میں اپنے آپ کو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میرے سارے کے سارے پبلشرز پڑھے لکھے اور شعروادب کے صحیح معنوں میں سمجھنے والے تھے۔ اس سلسلے کی میری پہلی محبت ''نیا ادارہ‘‘ کے چودھری نذیر احمد تھے جو محمد حنیف رامے کے چھوٹے بھائی تھے اور مشہور و معروف ترقی پسند رسالہ ''سویرا‘‘ نکالتے تھے۔ جب تک حیات رہے ''سویرا‘‘ کا ٹائٹل رامے صاحب ہی نے بنایا۔ اس دوران چودھری صاحب کے بڑے صاحبزادے ریاض چودھری بھی اس فن میں اپنے ہاتھ کھلے کر چکے تھے‘ چنانچہ بعد میں ''سویرا‘‘ کے ٹائٹل انہوں نے بنانا شروع کر دیئے۔ رامے صاحب کے فن کو اس عزیز نے اس حد تک اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور اس پر عبور حاصل کر لیا تھاکہ ٹائٹل رامے صاحب ہی کا بنایا ہوا لگتا۔ ریاض چودھری بعد میں نظمیں بھی لکھنے لگے۔
''آب رواں‘‘ کا نام چودھری صاحب ہی نے رکھا تھا۔ یہ ٹائپ میں چھپی تھی اور اسے آدم جی پروڈکشن پرائز بھی ملا تھا۔ ٹائٹل رامے صاحب نے بنایا تھا جو بعد کے ایڈیشنوں کی بھی زینت بنا۔ اس کے علاوہ ''گلا فتاب‘‘ ''رطب ویابس ‘‘اور'' تفاوت‘‘ کے ٹائٹل بھی انہی کے موقلم کا معجزہ ہیں ۔''گلا فتاب‘‘ کااشتہار پہلے پہلے ''سویرا‘‘ کے پس سرورق ''گل آفتاب‘‘ کے نام سے چھپتا رہا۔ چودھری صاحب کو معلوم تھا کہ یہ کتاب متنازعہ ہونے کے باوجود بکے گی‘ اس لیے انہوں نے اس کا پیپر بیک ایڈیشن بھی چھاپا۔ محمد سلیم الرحمن ''سویرا‘‘ کے معاون ایڈیٹر تھے۔ ''گلافتاب‘‘ پر انہوں نے پاکستان ٹائمز میں جو تبصرہ لکھا اس کا عنوان A poetic dead endتھا۔ اس کتاب پر شاید یہ پہلی مخالفانہ رائے تھی۔ بعد میں انہوں نے ریاض چودھری کے ساتھ مل کر سلیم و ریاض کے نام سے ادارہ ''قوسین‘‘ کی طرح ڈالی اور'' آب رواں‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ ''سلیم و ریاض‘‘ نام بھی میرا ہی رکھا ہوا تھا جو ''رطب ویابس‘‘ میں شامل میری ایک غزل کی ردیف کے طور پر آیا تھا جو کچھ اس طرح سے تھی ؎
چائے منگوائیے صلاح الدین ‘کھڑکیاں کھول دو سلیم و ریاض
جلد بھیجوں گا حلوۂ موعود مُنہ ذرا دھو رکھو سلیم وریاض
اس ایڈیشن کا نہایت خوبصورت دیباچہ بھی سلیم صاحب ہی نے لکھا۔
صلاح الدین محمود بھی ''سویرا‘‘ کے معاون مدیر رہے بلکہ اس کا ایک شمارہ میری ادارت میں بھی شائع ہوا۔ مواد کا انتخاب اور اداریہ بھی ظاہر ہے کہ میرا تھا۔ میں نے اس خیال سے کہ پرچے کا کچھ مالی تعاون بھی ہو جائے گا اوکاڑہ سے چند اشتہارات بھی حاصل کر کے شائع کیے‘ جبکہ پسِ سرورق ستلج کاٹن ملز اوکاڑہ کا اشتہارشائع کیا گیا‘ لیکن چونکہ وہاں اشتہارات کا رواج ہی نہ تھا، اس لیے میں وصولی کرنے میں ناکام رہا جبکہ ملز کے بڑے اشتہار کا معاوضہ 5000 روپے طے ہوا تھا جو میرے بار بار چکر لگانے کے باوجود نہ مل سکے کیونکہ ملز اس وقت ویسے بھی بند ہو چکی تھی اور پیداوار صفر کے برابر تھی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں میں ادارے سے آج تک شرمندہ ہوں۔
