لاہور سے عبدالقدیر خان لکھتے ہیں:
محترم ظفر اقبال صاحب‘ تسلیمات۔ ''دنیا‘‘ اخبار میں آج آپ کا کالم ''دال دلیا‘‘ پڑھا جس میں آپ نے شاعرہ صوفیہ بیدار کے مجموعۂ کلام ''تاراج‘‘ پر نہایت بے باکانہ انداز میں تبصرہ فرمایا۔ ہم آپ سے واقف ہیں۔ اور آپ کے اس اندازِ تحریر کے بھی معترف ہیں کہ آپ نے ہمیشہ سچ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور کسی قسم کی لگی لپٹی کے بغیر اپنے تک آتے شاعر اور خاص طور پر شاعرات کے مراسم کا بھی کچھ لحاظ نہیں کیا۔
میڈیا تو ایک اندھا گھوڑا ہے جس کی لگامیں کالم نگاروں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ وہ چاہیں تو کسی بھی انجان کو ہفت اقلیم کا شہنشاہ بنا ڈالیں اور جسے چاہیں آسمانِ شہرت سے نیچے کھینچ لائیں۔ یہی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔ شاعری سے لے کر سیاست تک اور کاروبار سے لے کر ادب کی دنیا تک ہر آدمی ایسے لوگوں کی بیساکھیوں کے سہارے زندہ ہے۔
ادب جو کبھی سچ کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور صحافت ایک ایسا آئینہ جس میں ہر کس و ناکس اپنا بڑا واضح اور حقیقی عکس دیکھ لیا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نو آموزوں کی تحریروں اور کلام پر تبصرہ نگار‘ فلیپ نگار اور دیباچہ لکھنے والے اپنی پوری ذمہ داری سے بات کرنا اپنی دانشمندی‘ ایمانداری اور سچائی کی دلیل سمجھا کرتے تھے لیکن آج کے دانشوروں نے اپنے کندھے کا یہ بوجھ کسی چوراہے میں پھینک دیا ہے اوروہ نوآموز شاعروں‘ خاص کر شاعرات کے تجرباتی اور بچگانہ کلام اور ان کی تحریروں پر بھی زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے تبصرے‘ فلیپ اور دیباچے تحریر کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی ابتدا ہی میں خود کو اُس مقام پر پہنچا ہوا دیکھنے لگتے ہیں کہ جن کے بغیر ادب ادھورا اور بے کار ہو۔ شاعرات کا عورت ہونا ہی حرفِ آخر ٹھہرتا ہے۔ انہیں اپنی دسترس میں لانے کے لیے غیر شریفانہ حربے اور چرب زبانی سے مقامی و غیر ملکی تقریبات میں لے جانے کا جال پھینک کر خود مقامِ انسانیت ہی سے نیچے گر جاتے ہیں۔
آج کل ایسی ہی ایک شاعرہ... کا غلغلہ اُٹھا ہوا ہے۔ اس کے مجموعۂ کلام... سے لی گئی چند غزلیں اور نظمیں آپ کے اندیشۂ فکر کے لیے خط کے ساتھ بھجوا رہا ہوں۔ پڑھیے اور سر دُھنیے۔ موصوفہ کتنی بڑی شاعرہ ہیں اور ان کے متعلق مستند اور جغادری اساتذۂ فن کے تبصرے کہاں تک سچے ہیں‘ یہ آپ بہتر جان سکیں گے۔ اردو ادب میں اس بے راہروی اور شاعری کے مروجہ اصول و ضوابط سے کھلا انحراف بھی آپ کی توجہ کا طالب ہے۔ میری رائے میں اس قسم کی تُک بندی کو شاعری کہنا بھی شاعری کی توہین ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ اس کتاب کی شہر شہر رُونمائیاں ہو رہی ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ مضامین اور تبصرے پڑھنے میں آ رہے ہیں کیونکہ اس کی خالق صرف اور صرف لڑکی ہے جو اس کا سب سے بڑا کریڈٹ ہے۔ امکان غالب ہے کہ شاید 2015ء کا ادبی ایوارڈ بھی اس مجموعہ کو مل جائے کہ اندھوں کے شہر میں بسنے والے نام نہاد ادبی دانشور بھی ادبی مواد کو نہیں‘ کچھ اورمعاملات کو پیمانہ بنا کر فیصلے کرنے لگے ہیں۔ آنکھوں اور سوچ سمجھ کے پیمانے ان کے ہاتھوں سے بہت عرصہ پہلے چھوٹ چکے ہیں۔ یہ ہم ایسے قارئین کا حوصلہ ہے کہ ہم ہُنروروں کے ایسے ا یسے کارناموں کو کھلی آنکھوں کی گواہی سے دیکھ رہے ہیں لیکن احتجاج اس لیے نہیں کر پاتے کہ ذرائع ابلاغ تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ کیا آپ کا بے باک قلم ایسے متشاعروں کی حوصلہ شکنی اور ایسے تبصرہ گروں کے ساتھ جھوٹے مضمون نگاروں کی مذمت نہیں کر سکتا؟ کوئی تو ہو جو سچ لکھنے اور سچ بولنے کا اپنے اندر حوصلہ رکھتا ہو۔ اگر آپ یہ علم اٹھا لیں تو یقین کیجیے‘ ایسے بہت سے حقداروں اور سچے ادیبوں‘ شاعروں کا بھلا کریں گے جو اپنا لکھتے ہیں اور کھرا لکھتے ہیں مگر ان کی گردنوں پر ‘ ان کے نام نہاد حواری اپنا پائوں رکھ کر آگے بڑھنے کو فخر جانتے ہیں وگرنہ آپ بھی ان مجرموں میں شامل ہوں گے جو ایسے لوگوں کی ناجائز حوصلہ افزائی ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی انگلی پکڑ کے اور شہرت کی لانگ جمپ لگوا کر آگے نکال لے جاتے ہیں۔ اس قدر طویل مندرجات پر معذرت خواہ ہوں۔ کیا میں امید رکھوں...؟
