے۔ آپ کے بہت سے اشعار ضرب المثل ہیں مگر یہ دو اشعار جب بھی پڑھتا ہوں الگ ہی مزہ آتا ہے اور یہی کسی شعر کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے ؎
بادشاہ اپنا ہے دراصل کوئی اور ظفرؔ
اور یہ ساری رعایا بھی کسی اور کی ہے
کیا زبردست آدمی ہو ظفرؔ
عیب کو بھی ہُنر بنا دیا ہے
خدا آپ کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے اور آپ اسی طرح ہم جیسے لوگوں کی رہنمائی کرتے رہیں۔ آپ کی دعائوں کا طلبگار...
(سطر نمبر 4میں لفظ ''کہ‘‘، سطر نمبر 10میں ''استادہ‘‘، سطر نمبر 12میں ''سیکھیں‘‘ اور سطر نمبر 19 میں لفظ ''اچھے‘‘ کو ٹائپنگ یا پروف کی غلطی نہ سمجھا جائے)
ظاہر ہے کہ یہ خط اس لیے چھاپا جا رہا ہے کہ اس میں میری جی بھر کے تعریف کی گئی ہے اور یہ بات کسے معلوم نہیں کہ تعریف آدمی پر جادو کا اثر رکھتی ہے۔ پھر اس میں میرے تین شعر درج کر کے میری مشہوری میں بھی زبردست اضافہ کیا گیا ہے تاکہ یہ بات ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکے کہ یہ شعر میرے ہی ہیں۔ پھر‘ موصوف نے اپنے آپ کو بے استادہ کہہ کر‘ جس سے ا ن کی مراد بے استادا ہے‘ ساتھ ہی القاب میں مجھے اپنا استاد بھی قرار دے دیا ہے اور کئی دوسروں کا بھی۔ حق تو یہ ہے کہ جتنی اردو وہ جانتے ہیں‘ کسرِ نفسی کے باوجود ایسی شاعری کے لیے اتنی ہی اردو کافی ہوتی ہے اور جس کا اظہار ان کی عبارت سے بھی ہوتا ہے!
اب اتنی تعریف آپ مفت میں ہضم کر کے بیٹھ جائیں تو یہ پرلے درجے کی ناانصافی ہوگی۔ شاعری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے میں خاصی بے رحمی سے کام لیتا ہوں لیکن اتنی تعریف و توصیف کے بعد بے رحمی وغیرہ کا کیا سوال باقی رہ جاتا ہے۔ یہ کتاب میں جتنی بھی پڑھ سکا ہوں‘ میرا پہلا تاثر یہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی خوبی تخیل کی بلندی ہے یعنی یہ شاعری کسی بہت اونچی جگہ سے کی گئی ہے۔ سو‘ میرا اندازہ یہ ہے کہ شاعری کے ''ناسا‘‘ لیبارٹری والوں کے ساتھ خاصے گہرے تعلقات ہیں اور اس طرح سے یہ شاعری کسی خلائی شٹل میں بیٹھ کر تخلیق کی گئی ہے کیونکہ جس بے ذوقی کی کیفیت سے آپ خلا میں جا کر دوچار ہوتے ہیں‘ یہاں بھی یہی صورت حال ہے یعنی اس میں وزن وغیرہ کا تعلق روا رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اور‘ اگر کوئی خال خال شعر وزن میں آ بھی گیا ہے تو آخر موصوف بھی بندہ بشر ہی ہیں‘ غلطی سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
اگر ڈاکٹر ابرار احمد اجازت دیں تو غزلوں کے اس مجموعے کو نثری غزلوں سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر نثری نظم ہو سکتی ہے تو نثری غزل کیوں نہیں۔ پھر نثری نظم کو جیسے پیراگراف کی صورت میں نہیں بلکہ مصرعوں کو توڑ توڑ کر لکھا جا سکتا ہے تو ایسی نثری غزلوں کو غزل کے اشعار کی طرح کیوں نہیں لکھا جا سکتا۔ میری نظر میں تو یہ ایک اجتہاد سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ کتاب کے لیے سرمایہ کاری چونکہ عام طور سے شاعر خود کرتا ہے اس لیے ناشر کا یہ دردِ سر نہیں ہونا چاہیے کہ غزلوں کی کوئی کتاب وزن میں بھی ہے یا نہیں۔ پھر اس کتاب کے عنوان سے بھی یہ نثری کتاب ہی لگتی ہے۔ اسے ہمارے دوست رانا عبدالرحمن نے بُک ہوم سے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 380 روپے رکھی ہے اور خریدار کے لیے تلافیٔ مافات کی یہی ایک صورت ہے کہ اسے 380 روپے ہاتھ سے دیے جائیں۔
آج کا مقطع
جاگ کر بھاگ پڑے تھے یونہی بے سمت ظفرؔ
اب کھڑے سوچیے آوازہ کدھر سے آیا