علی اکبر ناطق کا تعلق بھی اوکاڑہ سے ہے، اگلے روز وہ اپنا ناول 'نولکھی کوٹھی‘‘ لے کر آیا اور مجھے پیش کرنا چاہا لیکن میں نے اُسے کہا کہ میں تو ناول پڑھتا ہی نہیں، پڑھ سکتا ہی نہیں، اسے کیوں ضائع کرتے ہو، کسی ایسے شخص کو دے دینا یہ جس کے کام کی چیز بھی ہو۔ لیکن وہ بولا کہ کیا آپ اس کے دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکیں گے۔ میں نے کہا: وہ تو تمہاری خاطر میں پڑھ ہی جاؤں گا۔ اس کے جانے کے بعد ناول شروع کیا اور اس نے مجھے ایسا جکڑا کہ ایک ہی نشست میں تقریباً ساڑھے چار سو صفحے کی یہ کتاب پڑھ گیا، بیچ میں کھانا وغیرہ کھایا ہو تو میں اس کی قسم نہیں دیتا۔
انتظار حسین کے ناول ''آگے سمندر ہے‘‘ کے بعد یہ تیسرا ناول تھا جسے میں پڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے کوئی ڈیڑھ سال ہوئے، ڈاکٹر یونس جاوید نے اپنا ناول ''کنجری کا پُل‘‘ بھجوایا تھا۔ موصوف کے ساتھ ایک محبت کا تعلق عرصۂ دراز سے چلا آ رہا تھا۔ ''دُنیا‘‘ اخبار انہوں نے میرے کالم کی خاطر ہی لگوا رکھا تھا۔ کوئی کالم زیادہ پسند آتا تو فون بھی کرتے۔ یہ ناول مختصر تھا اور میں اسے پڑھ تو گیا لیکن اس کے بارے میں میرے تحفظات اس قدر تھے کہ اس پر کالم آرائی نہ کر سکا اور جس کا انہوں نے بُرا بھی نہیں منایا۔
ناطق کے ناول نے مجھ حیران تو نہیں کیا کیونکہ وہ اپنی شاعری اور افسانہ نگاری کی دھاک پہلے ہی بٹھا چکا تھا، البتہ پریشان ضرور کیا کہ ع
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
پچھلے ہی دنوں شاعر عابد سیال کے مرتب کردہ ایک مختصر جریدے ''اردو کالم‘‘ کا ذکر کر چکا ہوں جس میں محبی ڈاکٹر ضیا الحسن کا مضمون، جس کا عنوان کچھ اس طرح کا تھا کہ ''اُردو میں ناول کیوں نہیں؟‘‘ تو یہ ناول پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ انہیں کہوں کہ اُردو میں ناول اب بھی لکھا جا رہا ہے اور یہ ناول ذرا پڑھ کر دیکھیں۔ اشفاق احمد کے افسانے ''گڈریا‘‘ کی طرح اس ناول کا اختتام اتنا زبردست ہے کہ رُلا دیتا ہے۔ ناول نگار محمد حنیف کا تعلق بھی اوکاڑہ سے ہے، جس کے انگریزی ناول ''دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘‘ نے ادبی دنیا میں ایک تہلکا مچا دیا تھا۔ اوکاڑہ کو شہرِ ظفر اقبال کہا جاتا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اب اسے شہرِ ظفر، ناطق، حنیف کہنا چاہئے!
