سید انیس شاہ جیلانی کی تصنیف لطیف ''آدمی غنیمت ہے‘‘ کے جو اقتباسات قسط وار پیش کیے جاتے ہیں‘ قارئین کی طرف سے ان کے لیے تعریفی فون مجھے آتے ہیں جبکہ یہ تعریف خود انہی کو سزاوار ہے‘ اس لیے ان کا موبائل نمبر درج کر رہا ہوں جو 0302-7642395 ہے تاکہ ان کے ساتھ براہ راست رابطہ کیا جا سکے۔
گزشتہ قسط میں انہوں نے سفرناموں کی جو فہرست دی ہے ‘ان میں عطاء الحق قاسمی کے سفر نامے اور بیگم اختر ریاض الدین کی کتاب ''سات سمندر پار‘‘ درج نہیں تھی جو مجھے بہت اچھی لگی تھی۔ آپ مولانا صلاح الدین احمد کی بھتیجی ہیں‘ جن کے انتقال پر انہوں نے ''چاصلا‘‘ کے عنوان سے مضمون بھی لکھا تھا جو اصل میں ''چچا صلاح‘‘ تھا جو کثرت استعمال سے گھس گھسا کر ''چاصلا ‘‘ رہ گیا۔ 1966ء میں جب میں ''پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی‘‘ اسلام آباد میں پروگرام ایگزیکٹو تھا تو ہمارے ایک پروگرام میں وہ بھی تشریف لائی تھیں۔ یہ نوکری میں چھ ماہ سے زیادہ نہ کر سکا کیونکہ اس کی ایم ڈی مسز احمد کے ساتھ اپنی کچھ بن نہ آئی اور میں استعفیٰ دے کر واپس اوکاڑہ آگیا۔ شہزاد احمد مجھ سے پہلے ہی اس ادارے میں تھے جس کے ایم ڈی ضیاء جالندھری تھے۔ ضیاء صاحب نے ہی میرا انٹرویو لیا اور بتایا تھا کہ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے آبِ رواں پر تبصرہ کیا تھا۔
لیکن چھ ماہ کی اس مختصر مدت میں ان شخصیات سے بھی ملاقات رہی جن سے تعلق محض غائبانہ تھا اور جن میں سے کئی حضرات اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ مثلاً عبدالعزیز فطرت‘ باقی صدیقی‘ شورش ملک
اور منصور قیصر‘ شاید افضل پرویز بھی۔ ان کے علاوہ جن کے ساتھ ربط و ضبط رہا‘ ان میں امین راحت چغتائی‘ لطیف الفت‘ توصیف تبسم‘ احمد ظفر‘ نثار ناسک‘ جمیل ملک‘ صادق نسیم اور کئی دوسرے۔ خدا کرے صادق نسیم حیات ہوں‘ زہرہ بھابی تو کب کی گزر چکیں۔ منو بھائی بھی ان دنوں راولپنڈی ہی میں غالباً روزنامہ ''تعمیر‘‘ میں لکھ رہے تھے۔ انہی دنوں ''گلافتاب‘‘ شائع ہوئی تو اس کے لیے ایک تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں منوبھائی نے بھی مضمون پڑھا جس میں انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں ٹیلی گراف زبان استعمال کی گئی ہے۔ ایک خاتون نے بھی بہت اچھا مضمون پڑھا جن کا نام بھول گیا ہوں‘ اتنا یاد ہے کہ کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا اور وہ مضمون انہی دنوں ''فنون‘‘ میں شائع بھی ہوا تھا۔ شورش ملک ان دنوں ایک اخبار (جنگ) کے مقامی ایڈیٹر تھے۔ ان سے عموماً شام کو ملاقات ہوتی۔ وہ بیئر کی ایک بوتل خریدتے جس سے اشتہا انگیزی یعنی ایپی ٹائزر کا کام لیا جاتا اور لیاقت باغ کے سامنے ایک ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ کئی سال بعد راولپنڈی میں جانا ہوا تو میں انہیں ملنے چلا گیا تو انہوں نے دراز میں سے میری ایک تصویر نکال کر دکھائی جو انہوں نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔
باقی صدیقی کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا‘ معلوم ہوا کہ ایک مضافاتی گائوں میں رہائش رکھتے ہیں۔ وہاں ان سے ملنے چلا گیا۔ ایک کچا سا صاف ستھرا گھر تھا جس میں شاید وہ اکیلے رہائش پذیر تھے۔ اُسی زمانے کی ان کی ایک نظم تھی جو شاید اس طرح سے تھی:
