مردان سے ڈاکٹر ہما میرے ایک کالم کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ادب میں کشادہ دلی بجا‘ مگر آپ بھی تو کسی کے حق میں کلمۂ خیر نہیں کہتے۔ نہیں بی بی‘ آپ نے یہ کیا کہہ دیا۔ یا تو میرا کالم باقاعدگی سے آپ کی نظر سے نہیں گزرتا یا آپ کے ساتھ خدانخواستہ کوئی اور مسئلہ ہے۔ چیز اگر واقعی قابل تعریف ہو تو اس کی ستائش میرے لیے ایک مذہبی فریضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ البتہ الم غلم تحریروں کی میں تعریف نہیں کر سکتا نہ ہی میں نے کلمۂ خیر کو ٹکے ٹوکری کر رکھا ہے۔ مثلاً جو شاعری‘ شاعری کی بجائے محض شاعری کی معذرت ہو اور اصرار بھی کیا جائے کہ اس پر ضرور رائے زنی کروں تو اس کی خبر میں ضرور لیتا ہوں اور آئندہ بھی لیتا رہوں گا کہ اس پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔
لطف یہ ہے کہ بعض دوستوں کو شکایت ہے کہ میں لوگوں کی خواہ مخواہ ہی تعریف کرتا رہتا ہوں؛ چنانچہ یہ دو نقطۂ ہائے نظر ہیں اور ایک دوسرے کے برعکس بھی۔ بلکہ انہیں تو میرا اپنا شعر بھی کبھی شاید ہی پسند آیا ہو جبکہ اکثر کے بارے کہتی ہیں کہ یہ کیا ہے؟ یعنی‘ گویم مشکل‘ وگرنہ گویم مشکل۔ چنانچہ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے کیوں کہ نہ آپ سب کو خوش رکھ سکتے ہیں نہ ناراض۔ اور میرا مقصد صرف آزادانہ رائے دینا ہوتا ہے‘ کسی کو خوش یا ناراض کرنا نہیں۔ میں نے زیادہ تر رسالوں پر تبصرہ کرنا بھی موقوف کر دیا ہے جس کی اپنی وجوہ ہیں‘ ماسوائے اس کے کہ کسی جریدے میں مجھے کوئی چیز بطورِ خاص اچھی لگے تو اس تحریر کے ساتھ ساتھ لازمی طور پر اس رسالے کا ذکر بھی آ جاتا ہے۔
بھارت سے آیا جریدہ ''تفہیم‘‘ پیشِ نظر ہے‘ اور اس کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی کی سرپرستی میں شائع ہوتا ہے۔ راجوری (جموں و کشمیر) سے شائع ہونے والا یہ جریدہ شیخ خالد کرار اور عمر فرحت کی ادارت میں چھپا ہے جس کا یہ ساتواں اور آٹھواں شمارہ ہے۔ نثری حصے کے لکھنے والوں میں شمس الرحمن فاروقی‘ قاضی افضال حسین‘ عتیق اللہ‘ انیس اشفاق‘ دانیال عزیز‘ رشید طراز‘ فضیل جعفری‘ خورشید اکرم‘ ناصر عباس نیر اور دیگران شامل ہیں۔ حصۂ نثر کی طرح منظومات کا شعبہ بھی اہم ہے جس میں مظفر حنفی‘ پرتپال سنگھ بیتابؔ‘ آفتاب حسین‘ افضال نوید‘ الیاس بابر اعوان‘ سید کامی شاہ‘ ندا فاضلی‘ نصیر احمد ناصر‘ اقتدار جاوید‘ علی اکبر ناطق و دیگران شریک ہیں۔
حصۂ غزل میں الیاس بابر اعوان نے اپنی طرف بطور خاص متوجہ کیا جو مجھے مروجہ غزلوں سے کافی حد تک مختلف نظر آئی اور میرے خیال میں جو تحریر دوسروں سے کافی یا کسی حد تک بھی مختلف ہو‘ اس کا حق ہے کہ اس کا نوٹس لیا جائے اور جسے بقول ڈاکٹر ہما آپ کلمہ خیر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دوسری تمام غزلیں نظرانداز کرنے کے لائق ہیں۔ پہلے آپ وہ غزل دیکھیے:
اپنا اپنا دکھ بتلانا ہوتا ہے
مٹی سے تصویر میں آنا ہوتا ہے
میری صبح ذرا کچھ دیر سے ہوتی ہے
مجھے کسی کو خواب سنانا ہوتا ہے
نئے نئے منظر کا حصہ بنتا ہوں
جیسے جیسے جسم پرانا ہوتا ہے
اک چڑیا مجھ سے پہلے بھی اُٹھتی ہے
