"ZIC" (space) message & send to 7575

’’شجر ہونے تک‘‘ باصر سلطان کاظمی کا کلیات

''شجر ہونے تک‘‘ باصر سلطان کاظمی کا کلیات ہے جو وہ چند روز پہلے برطانیہ سے آئے اور مجھے مرحمت کر گئے تھے۔ اسے صحیح معنوں میں کلیات کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں شاعر کی نظمیں‘ غزلیں‘ ڈرامے اور کہانی‘ سب کچھ شامل ہے۔ اس سے پہلے ان کے مختلف شعری مجموعے اور ڈرامے وغیرہ شائع اور سٹیج ہو چکے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کریڈٹ‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ یہ ہے کہ آپ بے مثال غزل گو ناصر کاظمی کے صاحبزادے ہیں۔ اور غالباً یہی ان کا ڈِس کریڈٹ بھی ہے کیونکہ ناصر کاظمی کا بیٹا اگر شعر کہتا ہے تو اس سے قائم ہونے والی توقعات اسی تناظر میں پیدا ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ 
ناصر کاظمی اپنے دور میں غزل کا بے تاج بادشاہ تھا‘ حتیٰ کہ اس کے ہمعصر‘ فیضؔ اور منیرؔ نیازی عمدہ غزل گو ہونے کے باوجود نظم کی طرف نکل گئے اور غزل کی اجارہ داری کلیتاً ناصرؔ کے پاس رہی۔ ہمارا تو خیر وہ اوائلِ شعر ہی کا زمانہ تھا اور ناصر کے ساتھ ایک شرارتی سی چپقلش بھی چلتی رہی‘ جو زیادہ تر میرؔ کے حوالے سے تھی۔ چنانچہ اس زمانے کا ایک شعر ہے ؎ 
سبھی تسلیم ہے اے معتقدِ میرؔ مجھے 
اپنے بھی شعر کی دکھلا کبھی تاثیر مجھے 
اور‘ یہ بھی کہ ؎ 
اپنی ہی کرامات دکھاتے رہے سب کو 
سرقہ نہ کیا معجزۂ میرؔ سے ہم نے 
بلکہ ایک ستم ظریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ؎ 
شعر ہوتے ہیں میرؔ کے ناصرؔ 
لفظ ہی دائیں بائیں کرتا ہوں 
انہی دنوں ''آبِ رواں‘‘ بھی شائع ہوئی اور وہ بڑا پُرشعور زمانہ تھا۔ لیکن اس اینٹ کھڑکے کے باوجود ہم ایک دوسرے کے معترف بھی تھے۔ کم از کم میں تو ضرور تھا‘ ناصر کاظمی کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ سچ پوچھیے تو وہ دور ہی صحیح معنوں میں ناصرؔ کاظمی کا تھا؛ چنانچہ اب اگر اس کا بیٹا بھی شاعر نکلتا ہے تو اس کا پہلا مطلب تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ نہ صرف ناصر سے بہتر ہو‘ بلکہ اس نے ناصر کاظمی کے شعری لحن کو آگے بھی بڑھایا ہو۔ ناصر غزل ہمیشہ‘ یا زیادہ تر چھوٹی بحر میں کہتا اور اس چھوٹی بحر میں ''بڑا‘‘ لطفِ سخن بھر دینے پر قادر تھا۔ سو‘ باصرؔ کو بھی اصولی طور پر اس سے کم تو نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ برگد کے درخت کے نیچے برگد نہیں اُگتا‘ بلکہ اس کے نیچے تو گھاس بھی پیدا نہیں ہوتی۔ 
ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ میرے بیٹے آفتاب اقبال نے بھی زمانۂ طالب علمی میں شاعری پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی اور ''سراب‘‘ کے نام سے ایک پوری بیاض بھی ترتیب دے ڈالی تھی‘ اور یہ سب کچھ میری لاعلمی میں ہوتا رہا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے صورت حال کا صحیح اندازہ لگاتے ہوئے اس کام کو خیرباد کہا اور تعلیمی کیریئر ختم کرنے کے بعد کسی اور طرف نکل گی‘ ورنہ شاید خود بھی شرمندہ ہوتا اور مجھے بھی کرتا۔ 
حال ہی میں انتظار حسین نے تبصرہ کرتے ہوئے اس 
شاعری کی تعریف کی ہے۔ یہ کام ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ ناصر انتظار کا ہمدم و ہم جلیس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طرح سے انتظار حسین کا موضوع اور ممدوح بھی رہا ہے اور اس طرح گویا موصوف نے حقِ دوست ادا کیا‘ اگرچہ تنقید میں دوستیاں‘ اور دشمنیاں نہیں ہوتیں‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ نقاد حضرات کئی اور کام بھی ایسے کرتے ہیں جو اصولاً انہیں نہیں کرنا چاہئیں۔ کیونکہ اگر کوئی میری شاعری کو مانتا ہے تو یہی ستم ظریفی کیا کم ہے جو وہ میری نام نہاد تنقید کو بھی ماننے بیٹھ جائے۔ 
ڈرامہ اور کہانی وغیرہ سے اپنی عدم دلچسپی میں کبھی نہیں چھپاتا ہوں اور شاعری‘ بالخصوص غزل کے بارے منہ مارنے سے باز بھی نہیں آتا ہوں۔ اور جہاں تک باصر سلطان کاظمی کی غزل کا تعلق ہے‘ اس کا کلام زیادہ تر غزلوں ہی پر مشتمل ہے‘ تو ایسا لگتا ہے کہ باصرؔ کو ناصرؔ کاظمی کی ہوا تک نہیں لگی۔ البتہ اس نے ایک دانشمندی ضرور دکھائی کہ غزل میں ناصر کے رنگ سے اجتناب کیا ورنہ یہ صرف جگ ہنسائی کا موجب بنتا۔ یہ چھوٹی بحروں تک بھی محدود نہیں رہے اور نسبتاً لمبی بحروں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ مختارالدین احمد نے کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے باصرؔ کے جو منتخب اشعار نقل کیے ہیں‘ اُن میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جسے عمدہ شعر قرار دیا جا سکے۔ میں اپنی باتیں اکثر دہرایا کرتا ہوں‘ شاید اس لیے کہ میرے پاس کہنے کو نئی باتیں زیادہ تر ہوتی بھی نہیں۔ اور‘ وہ یہ کہ شاعری کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا۔ صرف فرسٹ کلاس ہوتی ہے اور تھرڈ کلاس۔ اور جو شعر درمیانے درجے کا ہو‘ وہ بھی تیسرے ہی درجے میں شمار ہوگا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ناصرؔ کاظمی کے صاحبزادے نے اپنے باپ کے نام کو بٹہ لگایا ہے‘ البتہ ناصر کے مداحین کو شرمندہ اور مایوس ضرور کیا ہے کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ پھر‘ یہ کہ شعر و ادب میں رعایتی نمبر نہیں ہوتے بلکہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ شاعری دیکھ کر ناصرؔ کاظمی کی شاعری زیادہ اچھی لگنے لگی ہے۔ موصوف کے بڑے بھائی حسن ناصر کاظمی بھی شاعر ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ جیسے دو نیم حکیم ایک پورا حکیم نہیں بناتے‘ اسی طرح دو کمزور شاعربھی پورا یا مضبوط شاعر نہیں بناتے۔بہرحال یہ کتاب سنگِ میل پبلی کیشنز نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 1200 روپے رکھی ہے۔ 
آج کا مقطع 
چراغِ چہرہ کو بجھنے نہیں دیا کہ ظفرؔ 
ہم اپنے گرد ہوا کا حصار رکھتے ہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں