کبھی ہم نے سوچا ہے کہ درخت ہمارے لیے کس قدر اہم بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں؟ کیونکہ یہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں تو ہم سانس لیتے ہیں ورنہ فارغ۔ حسن عباسی کا کیا خوبصورت شعر ہے ؎
اگر میں سانس لیتا ہوں یہاں پر
تو اُس کی پُوری قیمت دے رہا ہوں
پھر یہ ہمیں پھل‘ پُھول‘ سایہ اور لکڑی فراہم کرتے ہیں جس سے تابوت سمیت ہمارا فرنیچر تیار ہوتا ہے، جو نہ صرف جلانے کے کام آتی ہے بلکہ اُسی سے کاغذ بھی بنتا ہے جو زیادہ تر ہم شعرائے کرام کی کتابوں کی اشاعت پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اسی سے ہمیں ڈنڈے اور لاٹھیاں میّسر آتی ہیں تاکہ ایک دوسرے کا سر پھاڑ سکیں‘ اگرچہ مولانا شیرانی صاحب نے مولانا طاہر اشرفی کا گریبان ہی کھینچنے پر اکتفا کیا کہ آخر کچھ آداب محفل بھی ہوتے ہیں۔ نیز‘ درخت زمین کا زیور ہیں مگر افسوس کہ ہماری خواتین انہیں پہن نہیں سکتیں۔ پھر‘ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر جنگل نہ ہوں تو شیر‘ چیتے‘ ریچھ اور بیچارے دوسرے خونخوار جانور کہاں جا کر رہیں۔ ناصر کاظمی کی ایک غزل کے شعر کا مصرع ثانی ہے ع
تھا کوئی آدمی درختوں میں
اسی موضوع پر ہم نے بھی کچھ عرض کر رکھا ہے جو کالم کے آخر پر حاضر کیا جائیگا۔
جناب ذاکر حسین ضیائی کی طرف سے جناب اختر عثمان کے کچھ تازہ اشعار ایس ایم ایس پر موصول ہوئے ہیں‘ آپ کی تواضع کے لیے پیش ہیں:
یہ عشق ہے، جنوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
یہ کاروبار یُوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
سینے کا سنگ ہے تو سنبھل کر سہارئیے
سچ کوہِ بے ستوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
کس کس جگہ ذلیل ہو کس کس جگہ ہو خوار
انسان یوں زبوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
مُدت ہوئی کہ بُھول چکا ہے غمِ فراق
اب سوزِ اندروں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
مصرع تراشتے ہو کہ جادو جگاتے ہو
ہم سے تو یہ فسوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
کچھ طے کرو تو چین سے گزرے گی زندگی
کن حسرتوں کا خُوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
اختر بس ایک عشق ہے وہ بھی بُجھا بُجھا
یہ شعلہ سبز کیوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
اور اب خود ستائی کے سلسلے میں اپنی غزلوں کے انتخاب ''ظفریاب‘‘ کے اندرون سرورق کی تحریر بقلم جناب اصغر ندیم سیّد:
''بلاشبہ ظفر اقبال نے اردو غزل کو جو وسعت اور فکری گہرائی عطا کی ہے، وہ ایک صدی پر محیط ہے۔ فنی کرشمہ سازی اور فکری نقش گری کے ایسے ایسے کمالات دکھائے ہیں کہ ذرا غور کریں تو ایک دُنیا میں کئی دُنیائیں آباد نظر آتی ہیں۔ ظفر اقبال کی غزل غیر معمولی معجزہ محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے کہ بظاہر مصرعوں کی سادہ ادائیگی کے باطن میں ایک جہان دیگر کئی پرتوں میں کُھلتا چلا جاتا ہے۔ جتنی آسانی سے وہ شعر کہتے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کوئی ایسی آگ ہے جو کئی طرح کے گلزار بناتی چلی جاتی ہے۔ ظفر اقبال کی شاعری کے کئی انتخاب کیے جا سکتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد اور موضوعاتی تنوّع نے جلال و جمال کی کیفیتوں کو سمندر جیسی وسعت عطا کر دی ہے کہ انتخاب کرنے والا اُس کی چکاچوند میں گھِر جاتا ہے۔ کس شعر کو پکڑیے اور کس کو چھوڑیے‘ ایک غزل سے دوسری غزل تک ایسا
تسلسل اور حسّیاتی بہائو ہمارا تجربہ بنتا ہے کہ اُس سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا ''آب رواں‘‘ جب سامنے آیا تو پُورا مجموعہ ایک اعلیٰ انتخاب کی مثال محسوس ہوا۔ ایک شعر بھی ایسا نہیں جسے غزل کا عجز قرار دے سکیں۔ جس شاعر کا مجموعہ ہی انتخاب ہو اُس کا انتخاب کیا معنی رکھتا ہے‘ پھر بھی دلاور علی آزر نے اُن کے کلام سے ایسا انتخاب پیش کیا ہے جو ظفر اقبال کی تخلیقی جہتوں کے ساتھ دلاور علی آزر کے ذوق کی بھی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔ میرے لیے اس انتخاب سے اپنا انتخاب کرنا ناممکن ہے۔ اس لیے میں کیا مثال دوں۔ ہر غزل بے مثال ہے۔ یہ ظفر اقبال کے قاری کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے کہ وہ اسے اپنی جیب میں رکھے یا سکہ رائج الوقت سمجھ کر ہاتھوں میں کھنکھناتا ہوا جائے۔ ظفر اقبال سے نیاز مندی کو چالیس پینتالیس سال ہونے کو آئے‘ اس عرصے میں انہیں کبھی خاموشی کے وقفے میں نہیں دیکھا۔ ایک مضطرب رُوح جو ہمہ وقت غزل کی دیوی کی سیوا میں مصروف رہتی ہے۔ ہر آن اُسے ایک نئی آن میں دیکھا۔ کبھی سیاسی زمانوں میں وہ ایک ناراض باغی کی طرح ردّعمل ظاہر کرتا ہے، کبھی معاشرتی و سماجی منافقت کے خلاف اپنا غصّہ ظاہر کرتا ہے۔ کبھی محبوب سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے پینترے بدلتا ہے۔ ایسا وفور کیسے ایک ہی شاعر میں سما سکتا ہے‘ ظفر اقبال ہمیں حیران کرنے میں مصروف ہے۔ دلاور علی آزر! ایک اور انتخاب کا سامان کرو۔ یار زندہ صُحبت باقی۔ ظفر اقبال سلامت رہیں۔‘‘
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے۔ اسے خود تو صیفی کہا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ نہیں اس لیے کہ یہ تعریف خود اپنی نہیں بلکہ کسی دوسرے کی زبان سے ہے۔ بہرحال‘ ظفر صاحب‘ آپ کان کو جس طرف سے بھی پکڑیں‘ بات تو ایک ہی ہے! لوگوں کو آپ اتنا بے وقوف بھی نہ سمجھیں! اور اب حسب وعدہ وہ درختوں والی غزل :
یہ انکار درخت ہیں
یا اقرار درخت ہیں
زرد ہیں اپنی خُوشی سے
یا بیمار درخت ہیں
اپنے تو اس دُھوپ میں
بس یہ چار درخت ہیں
آسمان پر اُگے ہُوئے
سدا بہار درخت ہیں
پَو سی پُھوٹ رہی ہے‘ کیا
صُبح آثار درخت ہیں
کافی ہیں اپنے لیے
جو دو چار درخت ہیں
دیتے ہیں سب کی خبر
کیا اخبار درخت ہیں
ایک قطار میں ہی ظفر
ڈیڑھ ہزار درخت ہیں
آج کا مقطع
ٹوٹے ہوئے مکاں کی ادا دیکھتے، ظفرؔ
سرسبز تھی منڈیر، کبوتر سیاہ تھا