جیسے اس کو دفتر جانا ہوتا ہے
گھر کے اندر اتنی گلیاں ہوتی ہیں
کبھی کبھار ہی باہر جانا ہوتا ہے
اس غزل پر مزید بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی غیرمعمولی غزل نہیں ہے‘ بس ذرا دوسروں سے مختلف ہے اور میری ناقص رائے میں شاعر کو حتی الامکان دوسرے سے مختلف ہونے کی ہی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی بقا اسی میں ہے۔
جملہ نثر میں سے ابھی صرف فاروقی صاحب کا ہی مضمون پڑھا ہے جو ''سلیم احمد‘ تیس سال بعد‘‘ کے عنوان سے ہے۔ مفصل ہے اور مصنف کی روایتی ژرف نگاہی کا مظہر۔ برادرم نے سلیم احمد کے جو شعر نقل کیے ہیں ان میں سے زیادہ تر معمولی نوعیت کے ہیں اور شاعر کے بارے کوئی بہت اچھا تاثر قائم نہیں کرتے۔ یا تو سلیم احمد کا رنگ ابھی سے پھیکا پڑنے لگا ہے یا اس کے نسبتاً کچھ بہتر اشعار نقل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ یہ شعر پڑھ کر تو واقعی افسوس بھی ہوا ہے ؎
الجھتے ہیں وہ ربط باہمی کے ذکر سے اتنے
اسے گویا ریاضی کا کوئی مسئلہ سمجھتے ہیں
جس میں لفظ ''مسئلہ‘‘ کا حمزہ غائب ہونے سے شعر بے وزن ہوگیا ہے حالانکہ شاعر کی طرف سے لفظ مذکور پر ''حمزہ‘‘ موجود ہے۔ میری ناقص رائے میں فاروقی کو یہ شعر درج نہیں کرنا چاہیے تھا جبکہ یہ شعر یوں بھی ہو سکتا تھا ؎
اُلجھتے ہیں وہ رابط باہمی کے ذکر سے اتنا
ریاضی کا اسے وہ مسئلہ گویا سمجھتے ہیں
میں نے لفظ ''اتنے‘‘ کو بھی ''اتنا‘‘ سے تبدیل کردیا ہے کیونکہ اگر میں یہ مصرعہ لکھتا تو ایسے لکھتا کیونکہ بات صرف اتنی ہے کہ شعر کہتے ہوئے آپ حسن تخلیق کر رہے ہوتے ہیں‘ لیکن اگر اس میں کوئی عیب رہ جائے تو وہ حسن تو نہ ہوا۔ سلیم احمد میرے سینئر تھے اس لیے میں ان کے کلام پر اصلاح دیتا اچھا بھی نہیں لگتا لیکن اپنی عادت سے بھی مجبور ہوں اور لطف کی بات یہ ہے کہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ اس لیے اگر کوئی صاحب میری غلطی درست کردیں تو میں بیحد شکرگزار ہوں گا۔ بلکہ میں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ ''ربطہ باہمی‘‘ بھی کچھ پروزیک سا ہی لگتا ہے۔ مزید معذرت! سلیم احمد کی روح سے خفگی کا خطرہ مجھے اس لیے نہیں ہے کہ مرحوم بڑے وسیع النظر آدمی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کافی عرصہ پہلے اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں پی ٹی وی والوں نے ایک مشاعرے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ سلیم احمد اورمیں ایک ہی کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مشاعرے سے پہلے میری فرمائش پر انہوں نے وہ غزل سنائی جو وہ مشاعرے میں پڑھنے والے تھے۔ اس کے ایک شعر کا ایک لفظ مجھے بہت کھٹکا چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے سینئر ہیں‘ میرے لیے یہ مناسب تو نہیں ہے تاہم میری رائے میں یہ لفظ درست نہیں باندھا گیا۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا اور غزل میں سے وہ شعر نکال دیا ہے۔
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
آج کا مطلع
مجھے تیری نہ تجھے میری خبر جانی تھی
عید اب کے بھی دبے پائوں گزر جانی تھی