ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کشور ناہید کو فون کرکے حال احوال پوچھوں کہ موصوفہ کا اپنا فون آگیا۔ آہستہ آہستہ بول رہی تھیں۔ ویسے بھی آہستہ ہی بولتی ہیں‘ ماسوائے اس کے کہ غصے میں ہوں۔ بتایا کہ ڈاکٹر شمیم حنفی کا فون آیا ہے‘ سلام کہہ رہے تھے اور شکریہ ادا کر رہے تھے کہ ''لاتنقید‘‘ انہیں مل گئی ہے جسے پڑھ رہے ہیں اور بہت مزہ آ رہا ہے۔ دروغ برگردن کشور ناہید‘ اصل خوشخبری یہ تھی کہ وہ کینسر سے مکمل شفایاب ہوگئے ہیں۔ میں خود بھی کبھی کبھار ان کی خبرگیری کرتا رہا ہوں یعنی اپنے دوست شمس الرحمن فاروقی سے کبھی فون پر بات ہو جائے تو۔ یہ واقعی ایک مسرت بخش اطلاع تھی۔
اس سے یاد آیا کہ گائوں میں ایک خاتون صحن میں لگے نل پر نہا رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے پوچھا‘ کون ہے تو جواب ملا‘ میں ہوں حافظ‘ جس پر خاتون نے کہا کہ حافظ جی‘ ہوڑہ کھول کر اندر آ جائیے اور آتے ہوئے ہوڑہ بند کرتے آئیں اور سامنے ہی پڑی چارپائی پر بیٹھ جائیں۔ حافظ صاحب آ کر چارپائی پر بیٹھ گئے۔ خاتون نہاتی اور ساتھ ساتھ حافظ جی سے ان کا حال چال بھی پوچھتی رہی‘ آخر نہا کر اس نے تولیہ استعمال کیا اور کپڑے پہنے‘ پھر اندر گئی اور ایک پیڑھی اٹھا لائی جس پر بیٹھ کر بولی۔
''کہیے‘ حافظ جی‘ کیسے آنا ہوا؟‘‘
''میں تمہیں یہ بتانے آیا تھا کہ میری آنکھیں ٹھیک ہوگئی ہیں!‘‘ حافظ جی بولے۔
عرض یہ کرنا تھا کہ کسی کا کینسر جیسے موذی مرض سے صحت یاب ہونا اندھے کو آنکھیں مل جانے سے کچھ کم نہیں ہے۔ علاوہ ازیں‘ کسی نے یہ بھی ٹھیک ہی کہہ رکھا ہے کہ اندھا دوزخی ہوتاہے اور بہرا بہشتی۔
دوسری خوشی کی بات یہ تھی کہ شمیم حنفی صاحب کو ایک بہت بڑا ایوارڈ ملا ہے جس کی مزید خوبصورتی یہ رہی کہ وہ ایوارڈ موصوف کو گھر آ کر دیا گیا۔ یہ ہے اصل عزت افزائی‘ ورنہ ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ ایوارڈ کا اعلان ہو اور اسے وصول کرنے کے لیے اسلام آباد کے دھکے کھاتے پھرو۔ پچھلے سال میرے لیے جس ایوارڈ کا اعلان ہوا اسے وصول کرنے کے لیے میں نے اپنے پوتے کو بھیج دیا تھا۔ اِدھر عزت افزائی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایوارڈز برائے فروخت بھی ہوتے ہیں‘ جیسا کہ ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں متعدد ایوارڈز باقاعدہ فروخت کیے گئے کہ اگر آپ کے پاس اتنے لاکھ روپیہ ہے تو فلاں ایوارڈ اور اگر اتنے لاکھ ہے تو فلاں ایوارڈ دستیاب ہے‘ وعلیٰ ہذا القیاس‘ حتیٰ کہ ترکی کی خاتون اول کی طرف سے افغان مہاجرین کے لیے جو نیکلس دیا گیا تھا کہ اسے بیچ کر ان کی مدد کردی جائے‘ وہ موصوف نے ویسے ہی چوری کرلیا اور بعدازاں شور مچنے اور مطالبہ کیے جانے کے بعد واپس کیا۔ وہ بھی ہزار ردّ و قدح کے بعد جبکہ دوسرے ملکوں سے ملنے والے تحفے تحائف بھی شاید ہی کسی وزیراعظم نے مال خانے میں جمع کرائے ہوں۔ کوئی بیس سال پہلے ملتان سے محبی خالد مسعود خان کا فون آیا کہ آپ کا اتنا کام ہے اور ابھی تک کوئی ایوارڈ آپ کو نہیں دیا گیا‘ اگر آپ اجازت دیں تو اس کے لیے لابنگ کی جائے‘ جس پر میں نے یہ سمجھتے ہوئے انہیں روک دیا اور معذرت کرلی کہ بیشک یہاں پر کوئی کام میرٹ پر نہیں ہوتا‘ لیکن پھر بھی میں لابنگ اور سفارش کا قائل نہیں ہوں۔ میرا کام اگر کسی قابل ہوا تو میرے لیے وہی سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ اس کے چند برس کے بعد جب جناب نذیر احمد ناجی اکادمی ادبیات کے چیئرمین تعینات ہو کر اپنی میعاد پوری کرنے کے قریب تھے‘ ان کا فون آیا کہ میں نے تمغہ حسنِ کارکردگی کے لیے تمہارا نام بھیج دیا ہے جس کے لیے متعلقہ وزیر کی منظوری ضروری ہے جو کہ راجہ ظفرالحق ہیں‘ اگر تم انہیں کہہ یا کہلوا سکو تو ایوارڈ تمہیں مل سکتا ہے۔ میں نے کہا‘ تمہارے ساتھ میرا اتنا اور پرانا تعلق ہے‘ میں نے اگر تم سے نہیں کہا تو راجہ صاحب سے کیا کہوں گا جن کے ساتھ میرا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہے۔ بہرحال‘ اس کے لیے ناجی صاحب کی سفارش ہی کافی سمجھی گئی اور اس کا اعلان بھی ہوگیا۔
کشور نے یہ بھی بتایا کہ شمیم حنفی کہہ رہے تھے کہ ظفراقبال نے آپ کا جو شعر ڈرتے ڈرتے اپنے کالم میں نقل کیا تھا‘ بہت خوبصورت تھا اور وہ پوری غزل بھی زبردست ہوگی اور یہ کہ آپ نے اُسے اپنا کلام کالم میں شائع کرنے سے منع کیوں کر رکھا ہے‘ جس پر میں بولا کہ اب تو حنفی صاحب کی سفارش بھی آگئی ہے‘ اب کیا خیال ہے؟ لیکن وہاں مُرغے کی ایک ہی ٹانگ تھی حالانکہ جس جریدے کے لیے وہ شاعری تخلیق کرتی ہیں‘ وہ ہزار پانچ سو سے زیادہ کیا چھپتا ہوگا‘ جبکہ میرا اخبار لاکھوں کی تعداد میں چھپتا ہے اور بے شمار لوگوں کی نظر سے گزرتا ہے‘ اُوپر سے تم عوامی شاعرہ بھی بنتی ہو‘ تمہارا کلامِ بلاغت نظام آخر عوام تک کیوں نہ پہنچے لیکن جواب وہی ڈھاک کے تین پات۔
شمیم حنفی کے بعد بھارت سے ایک اور اچھی خبر کا بھی انتظار ہے کہ خدا کرے نامور افسانہ نگار نیرّ مسعود بھی جلد از جلد صحت یاب ہو جائیں جبکہ ادھر بھی کچھ لوگ دعا کے طالب ہیں۔ جمیل الدین عالی ای سی یو سے نکل کر سپیشل وارڈ میں چلے گئے ہیں۔ غالب احمد کے ہوش و حواس کے بارے کوئی خبر نہیں ہے جبکہ صاحبِ طرز افسانہ نگار سمیع آہوجا بھی کچھ اچھی کیفیت میں نہیں ہیں۔ اگلے روز ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا تو ان کی بیٹی نے کہا‘ میں بات کرواتی ہوں‘ اور وہ بات اتنی ہی تھی کہ میں ہی بات کر رہا تھا اور وہ فقط غوں غاں ہی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ پنجابی اور اردو کی ہماری دلنواز شاعرہ نسرین انجم بھٹی بھی کافی علیل رہی ہیں‘ جن کی خیروعافیت کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یہ سب لوگ ہماری آپ کی دعائوں کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جلد از جلد شفائے کا ملہ عطا کرے ع
ایں دُعا از من واز جُملہ جہاں آمین باد
یہ کالم یہیں ختم ہو رہا تھا کہ محبی ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کا فون آگیا جو کراچی سے ایک کانفرنس بھگتا کر آئے تھے‘ اُن کی بھی وہاں کراچی میں شمیم حنفی سے بات ہوئی جو لاتنقید کی وصولی کی اطلاع دے رہے تھے اور میرا موبائل نمبر بھی اُن سے پوچھ رہے تھے جو وہ انہیں ای میل کریں گے۔
آج کا مطلع
صحرا مرا سفینہ‘ صدا بادبان ہے
میں چار سُو ہوں‘ سیل سفر درمیان ہے