اسی دوران محمد سلیم الرحمن کی نظموں کے مجموعے کا اشتہار بھی ''سویرا‘‘ کے پس سرورق اس طرح شائع ہوتا رہا کہ کل شائع ہو گا۔ یہ مجموعہ کافی تاخیر سے شائع تو ہو گیا لیکن اس کی مارکیٹنگ صحیح طور پر ہوئی اور نہ اس کا کوئی ایفیکٹ ہو سکا۔ ان کا محبوب مشغلہ تراجم تھا لیکن ان جیسی عمدہ نثر لکھنے والا مجھے تو اس دور میں کوئی نظر نہیں آتا۔ یاد آیا کہ مصوری میں رامے صاحب کا انداز ریاض چودھری کی طرح ہمارے شاعر دوست ذوالفقار تابش نے بھی خوب اپنایا۔ ''عہدِ زیاں‘‘ کا خوبصورت ٹائٹل انہی نے بنایا تھا۔ بعد میں اس کتاب میں سے زیادہ تر غزلیں میں نے ''رطب ویابس ‘‘میں شامل کر لیں جس کا پہلا ایڈیشن علی گڑھ سے جناب شمس الرحمن فاروقی نے شائع کیا تھا۔
بعد میں پنجابی مجموعہ ''ہرے ہنیرے‘‘سمیت میری نئی کتابیں‘ اور جو نایاب ہو گئی تھیں‘ طاہر اسلم گورا نے شائع کیں۔ موصوف شاعر بھی تھے اور افسانہ نگار بھی‘ زیادہ تر نثری نظمیں لکھیں۔ ان کی نثری نظموں کے ایک مجموعے کا دیباچہ میں نے لکھا تھا۔ ان کا اشاعتی کاروبار خوب چل نکلا تھا لیکن شومئی قسمت سے انہوں نے ڈبل منافع پر لوگوں سے سرمایہ کاری کروانے کا کام شروع کر دیا جو بالآخر فیل ہوا اور مقدمے بازی تک نوبت جا پہنچی اور آخر انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔
ملک نیاز احمد ایک ہمہ صفت اور ہمہ جہت آدمی تھے۔ میرے کالموں کا دوسرا انتخاب ''دال دلیا‘‘ کے نام سے انہوں نے چھاپا جس کا مسودہ لینے اور معاہدے پر دستخط کروانے خود میرے دفتر تشریف لائے جن دنوں میں اردو سائنس بورڈ میں تھا۔ اسی دوران انہوں نے سوانح عمری لکھنے کی بھی فرمائش کی۔ میں نہیں سمجھتا کہ اردو ادب کی جتنی خدمت ان کے ادارے سنگ میل پبلی کیشنز نے کی‘ کسی اور نے کی ہو گی۔ میرا آنا جانا رہتا تھا اور مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ملاقات بھی ان کے دفتر میں ہوا کرتی۔ اب اسی ادارے نے ان کے صاحبزادے افضال احمد کے زیراہتمام میرے کلیات نثر ''لاتنقید‘‘ کی جلد اول چھاپی ہے اور دیگر کتابوں کے تازہ ایڈیشن چھاپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
