لکھتے وقت غلطیاں ہم سب کرتے ہیں اس لیے ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا بھی ہمارے ہی فرائض میں شامل ہے۔ اگرچہ اسے باقاعدہ عیب جوئی سمجھا جاتا ہے‘ حالانکہ یہ اصلاح احوال ہی کی ایک صورت ہے‘ اس سے غلطی کرنے والے کا بھی بھلاہوتا ہے اور کئی ایسے دوسروں کا بھی جو اسے غلطی نہیں سمجھ رہے ہوتے‘ لیکن اکثر اوقات یہ کار فضول ہی کی ذیل میں آتا ہے‘ بلکہ غلطی نکالنے والا اپنا ہی نقصان کر بیٹھتا ہے‘ کیونکہ غلطی کرنے والا اسے اپنی توہین سمجھ بیٹھتا ہے‘ تاہم زبان جو ایک لکھاری کا سب سے بڑا ہتھیار ہے‘ اس کی درستی تو ہر کسی کا مسئلہ ہونا چاہیے ۔میں یہ کام حسب توفیق کرتا رہتا ہوں یعنی غلطیاں کرنے کے علاوہ دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی بھی‘ اسے آپ دماغ کا خلل بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً اسی پاگل پن میں‘ میں نے ایک بار کشور ناہید کی ایک کتاب کے حوالے سے لکھے گئے برادرم انتظار حسین کے ایک مضمون میں بیس پچیس غلطیاں نکال ماریں جن کے بارے میں انہوں نے محبی مسعود اشعر کے سامنے یہ بات کہی کہ مجھے ظفر اقبال کی کچھ باتوں سے اتفاق ہے‘ لیکن انہوں نے میرا شکریہ ادا پھر بھی نہیں کیا۔ لیکن میں ایسا کرنے والے کو اپنا محسن سمجھتا ہوں اور یہ ایک مزید پاگل پن ہی ہو سکتا ہے‘ اسی طرح میں جناب شمس الرحمن فاروقی کی غلطیاں نکالنے کا ارتکاب بھی کر چکا ہوں‘ حتیٰ کہ جہاں تہاںاس کے علاوہ بھی‘ اللہ میری حالت پر رحم فرمائے! لیکن میں غالب کی جو غلطیاں نکال چکا ہوں‘ شاید اس کے لیے میں قابل معافی نہ ٹھہروں۔
آج مجھ پر اس پاگل پن کا دورہ پھر پڑا ہے جس کے نشانے پر میرے مہربان دوست مجیب الرحمن شامی آ گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خطائے بزرگاںگرفتن خطاست‘ تاہم وہ کچھ اتنے بزرگ بھی نہیں ہیں یعنی علم اور تجربے میں ضرور ہیں‘ عمر میں نہیں کیونکہ عمر کے حوالے سے اللہ میاں نے میری رسی کافی دراز کر رکھی ہے۔ اس اتوار کے کالم بعنوان ''جنرل پرویز مشرف کی اڑان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عملاً یہ کارِدارد ہو گا‘ ظاہر ہے کہ یہ فارسی کی ترکیب ہے جو اصل میں کارے دارد ہے‘ کارِ دارد نہیں‘ کیونکہ کارے دارد کا مطلب ہے‘ ایک کام رکھتا ہے‘ یعنی ایک مشکل کام ہے جبکہ کارِ داردکا مطلب ہو گا دارد کا کام یعنی رکھتا ہے کا کام‘ جو کہ غلط اور بے معنی ہو جائے گا۔ دوسرے یہ کہ معنی کے لحاظ سے اس کے آخر پر ''ہے‘‘ آتا ہے‘ اس لیے اس ترکیب کے بعد 'ہے‘ یا ہو گا‘ نہیں لگایا جا سکتا‘ چنانچہ درست جملہ اس طرح ہوتا کہ ''عملاً‘‘ یہ کارے دار د ۔وما توفیقی الاّباللہ۔
اس کے ساتھ ہی وہ خوبصورت اور سارا زمانہ یاد آ گیا ہے جو بطور کالم نویس میرا ''پاکستان‘‘ میں گزرا۔ مجھے وہاں روزنامہ 'جنگ‘ سے چھڑوا کر عباس اطہر لے گئے تھے۔ جنگ والے مجھے ساڑھے تین ہزار روپے ماہوار دیتے تھے جبکہ عباس اطہر مجھے ''پاکستان‘‘ میں دس ہزار پر لے گئے۔ اس وقت اکبر بھٹی اس کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے اور غالباً مالک بھی‘ بعد میں وہاں حمید جہلمی بھی آ کر ایڈیٹوریل میں شامل ہو گئے تھے‘ پھر شامی صاحب آ گئے اور اس کی رونق میں اضافہ ہوتا گیا۔ چودھری قدرت اللہ اور پھر عتیق الزمان بٹ‘ جن کا تعلق اوکاڑہ سے تھا۔
میں اس اخبار میں تین دفعہ گیا اور تین ہی دفعہ چھوڑا۔ میں نے ایک بار لکھا بھی تھا کہ ''پاکستان‘‘ میرا گھر ہے اور میں جب بھی چاہوں اس میں آ سکتا ہوں۔ یہاں مجھے عزت بھی ملی اور محبت بھی۔ میرا کالم ''سرخیاں ان کی متن ہمارے ‘‘جو میری ایجاد بھی ہے‘ شامی صاحب کو اس قدر پسند تھا کہ مجھ سے کہتے کہ ہر روز یہی لکھا کریں۔ بعد میں کئی دوستوں نے اس کی نقل بھی کرنے کی کوشش کی مثلاً کیلے کا چھلکا‘ اور خبروں پر تبصرہ‘ لیکن پھر چھوڑ گئے۔ میرا موقف یہ تھا کہ میں ہر روز اس طرح کے کالم نہیں لکھ سکتا کیونکہ اسی روٹین سے میں خود بھی بور ہو جائوں گا اور میرے قاری بھی‘ چنانچہ میں انہیں ورائٹی دینے کی کوشش کرتا ہوں‘ کبھی پیروڈی‘ کبھی کسی لطیفے سے شروع کر دیا اور کبھی سنجیدہ کالم۔ اس طرح میرا کام بھی چلتا رہتا ہے اور میرے قاری کا بھی۔ سنجیدہ کالم جو میں ''نوائے وقت‘‘ میں لکھا کرتا‘ اس کا عنوان ہوتا ''صورتحال‘‘ ۔جو بعد میں جناب الطاف حسن قریشی کو اس قدر بھایا کہ وہ بھی اسی عنوان سے لکھنے لگے۔
شامی صاحب ایک اچھا کام یہ بھی کرتے ہیں کہ اخبار کا سنڈے ایڈیشن ہفت روزہ زندگی کے نام سے چھاپتے ہیں۔ ایک تو اس میں ادبی چاشنی زیادہ ہوتی ہے اور دوسرے شاید چالاکی یہ بھی ہے کہ اس طرح سے زندگی کا ڈیکلریشن برقرار رہے جسے وہ ''پاکستان‘‘ کے ساتھ ساتھ بڑے اہتمام سے شائع کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ساتھ ساتھ میں اس میں بھی لکھا کرتا جبکہ میرا طویل مضمون دیوان غالب مرمت شدہ‘ اسی میں قسط وارچھپتا رہا‘ جب یہ پرچہ اس سے پہلے الطاف حسین قریشی نکالا کرتے تھے‘ میں تب بھی اس میں لکھا کرتا تھا۔
شامی صاحب کا ایک پلس پوائنٹ ان کی شعروادب کے ساتھ شیفتگی اور وابستگی بھی ہے جو کہ ادبی محفلوںاور اجلاسوں میں اکثر پائے جاتے ہیں۔ کئی بار انہیں کسی کتاب کی تقریب رونمائی کی صدارت کرتے بھی پایا گیا ہے۔ میں نے ایک بار لکھا بھی تھا کہ تین حضرات یعنی مجیب الرحمن شامی‘ میاں محمد یاسین خاں وٹو اور بیرسٹر اعتزاز احسن‘ مانیں نہ مانیں اپنی حرکتوں سے شاعر لگتے ہیں‘ حتیٰ کہ اعتزاز احسن تو باقاعدہ شاعر نکل بھی آئے۔ مزہ تو جب ہے کہ شامی صاحب کسی مشاعرے یا محفل میں اپنی غزل پڑھتے بھی نظر آئیں۔
میری رہائش شادمان میں تھی اور ''پاکستان‘‘ کا دفتر جیل روڈ پر ہے جہاں میں پیدل بھی چلا جایا کرتا‘ کبھی کالم لے کر اور کبھی حق الخدمت وصول کرنے‘ شامی صاحب کے علاوہ نذیر حق صاحب سے ضرور ملاقات ہوتی جن کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو گیا۔ ان سے زیادہ اپ رائٹ اور بے لوث صحافی آج تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ ان کے علاوہ قدرت اللہ چوہدری سے ملتا‘ اور عتیق الزمان بٹ سے مل کر اوپر ایڈیٹوریل میں ذوالقرنین سے ملنے بھی چلا جاتا۔ حمید جہلمی انتقال کر گئے اور عباس اطہر بھی ''ایکسپریس‘‘ میں آئے اور اپنا وقت پورا کرکے اللہ میاں کے پاس جا پہنچے‘ اگرچہ میرے خیال میں انہیں ابھی اور زندہ رہنا چاہیے تھا۔ عمر میں مجھ سے کہیں چھوٹے تھے۔
''پاکستان ‘‘کے ادبی حصے کو بنانے سنوارنے کا کام عزیزی ناصربشیر کے ذمے ہے جو اکثر اوقات اپنی تازہ غزل بڑے اہتمام سے چھاپتے ہیں جو واقعی اس قابل ہوتی ہے کہ اسے اکثر چھاپا جائے۔ کسی ادیب کا انتقال ہو جائے تو اس کی اطلاع سب سے پہلے انہی کے ذریعے ملتی ہے۔ چنانچہ ان کا فون آئے تو فوراً فکر پڑ جاتی ہے کہ اب یہ کس کے انتقال پُرملال کی خبر سنائیں گے۔ ہاں‘ یاد آیا‘ ایک اور خوبصورت آدمی‘ ریحان اظہر بھی ان دنوں وہیں لکھا کرتے اور ملنے کے لیے بھی آیا کرتے۔ میں نے ملک کا شاید ہی کوئی اخبار چھوڑا ہو‘ لیکن جتنی خوبصورت یادیں اس اخبار کے ساتھ وابستہ ہیں شاید ہی کہیں اور ایسا ہوا ہو۔ ؎
ہمہ عمربا تو قدح زدیم و نرفت رنجِ خمارما
چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنارِ مابکنارِ ما
آج کا مطلع
دل کی تختی سے مٹایا ہوا تُو
یاد آتا ہے بُھلایا ہوا تُو