اس خط کو کالم میں شامل کرنے کی بڑی وجہ تو یہی ہے کہ اس میں میری تعریف کی گئی ہے اور یہ موقعہ کافی دیر کے بعد آیا ہے کہ کسی نے میری اس قدر تعریف کر دی ہو۔ اس کے علاوہ خط کے آخر میں
میرے لیے ایک دھمکی بھی ہے جبکہ میں کافی ڈرپوک آدمی بھی ہوں۔ خط کے ساتھ منسلک شاعری میں نے دیکھی ہے لیکن میں اس پر خیال آرائی اس لیے نہیں کر سکتا کہ یہ مجھے خود شاعرہ کی طرف سے نہیں بھجوائی گئی۔ اسی لیے میں نے شاعرہ اور کتاب کا نام بھی حذف کر دیئے ہیں۔ مکتوب نگار کا بڑا اعتراض یہی ہے کہ شاعری میں اکثر جگہوں پر وزن ہی نہیں ہے‘ جس میں کوئی خاص وزن نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے یہ شاعری خلا میں بیٹھ کر تخلیق کی گئی ہو جبکہ خلا میں تو آپ وزن سے ویسے بھی فارغ ہو جاتے ہیں‘ اور خلائی جہاز بھی آج کل کرائے پر عام ہی مل جاتے ہیں‘ اس لیے بے وزنی والے اعتراض کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ اور جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ یہ شاعری ہے ہی نہیں‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی کوئی معقول اعتراض نہیں ہے کیونکہ شاعری تو خود قاری کے اندر موجود ہوتی ہے جس کو ساتھ ملا کر کسی کی شاعری سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے‘ اس لیے صاحبِ موصوف کو اپنے اندر شاعری پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ خاکسار تو تبصرے یعنی مخالفانہ تبصرے سے کافی عرصہ ہوا ویسے بھی تائب ہو چکا ہے اور جس کی اپنی معقول وجوہات ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں مجھے بتایا گیا کہ میں نے جس بھارتی شاعر کی تعریف نہیں کی تھی‘ وہ اس وقت سے لے کر آج تک زارو قطار رو رہا ہے۔ ایک اور شاعر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میرا تبصرہ پڑھ کر اُسے فالج ہو گیا جبکہ ایک اچھے بھلے شاعر کے موٹربائیک حادثے میں زخمی ہونے کو بھی بعض لوگوں نے میرے کالم کا شاخسانہ قرار دیا۔ ان حالات میں خود مجھ سے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ مکتوب نگار اپنی وہ ہدایت واپس لے لیں جو انہوں نے اس شاعری اور شاعرہ کی خبرگیری کرنے کے سلسلے میں ارزانی فرمائی ہے کیونکہ لاکھ اختلافات بھی ہوں‘ موصوف شاعرہ کی جان اور سلامتی کو تو خطرے میں ڈالنے کے حق میں نہیں ہوں گے؛ چنانچہ میں بھی اب اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جن فلیپ‘ تبصرہ اور دیباچہ نگاروں کا ذکر مکتوب میں کیا گیا ہے وہ بھی یہ کام اسی خدا خوفی کی بنا پر ہی کرتے ہوں گے کیونکہ بصورت دیگر شاعر یا شاعرہ کو مخالفانہ رائے دیکھ کر سرسام وغیرہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ ملک عزیز میں صحت عامہ کا احوال ویسے بھی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے اور مخالفانہ تبصروں سے نوآموز شعراء و شاعرات کے گردے وغیرہ بھی فیل ہو سکتے ہیں‘ اس لیے بہتر یہی ہے کہ سلامتی کا راستہ اختیار کیا جائے جو کہ میں نے اور مذکورہ بالا حضرات نے کر رکھا ہے اور امید ہے کہ مکتوب نگار بھی اپنے خیالات و نظریات میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے کہ آخر جان ہے تو جہان ہے!
پھر‘ مکتوب نگار نے کتاب کا جو ڈسٹ کور ساتھ بھیجا ہے اس پر اس نوخیز شاعرہ کی تصویر ہی اس قدر دلپذیر ہے کہ پیسے پورے ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ کیا شاعرہ کا خوبصورت ہونا ہی کافی نہیں جو اس سے خوبصورت شاعری کی بھی توقع رکھی جائے‘ یعنی اگر شاعرہ خدانخواستہ خود بھی شکل و صورت سے گئی گزری ہو اور اس کی شاعری بھی‘ تو پھر تو آپ کا اعتراض بجا ہو سکتا ہے؛ چنانچہ خوش شکل شاعرہ کی شاعری جیسی بھی ہو‘ خوش اخلاقی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُسے غنیمت سمجھا جائے اور زیادہ لالچ کا مظاہرہ نہ کیا جائے‘ کیا آپ نے سنا ہوا نہیں کہ لالچ بُری بلا ہے؟ اور آخری بات یہ کہ پورا مجموعہ جس نام سے مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپا ہے‘ ہمارے دوست احمد عطاء اللہ کا شعری مجموعہ اس نام سے مارکیٹ میں پہلے سے موجود ہے۔
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رسوائے شہر اب تری عزت اسی میں ہے