خطوں کی خوشبُو
یہ رائے منصب علی خاں کھرل کے خطوط کا مجموعہ ہے جو پروفیسر صدیق مرزا کے نام لکھے گئے۔ رائے صاحب بنیادی طور پر ایک سیاسی آدمی تھے جو ایم این اے‘ وفاقی وزیر مملکت اور جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ مرنجاں مرنج اور نیک خُوآدمی تھے۔ اوکاڑہ کچہری کسی کام سے آتے تو مجھ سے ملے بغیر نہ جاتے۔ اس کتاب سے پتا چلا ہے کہ وہ شاعر بھی تھے اور شاعرانہ نام منصب جاوید۔میرے ساتھ کسی ادبی موضوع یا مسئلے پر کبھی گفتگو نہیں ہوئی‘ نہ ہی ان خطوط سے کچھ پتا چلتا ہے کہ ادب کبھی ان کا سنجیدہ مسئلہ رہا ہو۔ کتاب زیادہ تر معمول کی ذاتیات سے متعلق ہے۔ رائے صاحب خود بھی کوئی ایسی شخصیت نہیں تھے کہ یہ کتاب ادبی حلقوں میں کوئی مقام حاصل کر سکے۔ پروفیسر صاحب نے اپنے منسلکہ خط میں لکھا ہے کہ کتاب کو پڑھ کر اس کی غرض و غایت آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔ میں اسے ٹھیک طرح سے پڑھ اس لیے نہیں سکا کہ یہ کوئی قابل مطالعہ چیز ہے ہی نہیں‘ نہ ہی پروفیسر صاحب کوئی ایسی ادبی شخصیت ہیں کہ ان کے حوالے کو معتبر جانتے ہوئے اسے پڑھا جا سکتا۔ میرا خیال ہے کہ میں نے ان کا نام بھی پہلی بار سنا ہے‘ اگرچہ انہوں نے لکھا ہے کہ عرصہ ہوا‘ میں نے ان کے ایک شعری مجموعے پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا‘ جو مجھے بالکل یاد نہیں ہے۔ انہوں نے کتاب کے سرورق پر رائے
صاحب کی تصویر چھاپنے کے ساتھ ساتھ اس کے پہلو میں اتنی ہی بڑی اپنی تصویر بھی شائع کی ہے جو پہلے نمبر پر ہے اور رائے صاحب کی دوسرے نمبر پر۔ کچھ اس سے بھی اس کتاب کی غرض و غایت کا پتا چلتا ہے۔ رائے صاحب کے کئی جاننے والے اور پروفیسر صاحب کے شاگرد ان رشید اس کتاب سے ضرور مستفید ہوں گے ورنہ عام آدمی کی دلچسپی کی کوئی چیز اس میں دستیاب نہیں ہوتی۔ پروفیسر صاحب نے فرمائش کی ہے کہ اس کتاب پر تبصرہ کر کے رسالہ الحمراء میں شائع کروائیں جسے وہ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ اگر وہ کوئی اور رسالہ یا اخبار بھی پڑھتے ہوں تو اس کا نام بھی بتا دیتے تاکہ وہاں بھی ان کے ارشاد کی تکمیل کر دی جاتی۔ اول تو جملہ رسالوں اور اخبارات کو خود ہی اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لینا چاہیے۔ اس تحفہ کتاب پر اپنی رائے کا اظہار مشکور حسین یاد‘ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی اور تنویر ظہور نے کیا ہے۔ اسے ''تسکین ذوق‘‘ لاہور نے چھاپا اور قیمت 500 روپے رکھی ہے۔
سونی چڑیا کانچ کا مقدر
یہ ڈاکٹر شاہدہ دلاورکے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ 16 کہانیوں پر مشتمل یہ کتاب گلبہار پشاور شہر نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ میں نے اس کی پہلی پانچ چھ کہانیاں پڑھی ہیں جن میں مجھے کوئی خاص بات نظر نہیں آئی ‘نہ ہی اس سے مجھے باقی کہانیاں پڑھنے کی ترغیب ہوئی ہے۔ پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ ہر کتاب یا تحریر اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے۔ اس کتاب نے میرے ساتھ یہ کام بھی نہیں کیا جبکہ کہانی کہنے کا اولین مقصد سننے یا پڑھنے والے کو متوجہ کرنا اور اس میں دلچسپی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ امید ہے ہمیں ان کی کوئی بہتر تحریر بھی پڑھنے کو ملے گی۔
