پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جو کھلواڑ اردو زبان کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے‘ اس کے بارے واویلا پہلے بھی بہت کر چکا ہوں۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ چونکہ یار لوگ شعرو شاعری پر کرم فرمائی لازمی طور پر کرتے ہیں چنانچہ شعر درج کریں گے تو وہ اکثر اوقات بے وزن ہو گا۔ حتیٰ کہ اگر اپنے کالم کا سر نامہ کسی مصرع کو بناتے ہیں تو وہ مصرع بھی خارج از وزن ہوتا ہے۔ بیشک یہ ضروری نہیں کہ ہر کالم نگار عروض سے بھی واقفیت رکھتا ہو‘ تاہم ایسی صورت میں اسے اشعار یا مصرعے نقل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کہ یہ بجائے خود شعر کی توہین کے مترادف ہے۔
دوسری صورت الفاظ کی غلط ادائی ہے ۔ اکثر اینکر حضرات کو ایسے کمالات میں مصروف پایا گیا ہے۔ اور عام الفاظ بھی غلط تلفظ کے ساتھ ادا ہوتے ہیں۔ مثلاً ٹَول ٹیک کو ٹُول ٹیکس۔ خود کُش کو خودکَش اور بہ یک وقت کو بیک وقت کہہ رہے ہوں و علیٰ ہذا القیاس۔ زبان کی اس درگت بننے سے صرف اس صورت بچا جا سکتا ہے کہ ہر اخبار اور چینل میں ایک ایک ایسا آدمی بھی ضرور تعینات ہونا چاہیے جو فنِ عروض سے مناسب حد تک واقف ہو ورنہ اچھی بھلی زبان کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کی اصلاح ممکن نہیں رہے گی۔ سو‘ جہاں بڑے بڑے جغا دری افراد کو ان کمالات میں مشغول پایا گیا ہے وہ بجائے خود انتہائی افسوسناک تو ہے ہی لیکن اگر محبّی انتظار حسین جیسی ثقہ شخصیت ایسا کرنے لگے اور ان میں شامل ہو جائے تو بہرحال یہ ایک صدمے سے کسی طور کم نہیں ہے۔ صاحبِ موصوف نے مورخہ8جنوری کو اپنے کالم''بندگی نامہ‘‘ میں ''ماتمِ یک شہرِ آرزو‘‘ کے
عنوان سے اپنے کالم میں ایک جملہ اس طرح لکھا ہے کہ ''باقی بہتّر کے بہتّر سب کے سب کافر‘ قابلِ گردن زدنی‘‘ ۔اس میں قابلِ گردن زدنی کی ترکیب محلِ نظر ہے کیونکہ گردن زدنی ہی کا مطلب گردن مارنے کے قابل ہے‘ اس لیے اس کے ساتھ قابل یا لائق لگانا سراسر غلط ہے۔ چنانچہ یہ ''قابلِ گردن زدن‘‘ تھا جسے مختصر کر کے فارسی کے علمائے زبان نے اسے ''گردن زدنی‘‘ بنا دیا۔ اسی طرح ''گفتنی‘‘ کا مطلب ہوا کہنے کے قابل‘ کردنی کا مطلب کرنے کے قابل اور ''کُشتنی‘‘ کا مطلب ہوا مارنے کے قابل‘ یعنی فعل کے ن کے ساتھ ی لگا دینے سے سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انتظار حسین جیسی شخصیات سے تو ہم زبان سیکھتے چلے آئے ہیں‘ یعنی اگر گرو ایک غلطی کرے گا تو چیلا دس غلطیاں کرے گا جبکہ ایسے ہر غلطی کرنے والے کے پاس انتظار حسین کی مثال اور سند بھی ہو گی۔
جہاں میں رہتا ہوں میرے ہم سفر پیڑ اور پرندے ہی ہیں‘ ان میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو میرے اندر بھی کمی بیشی سی ہونے لگتی ہے۔ گھر سے باہر نکلنے کا موقع بھی شاذ ہی ملتا ہے‘ اگرچہ مواقع تو بہت ہوتے ہیں لیکن اپنے محدودات کے باعث اکثر اوقات معذرت کر دیتا ہوں ۔ لوگوں سے ملنا جُلنا ہی موقوف یا نہ ہونے کے برابر رہ جائے تو کالم کے لیے فیڈ بیک کہاں سے ملے گا۔ چنانچہ اگر میں اپنا ‘ اپنے ماحول اور اپنے بچوں کا ذکر کر دیتا ہوں تو میری ایک مجبوری یہ بھی ہے۔ اور گھریلو باتیں اس لیے در آتی ہیں کہ میں اپنے قارئین کو بھی گھر کے آدمی ہی سمجھتا ہوں۔ اس کے علاوہ جو اتنی جھک میں نے مار رکھی ہے تو زیادہ تر لوگ اس میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں کہ میرا خاندان کیا ہے‘ میں کھاتا پیتا کیا ہوں‘ میری پسند و ناپسند کیا ہے‘ میں پہنتا اوڑھتا کیا ہوں‘ وغیرہ وغیرہ‘ ویسے بھی‘ ایسے کالم میری خود نوشت سوانح کا حصہ ہیں اور یہ سب کچھ میں اپنی مشہوری کے لیے نہیں کرتا۔ کیا مجھے ابھی اور مشہور ہونا ہے؟ میں اگر اپنے بچوں کا ذکر کرتا ہوں تو مثلاً کیا آفتاب کو ابھی اور مشہور ہونے کی ضرورت ہے جو مجھ سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ میرے تینوں بیٹے ماشاء اللہ اپ رائٹ اور خدا ترس ہیں حالانکہ میں ایسا ہرگز نہیں تھا!