گڈی لنگھ گئی
پچھے رہ گیا
شاں شاں کردا ٹیشن
صحت بہت کمزور تھی۔ جلدی ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
اوپر مولانا صلاح الدین احمد کا ذکر آیا ہے۔ جب میں گورنمنٹ کالج میں زیرتعلیم تھا۔ مال پر ان کا دفتر تھا‘ فسٹ فلور پر‘ جس پر ''اکادمی‘‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ہم لوگ اسے ''ایک آدمی‘‘ پڑھا کرتے کیونکہ مولانا تنہا ہی اپنے رسالے ''ادبی دنیا‘‘ کو چلا رہے تھے جو وہ وہاں سے نکالتے تھے۔ ایک دن میں ہمت کرکے اوپر چلا گیا۔ تعارف کرایا تو بہت خوش ہوئے اور بولے‘ مولانا‘ پچھلے دنوں ''امروز‘‘ کے سنڈے ایڈیشن میں جو آپ کی غزل شائع ہوئی ہے‘ کیا مجھے لکھ کر دے سکتے ہیں؟ میں نے خوشی خوشی بڑی بنا سنوار کر لکھی اور انہیں پیش کردی جسے دیکھ کر فرمایا:
''مولانا‘ آپ کی شاعری چلے نہ چلے‘ کتابت ضرور چل جائے گی!‘‘
میری رہائش وہاں ایک مضافاتی بستی ''ڈھیری حسن آباد‘‘ میں تھی جہاں سے دفتر پیدل بھی آیا جایا جا سکتا تھا۔ صادق نسیم جو ایک عمدہ شاعر بھی تھے‘ ان سے اکثر ملاقاتیں رہتیں۔ وہاں سے آ کر میں نے یہ شعر بھی لکھا جو میرے ایک مجموعے میں شامل ہے: ؎
میدانِ دوستی کا بھگوڑا ہے‘ کیا کہیں
صادق نسیم فوج میں کپتان ہے تو کیا
پنڈی ہی کے قیام کی یاد میںیہ شعر بھی ہوا ؎
کب تک رہے یہ صبر و سکوں‘ دیکھیے ظفرؔ
پنڈی کے دوستوں کو بھلایا ہوا تو ہے
لطیف الفت کے ساتھ یاد اللہ پرانی تھی کیونکہ کئی برس پہلے وہ اوکاڑہ کے مقامی کالج میں لیکچرر رہ چکے تھے۔ ان کے ساتھ کبھی کبھار رابطہ اب بھی رہتا ہے۔ منصور قیصر بڑے کام کے آدمی تھے اور پروگراموں کے سلسلے میں مجھے قیمتی مشورے بھی دیتے اور ضروری معلومات بھی۔ افسوس کہ جوانی ہی میں فوت ہوگئے۔ ان دنوں میرے ادبی کالم کا عنوان ''سوء ادب‘‘ ہوا کرتا تھا جس کے بارے میں وہ کہا کرتے کہ دراصل یہ 'سوء‘ نہیں''سوئے‘‘ہیں جنہیں وہ ہر کس و ناکس کو چبھوتے رہتے ہیں! ایسے خوشگوار آدمی کو اتنی جلدی نہیں مرنا چاہیے تھا۔ خود بھی افسانے اور طنزیہ مضامین لکھتے تھے۔
واپسی پر ہمیں الوداعی کھانا امین راحت چغتائی اور ضیا صاحب نے دیا۔ افسوس کہ فرحت بھابی کے ساتھ ضیاء صاحب کی تعزیت بھی نہ کر سکا کہ ان دنوں بیمار بھی تھا اور میرے پاس ان کا رابطہ نمبر بھی نہیں تھا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کو بھی ایک زمانہ گزر چکا تھا اور سرور سکھیرا‘ جو وہاں سے اپنا شہرہ آفاق رسالہ ''دھنک‘‘ نکاتے تھے‘نے انہی دنوں شرارتاً ایک شمارے میں اس مضمون کا اشتہار چھاپا کہ ''دھنک‘‘ کا اگلا شمارہ ''جالندھر‘‘ نمبر ہوگا۔ یاد رہے کہ ضیاء صاحب کے علاوہ جنرل ضیاء اور بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دینے والے چیف جسٹس بھی جالندھری تھے۔ بات سید انیس شاہ جیلانی سے شروع کی تھی۔ ختم بھی انہیں پر کرتا ہوں کہ ''آدمی غنیمت ہے‘‘ مکمل ہوتی ہے تو ان کی ایک اور لاجواب تصنیف ''سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ کا تفصیلی تعارف بھی اسی طرح پیش کیا جائے گا۔ یہ سفر انہوں نے اپنے یارغار رئیس امروہوی کے ساتھ کیا تھا اور موصوف کے بارے میں ایسی ایسی مزیدار باتیں بتائی ہیں کہ باید و شاید۔ع
یار زندہ محبت باقی
آج کا مقطع
دشمن کے ظفر دوست ہیں اور دوست کے دشمن
اب آن کے پختہ ہوا کردار ہمارا