"ZIC" (space) message & send to 7575

ماہنامہ ’’ماہِ نو‘‘ کا نیا رُوپ

یہ بات ایک خبر سے کم نہیں کہ ماہنامہ ''ماہِ نو‘‘ نہ صرف یہ کہ تقریباً باقاعدہ ہو چکا ہے بلکہ اس کا معیار بھی نہایت تیزی کے ساتھ بہتر ہو رہا ہے اور یہ ملک کے کسی بھی ادبی جریدے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ نہ صرف ملک کے معتبر اور نامور ادیبوں کی تحریریں بطور خاص حاصل کی جاتی ہیں‘ بلکہ پرچہ اگر معیاری ہو تو ممتاز لکھنے والے اس کی طرف خود ہی متوجہ ہو جاتے ہیں اور ا دارے کو مواد اکٹھا کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی۔ اسے بھی بسا غنیمت سمجھیے کہ مئی کا شمارہ جون کے پہلے ہفتے میں موصول ہو گیا ہے۔ مزہ تو جب آئے کہ پرچہ ہر ماہ پہلے ہفتے ہی میں نظر نواز ہو جائے۔ اعلیٰ اور عمدہ ادیبوں کو اس طرف رجوع کرنا بھی چاہیے کیونکہ سرکاری پرچہ ہونے کی وجہ سے ایک تو یہ قابلِ ذکر سرکاری عمائدین تک بھی پہنچتا ہے اور دوسرے‘ تحریروں کا معاوضہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ 
زیر نظر شمارے کے ٹائٹل کو ایک نہایت عمدہ طغرے سے مزین کیا گیا ہے جبکہ ٹائٹل کے اندرونی صفحے پر بھی ایک دیدہ زیب پینٹنگ موجود ہے اور ملک کے بیشتر اعلیٰ دماغ لکھنے والوں نے اس میں شرکت کی ہے۔ حصۂ نثر بطور خاص زیادہ وقیع ہے جبکہ ڈاکٹر سعادت سعید نے مولانا محمد حسین آزاد کی شہرۂ آفاق تصنیف ''دربارِ اکبری‘‘ کا مبسوط اور عالمانہ تجزیہ پیش کیا ہے تو پروفیسر محمد افتخار شفیع نے درویش شاعر مجید امجد کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ساحر لدھیانوی کے نام سے طاہر رشید نے 
احمد راہی کے مضمون کا ترجمہ پیش کیا ہے جبکہ ''جدید اور مابعد جدید تنقید‘‘ کے موضوع پر سکندر حیات مسکین نے اپنے مبسوط اور فاضلانہ مضمون میں بالخصوص ممتاز اور نوجوان نقاد ناصر عباس نیر کی اس سلسلے میں تحریروں اور خدمات کو خراج تحسین ادا کیا ہے۔ اگرچہ یہ بحث اب پرانی ہو چکی ہے اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جیسے جید ادیب اور نقاد اس پر اپنی کتابوں میں کھل کر بحث کر چکے ہیں‘ لیکن یہ موضوع آج بھی تازہ لگتا ہے جس میں مزید تازہ کاریوں کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ 
''حاصلِ مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ایک الگ موضوع باندھا گیا ہے جس میں پروفیسر غلام حسین ساجدؔ جو پنجابی اور اردو کے ایک عمدہ شاعر بھی ہیں اور تنقید میں کنٹری بیوشن کے حوالے سے بھی ایک مقام رکھتے ہیں‘ نے ممتاز افسانہ نگار امجد طفیل کے ''مچھلیاں شکار کرتی ہیں‘‘ نامی افسانوی مجموعے کا جائزہ لیا ہے جبکہ اردو اور پنجابی کے منفرد کہانی کار اور شاعر زاہد حسن نے شاعر عمیر واصف کی نظموں کے مجموعے ''دھانی حرف کی زرد کہانی‘‘ کا جائزہ لیا ہے جس میں شاعر اپنا علیحدہ چہرہ بناتے نظر آتے ہیں۔ 