پچھلے دنوں راجن پور میں چند ہی دنوں کے اندر 40مور کسی پراسرار بیماری سے مر گئے ۔ان کا نوحہ لکھنا بھی مجھ پر واجب تھا۔ کسی حکومتی اہلکار نے اس کی خبر نہیں لی۔ نہ ہی اس بیماری کے بارے میں کوئی کھوج لگانے کی کوشش کی گئی۔ اس نقاشِ ازل نے اس کے پروں پر جو گل و گلزار کھلا رکھے ہیں ان کی تعریف کے لیے الفاظ کہیں اور سے لانا پڑیں گے۔ جنگلی حیات کے حوالے سے ہمارا جو عمومی رویہ ہے پہلے ہی ناگفتنی ہے۔ اور‘ اب آخر میں جناب مظفر بخاری کی ایک غزل ملاحظہ ہو جو انہوں نے بقول خود مجھ سے انسپائر ہو کر لکھی ہے‘ اگرچہ اس میں انہوں نے کوئی مرچ مسالہ نہیں ڈالا بلکہ سیدھی سادی غزل ہے‘ حالانکہ مجھ سے انسپائر وہ میری اور طرح کی شاعری سے ہوا کرتے ہیں:
دعائیں بہت ہیں
دوائیں بہت ہیں
نئے آسماں پر
گھٹائیں بہت ہیں
پروبال نشتہ
فضائیں بہت ہیں
سماعت کو ترسی
صدائیں بہت ہیں
کہاں راکھ رکھوں
ہوائیں بہت ہیں
پس پردۂ شب
بلائیں بہت ہیں
محبت سے خالی
ادائیں بہت ہیں
مزید لکھتے ہیں کہ ''میں نے یہ اشعار آپ کی تعریف میں نہیں لکھے‘ اس لیے کہ تعریف قصداً کی جاتی ہے۔ یہ شعر تو غیب سے آئے ہیں‘ فرشتے کی آواز کی طرح۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ فرشتہ جھوٹ نہیں بولتا۔ غالباً غالب نے اپنی شاعری کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہی اسے نوائے سروش قرار دیا ہے۔
آپ کی وہ شاعری جسے آپ نے معمولی لکھا ہے میرے نزدیک غیر معمولی ہے۔ معمولی شاعری تو وہ معمول کی شاعری ہے جو شعراء سارا سال کرتے ہیں اور ہم سارا سال پڑھتے ہیں...‘‘ ع
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
کشور ناہید نے اپنے تازہ کلام میں منیر نیازی کا یہ مصرع ع
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
میرے کھاتے میں ڈال دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پھر سے جوان ہو رہی ہیں کیونکہ جوانی ہی میں دل و دماغ میں جذبات اور جُملوں مصرعوں کا ایسا گھڑمس مچا ہوتا ہے کہ کچھ پتا نہیں چلتا کس نے کیا کہہ رکھا ہے...
سعدی آں نیست ولے چوں تو بگردانی ہست
موصوفہ کو جو میرا ایک ہی مصرعہ یاد تھا وہ بھی منیر نیازی کا تھا جیسا ایک بار کسی ستم ظریف نے کہا تھا‘
افسوس کہ ماسٹر علم دین کا چوتھا بیٹا بھی شاعر نکلا!
آج کا مقطع
یہی ہے فکر کہیں مان ہی نہ جائیں، ظفرؔ
ہمارے شعبدۂ فن پہ گفتگو ہے بہت