مجھے خود تو فیس بک پر جانے کی سعادت حاصل نہیں ہے تاہم میرے بارے میں وہاں کچھ چھپے تو میرے کوئی نہ کوئی کرمفرما کبھی کبھار مجھے اس کی اطلاع دیتے رہتے ہیں۔ مثلاً اگلے روز ایک صاحب نے اطلاع دی کہ ایک بھارتی شاعر نے آپ کے خلاف بہت ہرزہ سرائی کی ہے۔ میں نے ان سے نہیں پوچھا کہ کیا لکھا گیا ہے البتہ مجھے ہرزہ سرائی کی ترکیب پر سخت اعتراض تھا کیونکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک شاعر نے ایک دوسرے شاعر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو یہ ہرزہ سرائی کیسے ہو گئی؟۔ ہر شخص کو کسی بھی چیز یا شخص کے بارے میں اچھی یا بُری رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے‘ پھر ‘ شاعر اگر شاعر کے بارے میں اظہار خیال نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا۔ ہر شاعر کو کسی دوسرے شاعر کی شاعری ناپسند کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے خواہ وہ کسی تعصب ہی کی بناء پر کیوں نہ ہو جبکہ کسی کے خلاف تعصّب رکھنا بھی استحقاق ہی کے ذیل میں آتا ہے کہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی سے محبت یا نفرت کرتے ہوں‘ تو آپ کو کسی کے خلاف تعصّب روا رکھنے سے کیونکر روکا جا سکتا ہے؟
زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ میری شاعری کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہو گا یا اس پر فنّی اعتراضات وارد کیے گئے ہوں گے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا میری شاعری میں فنی نقائص نہیں ہو سکتے‘ اور کیا ان کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی؟ میں اگر خود یہ کام کرتا ہوں تو میری یا کسی اور کی طرف سے ایسا کرنے سے کیونکر روکا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نقائص کی نشاندہی سے کوئی خیر کا پہلو بھی نکل سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ‘ وارد کیا ہوا اعتراض غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن کیا میری طرف سے عائد کیا جانے والا کوئی اعتراض غلط نہیں ہو سکتا؟ سو‘ اس حوالے سے مثبت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جو چیز شائع ہو جاتی ہے وہ ایک پبلک پراپرٹی کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور تخلیق کار کی کلّی ملکیت سے نکل جاتی ہے۔
میں ایسی کسی تحریر کا جواب دینے کے بھی حق میں نہیں ہوں‘ اسی لیے میں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس تحریر میں کیا کیا کچھ کہا گیا تھا اور میں ایسا کرتا اچھا بھی نہیں لگتا کیونکہ جو میرے حساب کتاب میں آیا‘ میں نے لکھ دیا اور جو معترض نے مناسب سمجھا اس نے ‘اس طرح دونوں نے اپنا اپنا حق استعمال کیا‘ اس لیے اس میں جھگڑے کی کیا بات ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنا شروع کر دے کہ عقل کل کوئی بھی نہیں ہوتا‘ بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر سمجھنا چاہیے۔
ایک اور صاحب کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ ان کا ایک پورا مضمون کسی صاحب نے فیس بُک پر ڈال دیا ہے جس میں میری کتابوں ''آب رواں‘‘ اور ''لاتنقید‘‘ پر اعتراضات کیے گئے تھے اور دونوں پر کُھلکر بحث کی گئی تھی۔ جو باتیں مجھے بتائی گئی تھیں ان میں ایک تو یہ تھی کہ ''لاتنقید‘‘ میں تکرار کا عنصر موجود ہے اور اس کی ایڈیٹنگ کی جانی چاہیے تھی جو کہ نہیں کی گئی۔ یہ اعتراض بالکل درست ہے‘ اور تکرار کی وجہ یہ رہی کہ یہ مضامین اور کالم کتاب کی صورت میں نہیں لکھے گئے تھے اور الگ الگ لکھے جانے کی وجہ سے ان میں کہیں تکرار ضرور موجود رہ گئی ہے جبکہ اس کی ایڈیٹنگ اس لیے بھی نہیں کی جا سکی تھی کہ متعلقہ حصے نکال دینے سے سیاق و سباق میں بہت گڑ بڑ ہو جاتی۔ مجھے اس بات کا ہرگز کوئی افسوس نہیں کہ موصوف کو ''آب رواں‘‘ میں سے ایک بھی کام کا شعر نہیں مل سکا۔ البتہ میری ساری شاعری میں سے ایک شعر اُنہیں ضرور اچھا لگا یعنی ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
اور‘اگر یہ بھی انہوں نے مروّتاً ہی لکھ دیا ہو تو بھی تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ ہر شخص کی پسند اپنی ہوتی ہے اور کسی دوسرے پر اپنی پسند تھوپی نہیں جا سکتی۔ نیز ہر طرح کی شاعری ہر آدمی کے لیے ہوتی بھی نہیں کیونکہ مختلف لوگوں کا ذوقِ سخن الگ الگ بھی ہو سکتا ہے۔تنقید یا تنقیص سے کوئی مقصد حاصل کرنا بھی ہو سکتا ہے‘ اس پر بھی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ دیگر حقوق کی طرح مقصد براری بھی ایک تسلیم شدہ اصول و استحقاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں یہ اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ ایسی باتیں میرے نوٹس میں لانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے اور آئندہ زحمت نہ اٹھائی جائے کیونکہ اختلافِ رائے کے بغیر تو شعر و ادب کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی اور نہ ہی تنقید یا اعتراض کرنے والے کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ تنگ نظری ہی کی ذیل میں آتا ہے۔ اختلافِ رائے کُھل کر ‘ اور ضرورکرنا چاہیے کہ اس میں دونوں کا فائدہ ہے‘ اعتراض کرنے والے کا بھی اور اُس کا بھی جس سے اختلاف کیا گیا ہو۔ کیونکہ اس سے کسی کی بھی صحت پر برا اثر نہیں پڑتا۔
پچھلے دنوں چند عُمدہ اشعار نظر سے گزرے جو آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے ماہ نامہ ''الحمرا‘‘ کے گزشتہ شمارے میں سے یہ شعر ؎
منزلِ کون و مکاں ایک سفر کی تھکن
جیسا کہ ہے آسماں ایک نظر کی تھکن
آج کے اخبار کی طرح کے یہ روز و شب
ایک خبر کا دھواں‘ ایک خبر کی تھکن
(سید مشکور حسین یآد)
پوشیدہ کسی ذات میں پہلے بھی کہیں تھا
میں ارض و سماوات میں پہلے بھی کہیں تھا
اُس کے یہ خدوخال زمانوں میں بنے ہیں
یہ شہر مضافات میں پہلے بھی کہیں تھا
(طارق نعیم)
اور‘ ماہنامہ ادب دوست کے پچھلے شمارے سے یہ اشعار:
بے خیالی میں جس کو پایا تھا
ڈُھونڈنے میں اُسے گنّوا دیا ہے
رُت بدلنے کی دیر تھی‘ اظہر
دُھوپ نے چھائوں کا مزہ دیا ہے
(اظہر فراغ)
آج کا مقطع
مجھ پر ظفرؔ خدا کی زمیں تنگ ہی سہی
خوش ہوں کہ میرے سرپہ کھُلا آسماں تو ہے