یادگار زمانہ ہیں یہ لوگ
یہ خاکے ہیں جو ڈاکٹر انوار احمد نے لکھے ہیں جسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے شائع کر کے اس کی قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ ڈاکٹر
صاحب ایک مسلمہ اور ممتاز ادیب ہیں جنہیں ان کی دلآویز طرز تحریر کے حوالے سے ہم سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پکے ملتانی ہیں اور جن شخصیات کے یہ خاکے لکھے گئے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے ملتان کے ساتھ ضرور بنتا ہے۔ ملتان ایک قدیم شہر ہے اور اس کی ایک پوری تاریخ اور تہذیب ہے‘ چنانچہ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے ملتان کا پانی پیا اور مشہور ہو گئے اور جو اپنے طور پر مشہور نہیں ہو سکے انہیں ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس تصنیف لطیف کے ذریعے مشہور کر دیا ہے۔ مشہور ہو جانے والوں میں اصغر ندیم سید‘ عرش صدیقی‘ محسن نقوی‘ فرمان فتح پوری‘ ڈاکٹر سلیم اختر ‘ فتح محمد ملک و دیگران شامل ہیں۔ اگرچہ اس شہر کا پانی پینے والوں میں ہمارے دوست مسعود اشعر بھی شامل ہیں لیکن ان کا خاکہ ہمیں نظر نہیں آیا۔ البتہ ان کے نامور شاگرد بھی اس کتاب میں آنے کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہ گئے ہیں جن میں رئوف کلاسرا‘ عامر سہیل‘ ناصر عباس نیر اور قاضی عابد وغیرہ شامل ہیں جن کی خود بقول ڈاکٹر صاحب تعداد چالیس کے قریب ہے۔ خاکوں پر مشتمل کتابیں ایسے بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں اور صاحب تحریر کا ڈاکٹر انوار احمد ہونا ویسے بھی سونے پر سہاگا ہے جبکہ اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ لکھ کروہ پہلے ہی ایک بہت بڑا کام کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کے جن شاگردان رشید کا رسمی ذکر کتاب کی ابتداء میں پیش لفظ میں آیا ہے خود کتاب کے اندر ان کا ذکر کئی حوالوں سے کتاب کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔
کتابی سلسلہ 'پیلوں‘
یہ ڈاکٹر انوار احمد کا ایک اور کارنامہ ہے جس کے تین ذائقے ہیں یعنی اردو‘ پنجابی اور سرائیکی کہ ملتان سے شائع ہونے والے رسالے میں ملتان کی خوشبو تو ہونی چاہیے۔ اس کے معاون مدیروں میں ڈاکٹر سید عامر سہیل‘ محمد عارف‘ عمران میر اور سجاد نعیم شامل ہیں۔ یہ شمارہ نمبر 10 ہے اور اپریل تا جون 2015ء کو محیط۔ قیمت 250 روپے ہے۔ اس کے مہمان مدیر ڈاکٹر سلیم اختر ہیں جن کا اداریہ بطور مہمان اداریہ شامل ہے۔ حصہ مضامین میں ڈاکٹر مبارک علی‘ ڈاکٹر حسنین چودھری‘ محمد الیاس کبیر‘ رضا علی عابدی اور ڈاکٹر مزمل حسین نمایاں ہیں جبکہ افسانے اسلم انصاری‘ جتندر‘ محمد کاشف‘ حنیف‘ ڈاکٹر انوار احمد‘ اور جمشیدکے شامل ہیں‘معہ دو ترجموں کے۔ تبصرہ کتب ہے اور انشائیہ کے علاوہ رفتگاں کے سلسلے میں ڈاکٹر ارشد حاتم کا مضمون۔ شاعری اس کے علاوہ ہے۔ اسی طرح حصہ پنجابی اور سرائیکی میں بھی مضامین افسانے اور شاعری ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ پرچہ باقاعدگی سے اور بروقت شائع ہو رہا ہے۔
آج کا مطلع
مدت سے کوئی میرے بھی جیسا نہیں آیا
میں یونہی تو منظر پہ دوبارہ نہیں آیا