لاہور سے شائع ہونے والا پندرہ روزہ ''براہ راست‘‘ جو حافظ عمرفاروق کی ادارت میں جاری کیا گیا ‘اپنی طرز کا واحد اور منفرد جریدہ ہے جو اسرائیل کی چیرہ دستیوں کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے‘ اس لئے اسے محض ایک رسالے کی بجائے ایک تحریک اور مشن کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس کے تازہ شمارے کے مضامین کی سرخیاں قابل غور ہیں جو کچھ اس طرح سے ہیں: اسرائیل حامی مغربی میڈیا کیا کر رہا ہے؟ امریکی میڈیا کا تعصب: اسرائیل ہی اچھا ہے۔ امریکہ داعش کا یرغمالی یا اسلامی دہشت گردی کا واہمہ۔ نسل پرستی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے۔ اسرائیل کی سپورٹ...کس بنیاد پر؟ فلسطین اسرائیل تنازعہ‘ سوشل میڈیا کی اہمیت۔ فلسطین کے شہری ڈھانچے کی تباہی کی کہانی۔ ری پبلی کن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ...ڈمپ۔
اس کے علاوہ وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی۔ حقوقِ انسانی کے ہائی کمشنر کی جانبداری۔ 891 نئی یہودی رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا اعلان۔ مسجداقصیٰ تنہا کرنے کی سازش‘ حماس کا امتحان‘ مقصد و عمل کی ہم آہنگی۔ الین بی سرحد... سفرنامہ۔ شکنجۂ یہود‘ جبکہ ٹائٹل پر جمائی گئی سرخیاں اس طرح سے ہیں: مسجد اقصیٰ‘ قبلہ اول اور بھی تنہا۔ اسلامی تحریک فلسطین خلافِ قانون قرار۔ حرم شریف کا دفاع کون کرے گا؟ اسلامی دہشت گردی کا پرچار کرنے والے دنیا کو خوف میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں۔ درپردہ مقاصد‘ چشم کُشا انکشافات۔ امریکی ذرائع ابلاغ فلسطینیوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ اسرائیل میں سب اچھا کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ میڈیا ٹرائل کی کہانی‘ حقائق کی زبانی۔
پسِ سرورق فلسطین کا نقشہ شائع کیا گیا ہے جس میں فلسطین سرحد کی لمبائی اس طرح ظاہر کی گئی ہے:
اُردن کے ساتھ... 360 کلومیٹر
شام کے ساتھ...70 کلومیٹر
لبنان کے ساتھ...79 کلومیٹر
مصر کے ساتھ... 216 کلومیٹر
سمندری ساحل کے ساتھ...226کلومیٹر
علاوہ ازیں ساتھ ہی یہ اطلاع بھی درج ہے کہ انتفاضہ القدس کے آغاز سے اب تک اسرائیل 65 فلسطینی شہدا کے جسدِ خاکی واپس کرنے سے انکاری ہے۔ ان میں گیارہ شہدا نابالغ بچے تھے۔ یہ اسرائیلی مرکز معلومات بڑے انسانی حقوق ''تسلم‘‘ کے مطابق ہے۔ اندرون سرورق تصاویر اور کارٹون ہیں جبکہ 34 صفحات پر مشتمل اس پرچے کی قیمت 40 روپے ہے۔
پچھلے ویک اینڈ پر تینوں بھائی اویس‘ جنید معہ آفتاب اکٹھے تھے۔ رات کا قیام بھی فارم ہائوس پر ہی رہا۔ آفتاب نے کھانے کا خصوصی انتظام کر رکھا تھا جس کی افسوسناک تفصیل کچھ اس طرح سے ہے‘ پہلے تلور کے سوپ سے بھی استفادہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ تلور کا گوشت کچھ ایسا لذیذ نہیں ہوتا۔ عام طور پر اس کا سوپ ہی استعمال ہوتا ہے۔ جسم میں گرمی اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ شیوخ اور شہزادے اسے قوۃِ باہ کے لیے استعمال کرتے ہیں؛ چنانچہ اس کی گرمی رفع کرنے کے لیے انگور کھائے گئے۔ کھانے میں تیتر‘ بٹیر‘ دیسی چکن‘ مٹن قورمہ‘ ساگ‘ تنور کی کڑک روٹی۔ موسمبی کا جوس‘ سوفٹ ڈرنکس‘ چائے اورقہوہ۔ کھاتے وقت شرم بھی آ رہی تھی کہ یہ کھلا اسراف تھا جس سے منع کیا گیا ہے جبکہ ایک تلور کی قیمت 3500 روپے‘ ایک تیتر کی ساڑھے سات سو اور بٹیر کوئی سو روپے کا۔ حساب لگایا جائے تو اس کے مساوی رقم سے سو ڈیڑھ سو افراد کو ٹھیک ٹھاک کھانا کھلایا جا سکتا تھا۔ شرم آ بھی رہی تھی اور واقعتاً آئی بھی نہیں‘ بقول مظفر بخاری ؎
