کالموں پر قارئین کا ردِعمل آنا اچھی بات ہے؛ اگرچہ بعض اوقات وہ آپ کی توقعات کے مطابق نہیں بھی ہوتا۔ مثلاً اگلے روز میں نے ابرار احمد کو نثری نظم کا بے مثال شاعر لکھا تو یہ بھی کہا گیا کہ کیا آپ انہیں نثری نظم ہی کا شاعر سمجھتے ہیں؟ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ نظم کے نہایت عمدہ شاعر تو وہ ہیں ہی، نثری نظم ان کی طرف سے ایک ایسا تحفہ ہے جس کی مثال کم از کم مجھے تو کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ نیز یہ کہ میں کئی بار انہیں نظم کا بے تاج بادشاہ قرار دے چکا ہوں؛ اگرچہ میری رائے کچھ اتنی اہمیت نہ بھی رکھتی ہو۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ نثری نظم لکھنا موزوں نظم لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ اس میں آپ کو قافیہ، ردیف، نغمگی اور عروض وغیرہ کی آرائش دستیاب نہیں ہوتی اور وہ نثر ہی ہوتی ہے جسے آپ نظم بنا دیتے ہیں۔
نثری نظم کے حوالے سے میں یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ جب تک یہ بہت پاور فل نہ ہو بالعموم ناکام رہتی ہے، بلکہ میں تو نثری اور موزوں نظم کی تخصیص کا ہی قائل نہیں ہوں کیونکہ اگر یہ نظم ہے تو کیا نثری اور کیا موزوں، نظم ہی ہے بشرطیکہ اپنے اندر، اندازِ بیان ہی کے حوالے سے اتنی طاقت رکھتی ہو کہ موزوں نظم اس کے مقابلے میں مذکورہ بالا آرائشوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہو، میں تو نثری نظم کا اس وقت سے قائل ہوں جب احمد ندیم قاسمی جیسے جید حضرات اس کے وجود ہی سے انکاری تھے اور میں نے لکھا تھا کہ جو حضرات نثری نظم کو نہیں مانتے انہیں نسرین انجم بھٹی کی نظمیں پڑھنی چاہئیں۔ بعد میں ابرار احمد کی نظمیں دیکھ کر نثری نظم پر ایمان مزید پختہ ہوا۔
یہ تو تھا قصہ نثری نظم کا جس کی مدد کے لیے آرائشی زیورات دستیاب نہیں ہوتے اور نثری نظم کا ایک سربرآوردہ شاعر جب موزوں نظم لکھے گا تو کیا کیا قیامتیں نہ ڈھائے گا اور اسی پیمانے سے ابرار احمد کو بھی ناپا جا سکتا ہے جبکہ نثری نظم لکھنے والے کے سامنے نسبتاً ایک زیادہ بڑا چیلنج ہوتا ہے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لڑائی کوئی نہتا لڑ رہا ہو۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس ضمن میں جو پیغامات مجھے موصول ہوئے ہیں، ان میں بعض نظم گو دوستوں کے بھی تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ میرے بیان پر نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ بہت خوش بھی ہیں کہ میں نے ابرار احمد کو صرف نثری نظم کا بے مثال شاعر قرار دیا ہے، بیشک وہ دوست تھوڑے فکر مند بھی ہو جائیں کیونکہ میں ابرار احمد کو موزوں نظم کا بھی بے مثال شاعر سمجھتا ہوں اور یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔
مغرب میں تو اگرچہ زیادہ تر نثری نظم ہی لکھی جا رہی ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ وہاں موزوں یا نثری میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جا رہا اور یہ امتیازی سلوک رفتہ رفتہ اب ہمارے ہاں بھی ختم ہو رہا ہے کیونکہ ایک تو رسائل میں بالعموم اس کی تخصیص روا نہیں رکھی جا رہی اور دونوں طرح کی نظمیں ملی جلی ہی ہوتی ہیں، بلکہ نظموں کے جو نئے مجموعے آ رہے ہیں اور جن میں دونوں طرح کی نظمیں ہوتی ہیں، وہاں بھی اس طرح کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا، بلکہ میں نے ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ موزوں نظم کی طرح توڑ توڑ کر مصرعے لکھنے کی بجائے نثری نظم پیرا گراف کی صورت میں بھی لکھی جا سکتی ہے کیونکہ اس کی نظمیت اس کی ہیئت میں نہیں بلکہ خود اس کے اندر ہی ہوتی ہے۔ اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ملی جلی نظموں کی تخصیص کے لیے جو قاری کو تھوڑا بہت تردد کرنا پڑتا ہے، اس کی بھی ضرورت نہ رہے گی جبکہ اس سے پہلے، مثلاً افتخار جالب کے ہاں پیراگراف کی شکل میں نظمیں ملتی بھی ہیں، بلکہ اس سے بھی بہت پہلے، نثری نظم کی ایک شکل ادبِ لطیف کی صورت میں بھی دستیاب تھی جسے نثری نظم کی ابتداء کہا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں،
غزل اور موزوں نظم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ بعض اوقات پوری بات کہنے کی بجائے آپ محض ایک اشارے سے بھی کام لے لیتے ہیں، خاص طور پر غزل کے شعر میں، جبکہ یہ غزل کے تقاضوں میں سے بھی ہے جبکہ نظم میں آپ کو پوری بات کہنی ہوتی ہے۔ پوری بات اس لیے بھی کہ غزل پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس کے شعر کا دائرہ اتنا وسیع نہیں ہوتا کہ اس میں شاعر کا پورا مافی الضمیربیان ہو سکے، بلکہ میں نے ایک جگہ یہ بھی لکھ رکھا ہے کہ نظم ایک ایسی چیز ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، یعنی جہاں آپ اسے ختم کریں، کسی وقت اسے دوبارہ بھی وہیں سے شروع کر سکتے ہیں؛ حتیٰ کہ آپ کی کہی ہوئی نظم کو کوئی اور شاعر بھی وہیں سے شروع کر سکتا ہے جہاں آپ نے اسے ختم کیا ہو! یہ ایسی عجیب وغریب چیز ہے!
میری ناقص رائے میں تو نظم ایک ایسی عجوبہ چیز ہے کہ اس کی کوئی حتمی تعریف بھی متعین یا طے نہیں کی جا سکتی۔ یہ تو بس ہوتی ہے اور جب یہ ہوتی ہے تو آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ میں غزل گو کے طور پر تو بدنام ہوں ہی، میں نے مجموعہ بھر نظمیں بھی کہہ رکھی ہیں جو مسودے کی شکل میں تھیں اور افتخار جالب نے مجھ سے لے لی تھیں کہ آپ سے گم ہو جائیں گی، لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ خود ان سے کہیں گم ہو گئیں جن میں زیادہ تر سویراؔ، امروزؔ، لیل و نہار اور سات رنگ کراچی وغیرہ میں چھپتی بھی رہیں۔ حتیٰ کہ میں نے ادبیات کی فرمائش پر ان کے نثری نظم نمبر کے لیے پانچ سات نثری نظمیں بھی لکھیں!
ایک نظم مجھے فیس بک سے دستیاب ہوئی ہے جو کسی صاحب نے پتا نہیں کہاں سے کھود کر نکالی ہے جو منٹو کی وفات پر لکھی تھی جب میں گورنمنٹ کالج میں فورتھ ایئر میں تھا، اور جو ''راوی‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ منٹو صدی جاری ہے، اس لیے پیش ہے:
سعادت حسن منٹو
ترے وجود سے آلودہ تھی یہ پاک زمیں
تری نوا سے پراگندہ تھے نشیب و فراز
نہ تجھ کو خوفِ خدا تھا نہ احترامِ ادب
زمانے بھر پہ عیاں تھا ترے کمال کا راز
حقیقتوں میں بھٹکتا رہا دماغ ترا
سمے کے ہاتھ نے چھلکا دیا ایاغ ترا
ہوائے مرگ نے گل کر دیا چراغ ترا
اب ایک بات کہ لرزاں ہے سب زبانوں پر
شکن شکن ہوئی جاتی ہے جس سے سب کی جبیں
کہ نورو نار کی سرحد پہ، آسمانوں پر
خدائے عرش ترے ہاتھ چوم لے نہ کہیں
راوی، جلد 49، شمارہ2، 1955ء
آج کا مقطع
جیسی بھی ہے یہ شاعری اچھی بری،ظفرؔ
سچ پوچھیے تو آپ کی شہرت زیادہ ہے