خواتین کا واحد قافیہ تو سوا تین ہی ہے لیکن یہ دو خواتین ہیں جنہوں نے تین کتابیں لکھی ہیں‘ اور ا س کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دونوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ کتاب لکھی ہے بلکہ پروین سجل کی ایک کتاب ہے اور پروفیسر خالدہ ظہور کی دو۔ پروین کی کتاب ایک طویل مکاشفاتی نظم پر مشتمل ہے جس کے توصیف نگاروں میں خالد اقبال یاسر‘ قاضی جاوید‘ بشریٰ رحمن اور ضیاء حسین ضیاء ہیں۔ شاعرہ کی دو کتابیں جو بھی شعری مجموعے ہیں‘ ''ممکن‘‘ اور ''مقال‘‘ کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکے ہیں اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کی پہلی کتاب ''ممکن‘‘ کا فلیپ میں نے لکھا تھا۔ موجودہ کتاب کا نام ''حطیم‘‘ ہے۔ کتاب کے پسِ سرورق ان معززین کی آراء اس طرح درج ہیں:
٭ مختلف بحروں کے انتخاب کی وجہ سے فنی سطح پر پروین سجل نے اپنے آپ کو جہاں مشقیہ سہولت دی ہے‘ وہاں اپنے قاری کو بھی سہولت دی ہے... بحر بدلتے ہی کیفیت کسی اور رنگ میں جلوہ فگن ہوتی ہے اور معنی نئے‘ جداگانہ زمانوں کے پرت کھولنے لگتے ہیں...
ایک اور توجہ طلب اور لائق تحسین امر یہ ہے کہ پروین کی صوفیانہ ڈکشن اور مصارفِ لفظیہ بے پناہ خوبصورت اور ہزار معنی تراش ہیں۔ ترکیبیں ایسی کہ معنی میں معنی رقص کرتے ہیں۔ اضافتیں ایسی کہ حقِ ہمسائیگی کی رعایت بحال ہو جاتی ہے۔ صنائع بدائع کا بے نظیر استعمال اور سب سے بڑی بات قرآنی تلمیحات سے پورے طور پر آشنا ہونا۔ یہ خود ان کے عالمانہ منصب کی طرف اشارہ ہے۔
ضیاء حسین ضیاء
٭ یہ ایک طویل نظم ہے جس میں پروین سجل کے وجود کی بے چینی اور وفور کی وجدانی اس نظم کے بند بند سے ظاہر ہو رہی ہے۔ کوئی تو گونج اس کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے کہ ہوش اور گوش بھی گویائی بن کر اظہار کی لذت سے آشنائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
بشریٰ رحمن
٭ ''حطیم‘‘ کو کم از کم دوبار پڑھنا پڑتا ہے۔ پہلی بار اس کے مرکزہ میں داخلے کی راہیں تلاش کرنے کی کوشش میں اور دوسری بار یہ جاننے کے لیے کہ یہ طویل نظم تجزیاتی مطالعے کے لیے نہیں ہے...
تاہم یہ ایک نئی واردات کا اظہار ہے جو شاعرہ کے تخیل کے گرفت میں آ گئی‘ یہ غیر معمولی کامیابی ہے۔
قاضی جاوید
٭ عہدِ جدید کی اس قلندر شاعرہ پر اس نظم کا اسلوب بھی جیسے غیب سے القا ہوا ہے۔ پروین سجل کے ذخیرۂ الفاظ اور اندازِ اظہار سے اس کی پوشیدہ صلاحیتیں آشکار ہوتی ہیں۔ اس انوکھی نظم کی بے چینی‘ سرمستی‘ اجتماعی فلاح کے ارمانوں کی امین ہے۔ ہمیں عہدِ نو کی اس قلندرانہ شاعری کو سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
خالد اقبال یاسرؔ
نمونۂ کلام کے طور پر اس بے مثال نظم سے ایک مختصر اقتباس:
جہاد میری ضرورت‘ مگر ہے قحط ایسا
کہ مفلسی مرے تقوے کی چھت پہ آ بیٹھی
وجود کتنی بلائوں میں ہے گھرا کیسے
بچانا کفر سے مشکل ہے دامنِ خواہش
خیالِ سبز لگا کائنات کو چھُونے
تو خواب کتنے ہی آنکھوں نے سینچ ڈالے ہیں
وجود میرا مجازی‘ نہ بام ہونے لگا
اسیر کر کے طلسمی گماں کی حرّافہ
کسی کی دھڑکنیں تکیہ بنا کے سونے لگیں
کہ باغِ شوق میں آنکھیں نہال ہونے لگیں
کسی کے ہاتھ پہ بیعت کی جب سطر کھینچی
گلاب سانس میں کتنے کشید ہونے لگے
نزولِ کیف میں کیا کیا خیال بننے لگے
کتاب سجل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی اور قیمت 280 روپے رکھی ہے۔
''حسابِ دوستاں‘‘ اور ''پیوستہ رہ شجر سے‘‘ پروفیسر خالدہ ظہور کی تصنیفات ہیں جو مونالزہ پبلی کیشنز لاہور‘ لندن‘ نیویارک نے چھاپی ہیں اور قیمت دس دس امریکی ڈالر رکھی ہے۔ موصوف کے بارے میں مامون رشید پسِ سرورق لکھتے ہیں کہ نیویارک شہر میں ''حسابِ دوستاں‘‘ کی آمد بارش کی پہلی بوند کا درجہ رکھتی ہے۔ پروفیسر خالدہ ظہور نے تنقید میں صنفِ نازک کی نمائندگی کرتے ہوئے اولیت کا درجہ پایا ہے۔ بے شک اردو زبان کے اساسی مراکز سے ہزاروں میل دور اس نوعیت کی کتاب تحسین و داد کی مستحق ہے۔ یہ ایک بڑا اعزاز ہے جو نیویارک شہر کو حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح رفیع الدین راز‘ پروفیسر یونس شرر‘ پروفیسر ن م دانش اور کامران ندیم نے اس کتاب پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اندرونی فلیپس پر مصنف کا مختصر تعارف درج ہے۔
دونوں کتابوں میں تنقید کے موضوع پر مضامین ہیں۔ اس کے علاوہ جن ادبی شخصیات کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی گئی ہے ان میں جلال الدین رومی‘ اشفاق احمد‘ مجید امجد‘ کرنل محمد خاں‘ ساحر لدھیانوی‘ امرتا پریتم‘ قرۃ العین حیدر‘ شبیر حسن خاں جوش‘ سجاد ظہیر‘ مستنصر حسین تارڑ‘ حبیب جالب‘ قمر علی عباسی‘ فیض احمد فیض‘ دلی دکنی‘ مرزا محمد رفیع سودا‘ میر تقی میرؔ‘ خواجہ میر درد‘ مرزا اسد اللہ غالب‘ خواجہ حیدر علی آتش‘ ڈاکٹر صبیحہ صبا‘ ممتاز حسین‘ واصف حسین واصف‘ عتیق صدیقی‘ مامون ایمن‘ کامران ندیم اور کچھ دیگر کم معروف ادیبوں کا تذکرہ ہے۔ مصنفہ کا بیان دلکش اور سہولت آمیز ہے اور قاری کہیں بھی اُکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ کتابیں ادب کے طالب علموں کے لیے خصوصی افادیت کی حامل ہیں اور امید ہے کہ ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ان کا استقبال کھلے بازوئوں سے کیا جائے گا۔
آج کا مقطع
پھر پچھلی رات آئینہ اشک میں ظفرؔ
لرزاں رہی وہ سانولی صورت سویر تک