''یادداشتیں‘‘ کے عنوان سے ہماری ہونہار افسانہ نگار نیلم احمد بشیر نے اپنی یاد نگاری سے لطف اندوز کیا ہے جو کہ لاہور ہی میں منعقد ہونے والی ایک ادبی کانفرنس کا ایک خاص سیشن تھا جس میں نامور ادیبوں کو اپنی اپنی یادداشتیں عنایت کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور یہ مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے آپ ایک صاحبِ طرز ادیب احمد بشیر مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔ نثری حصے کا سب سے قیمتی مضمون جسے ایک سوغات کا درجہ دینا چاہیے‘ نامور مصور عبدالرحمن چغتائی کی خودنوشت ہے جس پر ''خود شبیہ‘‘ کا عنوان باندھا گیا ہے (جسے ہماری جدید زبان میں سیلفی کہتے ہیں) جس میں انہوں نے اپنے فنی سفر کا نہایت خوبصورت انداز میں احاطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ تبصروں کا حصہ ہے جس میں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے شعری مجموعے کا مختصر جائزہ ہمارے دوست امجد اسلام امجد نے لیا ہے جبکہ شبہ طراز کی تصنیف ''آدھا خواب‘‘ پر احمد عقیل روبی نے‘ جو اب مرحوم ہو چکے ہیں‘ تنقیدی جائزہ لیا ہے اور جمیل احمد رانا اور محمد عارف قریشی کی مشترکہ تصنیف ''مشاہرِ میانوالی‘ بھکر‘‘ پر‘ پروفیسر فلک شیر لیل نے عمدہ تعارفی نوٹ لکھا ہے جو کہ ایک نہایت مفید اور معلومات افزا سلسلہ ہے جسے جاری رکھا جانا چاہیے بشرطیکہ اس طرح کا اور مواد بھی موجود ہو۔ 
افسانوں کے شعبے میں امجد طفیل کا ''یوں بھی ہوتا ہے‘‘ رابعہ الرباء کا ''کیمو فلاج‘‘ اور رشید علی شاہ کا ''گڑیا‘‘ کے نام سے افسانہ شامل ہے۔ حصہ غزل میں سعود عثمانی سے لے کر حمیدہ شاہین تک معروف شعراء کا کلام شامل کیا گیا ہے لیکن بوجوہ نمایاں نہیں ہو سکا۔ البتہ حصہ نظم خاصا طاقتور ہے جس میں ابرار احمد‘ زاہد مسعود اور رفیع رضا و دیگران شامل ہیں۔ شروع میں سرور انبالوی کی حمد اور قائم نقوی کی نعت شامل ہے۔ نظم لازمی طور پر غزل سے بہت آگے نکلتی دکھائی دیتی ہے‘ خصوصاً نثری نظم‘ جن میں ابرار احمد اور زاہد مسعود کی نظمیں بطور خاص قابلِ ذکر بھی ہیں اور قابلِ مطالعہ بھی۔ ابرار احمد کی نظم دیکھیے: 
ہوٹل میں 
ملگجی جگمگاہٹ... اور لفٹ کی دھیمی روشنی میں... نامانوس مہک کی لپٹیں... گہری نیلی آنکھیں... التفات کے رس میں لرزتے ہونٹ... قدیم آشنائی کی دھمک میں... ساتھ ساتھ 
چلتے ہوئے قدم... نیم وا دروازہ... اور چاندنی کی لہروں کی طرح... شب بخیر کہتے... ہلتے ہوئے ہاتھ... رات کی کروٹوں میں انتظار کی شکنیں... دراڑیں ڈالتی ہوئی دیوار کی آواز... اور صبح کے ماتھے پر... داغ کی طرح چسپاں... چیک آئوٹ کا کارڈ... میں جا رہا ہوں اس ستارے کے تعاقب میں... اجنبی آسمانوں میں... اور اینٹوں جیسی رنگت والے راستوں پر... ٹوٹی ہوئی نیند کا خمار لیے... عمر سے‘ ہمیشہ کے لیے... جدا ہو جانے والے لمحے کو ڈھونڈنے... تیز موسیقی میں... بار روم کے فلور پر... ماتم جیسے رقص میں شامل ہو کر... خواب کی چوکھٹ پر... توڑ دیئے جانے کی چیز ہے... یہ زندگی! 
یہ پرچہ ادارہ مطبوعات پاکستان سے چھپ کر 46 ایبک بلاک نیو گارڈن لاہور سے شائع کیا گیا ہے‘ قیمت 50روپے۔ یہ وزارت اطلاعات نشریات و قومی ورثہ کا جریدہ ہے جس کے نگران اعلیٰ شفقت جلیل اور مجلس ادارت میں شبیہہ عباس، صائمہ بٹ، صفدر بلوڈ اور قرۃ العین فاطمہ شامل ہیں جبکہ اس کی تزائین منیر شاہ اور سید ارتضیٰ نقوی نے کی ہے۔
آج کا مقطع 
ظفرؔ‘ کرنا پڑے گا اُس کو پہلی بار ہی قائل 
نہ ہو پایا تو پھر بارِدگر کچھ بھی نہیں ہو گا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں