یہ پرچہ ہمیں کُچھ عرصے سے موصول ہو رہا ہے جو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کا ترجمان ہے اور اس درجہ کی سرکاری کارروائیوں‘ رپورٹس اور تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے‘ اس لیے ادبی رسالوںکے ہجوم میں کبھی توجہ کا مستحق نہیں ٹھہرا۔ تاہم‘ اس کے تازہ شمارے کی ورق گردانی کے دوران اس میں کچھ ایسی تحریریں بھی نظر آئیں جو قارئین کی دلچسپی کا باعث بن سکتی ہیں۔ پرچے کے پہلے صفحے پر درج ایک نوٹ کے مطابق یہ میگزین سرکاری و نجی دفاتر میں اعزازی طور پر تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کی جاتی۔ پرچے کے پہلے صفحے کی پیشانی پر ایڈیٹر ڈاکٹر ندیم گیلانی درج ہے جبکہ اس کے نیچے ہی جلی حروف میں ایڈیٹر سید ندیم الحسن گیلانی درج ہے۔ غالباً اس سے وضاحت مقصود تھی کہ ڈاکٹر صاحب سیّد ہیں اور پورا نام ندیم الحسن ہے۔ اسی طرح اگر یہ بتایا گیا ہے کہ پرچہ اعزازی طور پر بھیجا جاتا ہے تو اس کے ساتھ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کی جاتی۔
اس کے جستہ جستہ مضامین میں الحمراء عالمی ادبی کانفرنس کی مختصر روداد ہے جو صبح صادق نے لکھی ہے۔ آغا شورش کاشمیری پر ان کے صاحبزادے مشہود شورش کا مضمون ہے۔ اقبال راہی صاحب نے اس ماہ کی شاعرہ کے طور پر تمثیلہ لطیف کا تعارف کرایا ہے۔ تاریخ لاہور کے عنوان سے سید محمد لطیف کا مضمون ہے جو قدیم عمارت گڑھی شاہو کے بارے میں دلچسپ تحریر ہے کہ یہ گڑھی یا قلعہ میاں میر کی
سڑک پر شمال کی جانب سید جان محمد حضوریؒ کے مقبرے کی مخالف سمت میں واقع ہے۔ اس کے بانی بخارا کے عالم‘ فاضلِ تحصیل ابوالخیر تھے جو شاہجہاں کے دور میں لاہور میں آباد ہو گئے تھے اور تقریباً سو برس کی عمر میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہوئے۔ انہوں نے عربی کی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ قائم کیا جس کے گرد ایک بلند دیوار ہے۔ اس میں طلباء اور اساتذہ کے قیام و طعام کے لیے حجروں کی قطاریں بھی تعمیر کرائیںِ‘ یہ کمرے جن کی چھتیں پختہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں بڑا ٹھوس کام ہے اور یہ آج تک قائم و دائم ہے۔ اس مدرسہ کے ساتھ انہوں نے گڑھی کے انتہائی جنوب کی طرف مسجد تعمیر کرائی۔ اس جگہ کو اس کے بانی کے نام پر خیر گڑھ کہا جانے لگا۔ سکھوں کے اولین دور حکومت میں گڑھی کے مسلمان امراء نے ایک رہزن ''شاہو‘‘ کی وجہ سے اس علاقے کو خالی کر دیا جس نے گڑھی پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی وقت سے یہ جگہ ''شاہو کی گڑھی‘‘ کہلانے لگی۔ شاہو کی موت کے بعد مسلمانوں نے دوبارہ اس جگہ پر قبضہ کر لیا لیکن اس جگہ کو بعد میں بھی ڈاکو کے نام کی وجہ سے شاہو کی گڑھی ہی کہا جاتا رہا جس پر اس نے زبردستی قبضہ جما لیا تھا۔ ''لاہور کے اہل قلم کا تذکرہ‘‘ کے عنوان سے ایم آر شاہد نے ممتاز نظم گو ایوب خاور کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
معروف شاعر‘ ڈرامہ نگار‘ افسانہ نویس اور ٹی وی کے پروڈیوسر ایوب خاور اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرا تعلق فوجی خاندان سے ہے۔ میں پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ میرے دادا جان اور میرے والد سب فوج میں رہے ہیں۔ مگر یہ لوگ فوج میں کسی بڑے عہدے پر نہیں رہے کیونکہ یہ لوگ کم پڑھے لکھے‘ چھوٹی سی زمینداری کرنے والے لوگ تھے۔ میرے والد نے دو شادیاں کی تھیں۔ ایک فوج میں جانے اور جاپان کی قید سے رہائی پانے کے بعد اور ایک میرے پیدا ہونے کے ڈھائی سال بعد‘ وہ اس وقت چکلالہ میں آن ڈیوٹی تھے جب وہ دوسری شادی کر کے کراچی آئے۔ اس وقت میں میرے دادا‘ اور میری ماں اپنے آبائی گھر کے اُجڑے ہوئے سناٹے میں تنہا تھے۔ میں نے پانچویں کلاس ہی سے گائوں کے پیشہ ور مزدوروں کے ساتھ چکوال کی ڈویلپمنٹ میں حصہ لیا۔ ہر اتوار کو ان پیشہ ور مزدوروں کے ساتھ مکانوں کی تعمیر میں مزدور کے طور پر حصہ لیتا تھا۔ بس میرا بچپن ایسا ہی گزرا۔ بعد میں والد صاحب نے کراچی بلا لیا۔ چھٹی جماعت سے ماسٹرز کرنے تک کراچی میں رہا۔ اپنی ماں کے بغیر ریڈیو کے ڈرامے سننے اور صدا کاری کا شوق تھا۔ جب کالج میں آیا تو ریڈیو کے پروگرام میں حصہ لینے لگا۔ وہاں سے جو چھوٹے چھوٹے چیک ملتے تھے اُن سے فیس ادا کرتے ہوئے ماسٹرز کیا۔ ایک سکول میں 70 روپے کی نوکری بھی کی۔ چھٹی جماعت میں ایک قطعہ بھی کہا تھا جس کا ایک مصرع اب بھی یاد ہے ع
یہاں جس کا بھی بس چلتا ہے اس کی حکمرانی ہے
ماسٹرز اُردو ادب میں کیا۔ اپنے وقت کے منفرد ریڈیو پروڈیوسر اور اچھوتے شاعر قمر جمیل کی محبت نصیب ہوئی۔ سلیم احمد مرحوم کی قربت نے بھی میرے ادبی شعور کی تہذیب کی۔ انہی کی گفتگو سے متاثر ہو کر عسکری صاحب کے مضامین پڑھے۔ ادب کی جدید تر روایت سے قمر جمیل نے آشنائی کرائی۔ بہترین صداکار طلعت حسین کو بھی ان کی محفل میں دیکھا۔ سب سے بڑھ کر مجنوں گورکھپوری صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔
اس کے علاوہ میرے دوست‘ کولیگ اور معروف شاعر ظفر علی راجا (ایڈووکیٹ) کی نظم بعنوان ''مقبرہ انارکلی‘‘ اور طرحدار شاعر ناصر بشیر کی نئے سال کی غزل :
مُسکراتا جنوری‘ روتا دسمبر لے گیا
اک کباڑی آج ردّی میں کیلنڈر لے گیا
موسم گل‘ سردیوں کی دُھوپ‘ راتیں ہجر کی
چند سکوّں کے عوض سب کُچھ ستم گر لے گیا
برگِ زردِ وخُشک‘ خار وخس چمن میں رہ گئے
گُل فروشِ وقت سارے پُھول چُن کر لے گیا
مُجھ کو بیاسارکھ کے شاید پیاس اس کی بُجھ گئی
اپنا صحرا دے گیا‘ میرا سمندر لے گیا
اب کے اُس کی مہربانی کے عجب انداز تھے
جُبّہ و دستار دے کر شانہ وسر لے گیا
اُس نے جب تاریکیوں کی بات کی ناصر بشیر
چاند دکھلانے اُسے میں گھر کی چھت پر لے گیا
ناصر بشیر ایک اخبار کے ادبی ایڈیشن کے انچارج ہیں اور ان کی سب سے بڑی صفت یہ کہ کسی ادیب کے رحلت کر جانے کی خبر سب سے پہلے انہی کے ذریعے ملتی ہے۔ ان کا فون آتے ہی دل دھک دھک کرنے لگتا ہے کہ کوئی افسوسناک خبر ہی دیں گے ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد ہے
آج کا مطلع
یہ شہر شام کے سانچے میں ڈھلنے والا تھا
جب ایک اور ہی سورج نکلنے والا تھا