نثری نظم کے بے مثال شاعر اور جدید شاعری کے نقاد ابرار احمد نے اگلے روز مجھے میسیج کیا کہ:
Sir, You are Undoubtedly an Unprecedented Phenomena Amazing Indeed.
جب آپ کھل کر کسی کی تعریف کریں تو اس میں مبالغے کا امکان بھی رہتا ہے۔ بہرحال‘ میں اس تعریف سے خوش ہوا کہ تقاضائے بشری بھی ہے ۔ اللہ میاں بھی اپنی تعریف سے خوش ہوتے ہیں بلکہ جن و انس اور فرشتوں کو تلقین بھی کرتے ہیں کہ میری حمد و ثنا کرتے رہو اور انسان کو تو اُس ذات پاک نے اپنا نائب بھی قرار دے رکھا ہے‘ وہ اپنی تعریف سے خوش کیوں نہ ہوگا۔
وہ مجھے شروع سے پڑھ رہے ہیں اور میرے قائل بھی ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ چند سال پہلے انہوں نے اپنی غزلوں کا مجموعہ شائع کیا تو اس کا سارے کا سارا دیباچہ میرے خلاف لکھ دیا۔ ہر نقاد کو اپنی رائے سے رجوع کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن اس کی کوئی ٹھوس وجہ بھی ہونی چاہیے۔ افتخار جالب نے 'گلافتاب‘ کا دیباچہ لکھا جو میری شاعری پر لکھے گئے مضامین میں بہت نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ وہ میرا ہمدم اور دوست بھی تھا‘ لیکن یوں ہوا کہ جب 'گلافتاب‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونے لگا تو میں نے قمر جمیل سے درخواست کی کہ اس کا ایک دیباچہ آپ بھی لکھ دیں تاکہ اس کتاب کے حوالے سے اہلِ زبان حضرات کی رائے بھی آ جائے۔ اُن دنوں افتخار جالب بھی کراچی ہی میں ہوا کرتے تھے۔ قمر جمیل نے کہیں ان سے کہہ دیا کہ ظفراقبال نے 'گلافتاب‘ کا دیباچہ لکھنے کے لیے کہا ہے کیونکہ وہ دوسرے ایڈیشن میں آپ کا لکھا ہوا دیباچہ نہیں شامل کرنا چاہتے۔ پھر یوں ہوا کہ افتخار جالب نے ''ظفراقبال بیک ٹو ساہیوال‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو کراچی ہی کے جریدے ''آئندہ‘‘ میں ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اپنے دیباچے میں وہ مجھے صاحبِ عہدقرار دے چکے تھے‘ لیکن مضمون میں یہ کہا کہ عہد تو اُس وقت کوئی تھا ہی نہیں‘ بلکہ شمس الرحمن فاروقی کو بھی خبردار کیا کہ میں اُن کے ساتھ بھی یہی سلوک کر سکتا ہوں‘ وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ آدمی کسی غلط فہمی کی بناء پر بھی اپنی رائے تبدیل کر سکتا ہے؛ تاہم‘ یہ مضمون انہوں نے اپنی زندگی میں نہیں چھپوایا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو یہ ان کے لیے کونسی مشکل بات تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی وقتی غصے کے عالم میں ایسا لکھ گئے! اور اُن کے انتقال کے بعد یہ تحریر اُن کے لواحقین کو اُن کے کاغذات میں سے ملی اور انہوں نے مذکورہ رسالے میں چھپوا دی اور جب تک وہ زندہ رہے اور لاہور آ کر ہی ان کی وفات ہوئی اور ملاقاتوں کے دوران کبھی انہوں نے اس کا ذکر نہ کیا۔
اسی طرح شمس الرحمن فاروقی نے ایک ریڈیو ٹاک میں مجھے غالبؔ سے بڑا شاعر قرار دے ڈالا۔ اس کی اطلاع مجھے مشفق خواجہ (خامہ بگوش) کے خط کے ذریعے ملی۔ انتظار حسین مرحوم کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے جگہ جگہ یہ کہنا شروع کردیا کہ شمس الرحمن فاروقی نے کہیں ظفراقبال کو غالبؔ سے بڑا شاعر کہہ دیا تو ظفراقبال کا ہاضمہ اتنا مضبوط تھا کہ اسے ہضم کرگیا۔ اس طرح مرحوم نے اسے میری چھیڑ ہی بنا لیا‘ جس کے حوالے سے ایک عرصے تک ہماری نوک جھونک چلتی رہی؛ حالانکہ میں یہ بات مسلسل کہتا رہا کہ اگر فاروقی نے یہ بات کہی بھی ہو تو بھی میں غالبؔ سے بڑا شاعر نہیں ہو سکتا‘ بلکہ ایک انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں تو اپنے آپ کو غالبؔ کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں سمجھتا‘ جس کی انگلی پکڑ کر میں نے قدم قدم چلنا سیکھا تھا۔ بہرحال‘ اس ''مناظرے‘‘ کے کہیں بہت بعد میں جا کر فاروقی کو بھی یہ بات کہنی پڑی کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا تھا۔ اگرچہ اس ریڈیو ٹاک کے کچھ عرصے بعد میری ان کی کھٹ پٹ ہوگئی تھی اور یہ معاملہ کوئی دو سال تک جاری رہا اور اسی دوران انہوں نے اپنے بیان سے رجوع بھی کیا جس کا انہیں پورا پورا حق حاصل تھا۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ بعض حضرات نے واقعی یہ سمجھنا اور کہنا شروع کردیا کہ میں خود کو غالبؔ سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں! یہ شعر شاید وہ حضرات کی کچھ مدد کر سکے ؎
غالبؔ کے ساتھ میرا جھگڑا ظفر‘ نہیں کچھ
میں ہر طرح سے اپنی اوقات جانتا ہوں
اس قصۂ پارینہ کو دہرانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ جن حضرات کے دل و دماغ میں یہ غلط فہمی بیٹھی ہوئی ہے‘ وہ رفع ہو جائے۔
چند ماہ پہلے انتظار حسین مرحوم ہی کے ایک کالم کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ مشہور بھارتی شاعر بشیر بدرؔ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ہاں غالب کے معیار کے اشعار کی تعداد غالب سے کہیں زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ مرحوم نے اُس کالم میں بھی اس حوالے سے اپنی بار بار کہی ہوئی بات کو ایک بار پھر دہرایا کہ ادھر ظفراقبال بھی اپنے کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بشیر بدر نے تو اس ضمن میں باقاعدہ دعویٰ باندھا ہے جبکہ اس کے برعکس میں نے تو کسی کی کہی ہوئی بات ہی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہ دعویٰ کرنا تو بہت دور کی بات ہے‘ میں نے تو کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں بلکہ اپنی اور اپنی شاعری کی جتنی بھد میں نے اپنی شاعری اور نثر میں اُڑائی ہے‘ کسی اور نے کیا اُڑائی ہوگی‘ اسی لیے شہزاد احمد نے مجھے ردِ تعلّی کا شاعر کہا تھا۔
تاہم‘ میر اور غالبؔ کی کچھ باتوں سے مجھے اختلاف ہے جو میرے اپنے تحفظات ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنے آپ کو اُن سے بڑا سمجھتا ہوں‘ معائب و نقائص تو سب کے ہاں ہوتے ہیں اور میری شاعری تو عیبوں سے بھری پڑی ہے کہ عیب سے پاک تو ماسوائے رسول اکرمؐ کے کسی کی بھی ذات نہیں ہو سکتی اور جو لوگ میری شاعری میں واقع عیبوں کی نشاندہی کرتے ہیں‘ میں صحیح معنوں میں ان کو اپنا محسن سمجھتا ہوں‘ اور اگر اس ضمن میں کوئی صاحب طعن و تشنیع یا تمسخر سے بھی کام لیتے ہیں تو یہ بھی اُن کا حق ہے۔ حتیٰ کہ جس رائے میں نیک نیتی شامل نہیں ہوتی‘ میں اسے بھی خوش آمدید کہتا ہوں اور تنقید کو تنقید ہی سمجھتا ہوں‘ مخالفت یا دشمنی نہیں۔
پھر‘ میں نے تو یاس یگانہ کی طرح کبھی غالبؔ شکن ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ ہاں‘ اختلاف کیا ہے اور اس طرح اپنے حق ہی کا استعمال کیا ہے کیونکہ غالبؔ بھی آخر شاعر ہی تھا‘ کوئی پیر و پیغمبر تو نہیں۔ اگرچہ غالبؔ پرستوں نے اس بات کو بھی پسند نہیں کیا۔ آخر لکھتے وقت آپ سب کی پسند و ناپسند کا خیال بھی کیسے رکھ سکتے ہیں‘ اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ دوسروں کی پسند و ناپسند کا تقاضا پورا کرتے رہیں تو شاید کچھ بھی نہ کر سکیں!
حق تو یہ ہے کہ اب میں اپنے آپ کو چلا ہوا کارتوس ہی سمجھتا ہوں۔ ابرار احمد کو اگر اب بھی مجھ میں کچھ نظر آتا ہے تو یہ اُن کا حسنِ نظر ہی ہے‘ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ اپنی نظر کا علاج کرائیں! کیونکہ لوگ اسے بھی میری خودستائی پر ہی محمول کریں گے کہ ہمارے ہاں دوسروں کی کی ہوئی تعریف کا بھی اگر ذکر کردیا جائے تو وہ بھی خود تعریفی ہی میں شمار ہوتا ہے۔ اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائے؛ تاہم‘ ابرار احمد کا دلی شکریہ مجھ پر لازم ہے‘ پیشتر اس کے کہ وہ بھی اپنا یہ بیان واپس لے لیں!
نوٹ: گزشتہ کالم میں انیس شاہ جیلانی کا نمبر غلط لکھا گیا‘ اصل نمبر یہ ہے0302-7642391۔
آج کا مقطع
دن بھر جو سر پہ سب کے چمکتا ہے آسماں
شیشے کی طرح ٹوٹ بھی سکتا ہے آسماں