اس کی کہانی ولیم نامی ایک انگریز نوجوان سے شروع ہوتی ہے جو اپنی تعلیم مکمل کر کے انگلستان سے واپس ہندوستان آ رہا تھا اور جو بحری جہاز میں سفر کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بمبئی کے ساحل پر اُترتا ہے۔ اس کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کرنے پر اسے بطور اسسٹنٹ کمشنر فیروزپور کی تحصیل جلال آباد بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی دوران انہوں نے اپنی دوست کیتھی سے شادی کر لی۔ اس کے ساتھ ساتھ مولوی کرامت کی کہانی بھی چلتی رہتی ہے جو اسی علاقے کے ایک گاؤں کا پیش امام ہے اور جو اپنے ایک ذاتی معاملے میں اسسٹنٹ کمشنر سے ملتا ہے، جس سے متاثر ہو کر وہ مولوی کرامت کو وہیں ایک جگہ پر بطور ٹیچر تعینات کروا دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس کے بیٹے کی کہانی بھی شروع ہو جاتی ہے۔
کہانی کے اصل دو کردار سودھا سنگھ اور غلام حیدر ہیں جو اُسی علاقے کے زمیندار ہیں اور آپس میں گہری دُشمنی پالتے چلے آ رہے ہیں جبکہ غلام حیدر کو یہ دشمنی اپنے والد کی وراثت میں ملتی ہے۔ کہانی اس وقت زور پکڑتی ہے جب سودھا سنگھ اپنے آدمیوں کو بھجوا کر غلام حیدر کے گاؤں پر حملہ کرواتا، اس کا ایک بندہ قتل کرواتا اور حملہ آور اس کی مونگی کی فصل کچھ اُجاڑتے ہیں اور کچھ ساتھ لے جاتے ہیں۔ غلام حیدر سودھا سنگھ کے خلاف قتل کا پرچہ درج کروا دیتا ہے اور اس طرح مسٹر ولیم کا کردار اس حوالے سے زور پکڑتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد افضل حیدر اپنے آدمیوں کے ہمراہ حملہ کر کے سودھا سنگھ اور اس کے کئی اہم ساتھیوں کو قتل کر دیتا ہے اور اس کے خلاف بھی پرچہ درج ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد 1946ء کے انتخابات کی کہانی ہے۔ بعدازاں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان قتل و غارت اور بربریت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے بعد غلام حیدر گاؤں کی مسلم آبادی کو لے کر بارڈر پار کروانے کی غرض سے ہیڈ سلیمانکی جا پہنچتا ہے اور وہاں ایک گورکھے کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ کہانی میں اوکاڑہ، گوگیرہ اور منٹگمری (ساہیوال) کا ذکر بار بار آتا ہے، جہاں کچھ عرصے کے لئے ولیم بھی تعینات رہتا ہے اور نولکھی کوٹھی کا بھی، جس میں اس وقت انگریز افسر رہائش پذیر تھے اور جو گوگیرہ میں واقع تھی، جو کبھی ضلع کا صدر مقام ہوا کرتا تھا۔
ناول کے آخری حصے میں ہم 1989ء میں آ پہنچتے ہیں جب کچھ لوگ پیپل کے ایک درخت کو کاٹ رہے ہوتے ہیں اور ایک بُوڑھا انگریز درخت کے تنے سے لپٹا اُسے نہ کاٹنے کی درخواست کر رہا ہوتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی بوڑھا انگریز ہے جو نولکھی کوٹھی میں سکونت اختیار کئے ہوئے اور نہایت کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے آخری دن گزار رہا ہوتا ہے جبکہ وہ کوٹھی ایک بارسوخ شخص کو الاٹ کر دی جاتی ہے اور بوڑھا انگریز وہاں سے بیدخل کر دیا جاتا ہے، جو اس کے بعد اُسی علاقے میں ایک اُجاڑ نہری بنگلے میں آ پناہ لیتا ہے۔ کبھی کبھار لوگ اسے دیکھنے بھی آ جاتے ہیں۔ پوچھنے پر وہ اپنا نام ولیم بتاتا ہے۔ اس سے جب پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے بیوی بچے کہاں ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ کیتھی (اہلیہ) بچوں کو لے کر واپس لندن چلی گئی ہے۔ جب پوچھا گیا کہ وہ کیوں واپس نہیں گیا اور وہاں اپنا بڑھاپا کیوں خراب کر رہا ہے، تو وہ بتاتا ہے کہ میں یہیں پیدا ہوا اور پلا بڑھا، میرا وہاں سے کیا تعلق ہے اور میں وہاں کیسے چلا جاؤں! کچھ دن بعد وہ مر گیا اور چک پانچ فور ایل کے مسیحی اسے لے گئے اور گرجے میں دفن کردیا۔
یہ ناول ''سانجھ‘‘ پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے، اس کی قیمت 700 وپے رکھی گئی ہے اور دو برسوں میں اس کتاب کے دو ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
آج کا مطلع
الگ الگ اور جُدا جُدا سے بندھے ہوئے ہیں
چراغ ہیں اور کسی ہوا سے بندھے ہوئے ہیں