شرم آتی نہیں شرم کی بات ہے
کیونکہ شرم اگر واقعی اور مناسب مقدار میں آئی ہوتی تو احتجاج کرتا
اور کھانے کا بائیکاٹ کرکے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتا لیکن اس کے لیے خلاقی جرأت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگرچہ یہی من و سلویٰ ہے جس کی عادت اپنی مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی ڈالی تھی۔ واضح رہے کہ بٹیر سے مراد ہائی بریڈ بٹیر نہیں جن کی فارمنگ بھی کی جاتی ہے‘ بلکہ فصلوں سے پکڑا ہوا قدرتی بٹیر جبکہ تیتر آفتاب خود ہی ہر ہفتے شکار کر لاتا ہے۔ میرا گوشت کھانے کا موڈ نہیں تھا اس لیے میں نے ساگ ہی پر اکتفا کیا جو اپنے طور پر ایک بہت بڑی موسمی نعمت ہے؛ چنانچہ میرے لیے آفتاب نے سات بٹیر اور ایک تیتر الگ رکھوا لیے۔ تیتر اور بٹیر بلکہ ہر شکار کا گوشت بھون کر ہی پکایا جاتا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ ان کا پتلا شوربا زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کا سارا ذائقہ اور خوشبو تو شوربے ہی میں جادو جگاتی ہے۔ بشرطیکہ انہیں خوب گلایا جائے۔ میں ایک تیتر سے تین دن نکال جاتا ہوں کیونکہ رات کو سلائس اور سبزی جبکہ دوپہر میں چھوٹی سی چپاتی ہوتی ہے جس کے لیے تیتر کو تین حصوں میں تقسیم کر لیتا ہوں‘ یعنی اس کی ٹانگیں اور باقی دو دن آدھا آدھا سینہ۔ بظاہر یہ غیر سنجیدہ اور ناقابل یقین سی بات ہے لیکن حقیقت حال یہی ہے کیونکہ اب اس سے زیادہ کھایا بھی نہیں جا سکتا اور اتنے ہی سے سیری ہو جاتی ہے‘ جہاں تک بٹیر کا تعلق ہے تو وہ میرے لیے ایک ہی کافی ہوتا ہے۔
اور اب ہمارے دوست مقصود ثاقب کی زیرادارت کوئی 17 سال سے شائع ہونے والے واحد معیاری پنجابی رسالے ماہوار ''پنچم‘‘ کے تازہ شمارے میں چھپنے والی زاہد مسعود کی یہ نظم:
نویں مُشکل
کل دیاں کُڑیاں... سانوں راہ نہ دیون...بال ایانے... اُکا گل نہ منن... نویاں گلاں‘ نویاں کھیڈاں‘ نویاں نیں ایجاداں... کٹھے بہہ کے اک مک ہونا... ہسدیاں ہسدیاں رونا... وچھڑن والے کسراں ملدے‘ ای میل نہ کھلی ... ایس ایم ایس تے ہاڑے سن کے... کوئی نہ نیڑے آیا... جو آیا سی کلم کلا اوہنے کلیاں جانا‘ پرچھتی دے بھانڈے نوں ہن... کیہنے قلعی کرانا!
اوکاڑہ‘ بلکہ اپنے گائوں جانے کو بہت جی چاہتا ہے‘ وہ گھر دیکھوں جہاں میرا بچپن گزرا‘ ماں باپ کی چھترچھائوں تلے۔ اپنے فسٹ کزن اور بہنوئی میاں خالد مسعود سے ملوں جو بینائی کے مسائل سے دوچار ہیں۔ کبھی ہمت کرکے چلا ہی جائوں گا۔ شہر کے دوستوں کا بھی بہت دیر سے تقاضا ہے کہ ملاقات کو بہت دیر ہوگئی ہے‘ خاص طور پر مسعود احمد‘ دیگر شعراء‘ پریس کلب اور بار ایسوسی ایشن کے ساتھی‘ پچھلے دنوں اسلم طاہرالقادری ایڈووکیٹ نے وعدہ بھی کیا تھا کہ ڈاکٹر ظفرالطاف‘ جو ہمارے مشترکہ دوست تھے‘ پر اپنی تحریر بھیجیں گے جو میں مہمان کالم کے طورپر چھاپ لوں گا‘ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اویس آتا جاتا رہتا ہے‘ اس کا بھی اصرار ہے کہ کبھی ادھر کا بھی چکر لگائیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہی کسی دن کھینچ لے جائے گا۔ دنیا امید پر قائم ہے اور میرے حوصلے پر بھی۔
آج کا مطلع
ترے راستوں سے جبھی گزر نہیں کر رہا
کہ میں اپنی عمر ابھی بسر نہیں کر رہا