''آب رواں‘‘ کا پانچواں ایڈیشن میرے اور آفتاب کے مشترکہ دوست سہیل گوئندی نے ''جمہوری پبلی کیشنز‘‘ کے زیراہتمام شائع کیا۔ آپ ایک جانے پہچانے ادیب‘ کالم نگار اور سفرنامہ نگار کے طور پر اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ کافی عرصہ ترکی میں رہے ہیں حتیٰ کہ آدھے ترک خود بھی لگتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق جیالے (میری طرح) ہیں اور اب پارٹی کے زیڈ اے بھٹو گروپ کے سرگرم رکن بلکہ رہنما۔اسی دوران میرا شعری مجموعہ''تفاوت‘‘ طارق اسماعیل ساگر نے شائع کیا جو خود ایک معتبر کالم نویس اور تجزیہ نگار ہیں۔ اس کتاب کا ٹائٹل بھی رامے صاحب نے بنایا تھا بلکہ دو اور کتابوں کا ٹائٹل بھی انہی نے بنایا تھا جو ساگر صاحب نے کہیں گم کر دیا۔ رامے صاحب سے یاد آیا کہ ایک بار وہ اپنی نظموں کا مسودہ میرے پاس لائے کہ انہیں ذرا دیکھوں۔ ان کے بارے میں میری رائے یہ تھی کہ آپ کی ایک الگ اور زبردست پہچان ہے‘ یہ نظمیں آپ کے معیار کے مطابق نہیں ہیں اور نہ ہی آپ کو بطور شاعر اپنے آپ کو منوانے کی کوئی ضرورت ہے‘ اس لیے رہنے دیں‘ لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے ابراہیم رامے نے وہ مجموعہ شائع کرا دیا!
میں اس پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے کہ میرے ناشرین میں شمس الرحمن فاروقی جیسی نابغۂ روزگار شخصیت بھی شامل ہے!
اور اب کچھ ذکر ہو جائے میرے کلیات(اب تک) کی چار جلدوں کے ناشر جناب اظہر غوری کا۔ ان کا سب سے بڑا کمال املا کی درستی میں مہارت ہے‘ جو ان کا خصوصی امتیاز بھی ہے۔ خود مجھے بعض الفاظ کی صحیح املا کا پتہ ان سے چلا۔ پھر‘ اپنے کام میں وہ جس قدر عرق ریزی کا مظاہرہ کرتے ہیں شاید ہی کوئی اور کرتا ہو گا۔ پروف ریڈنگ تک وہ اپنی ذاتی نگرانی میں کرتے‘ کراتے ہیں۔ انہوں نے یہ کتابیں ملٹی میڈیا افیئرز کی جانب سے شائع کیں‘ جہاں سے وہ دیگر مشاہیر کی کتابیں بھی چھاپ چکے ہیں۔ اب پچھلے ایک سال سے ‘‘دکانچۂ نادر کتب‘‘ کے نام سے اپنا کاروباری مرکز بھی قائم کر لیا ہے۔ چونکہ وہ خود ایک اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں اور ''غیر مشروط محبت‘‘ کے نام سے نظموں کے مجموعہ کے خالق بھی‘ اس لیے شعر کی زبان‘ باریکیوں‘ نزاکتوں اور نفاستوں کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کا کام دوسرے پبلشرز کی نسبت اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ میرے نثری کلیات''لا تنقید‘‘ کی جلدِ اول کا سارا مواد انہوں نے ادھر ادھر سے اکٹھا کیا اور اسے ٹائپ کروا کر فائنل شکل دی‘ لیکن بعض وجوہ کی بنا پر وہ اسے شائع نہ کر سکے۔ چنانچہ وہ کتاب سنگِ میل پبلیکشنز سے اشاعت پذیر ہوئی‘ جس پر بطور تدوین و تشکیل کار ان کا نام درج ہے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ، جو سو کے اُٹھا ہوں تو کچھ نہیں موجود
زمیں کدھر گئی ہے، آسماں کہاں گیا ہے