گوجرانوالہ سے شاعر عمران ہاشمی کا یہ میسج موصول ہوا ہے کہ تازہ کار شاعر اور کرپٹ تاجر ختم شدہ میعاد والی اشیاء پر نئی تاریخ چھپوا کر تازہ کر لیتے ہیں۔ اس میں اشارہ میری طرف بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بُرا شعر میں کیوں نہیں لکھ سکتا۔ غزل کی شاعری تو ویسے بھی ملا جلا ہی کام ہوتا ہے کہ ہر شعر حاصل غزل نہیں ہوتا‘ تاہم کمزور شعر سے بھی آپ کا اپنا آپ ضرور جھلکنا چاہیے اور بھرتی کے شعر سے گریز کرنا چاہیے‘ اور شاعر کو پتا ہوتا ہے کہ یہ شعر بھرتی کا ہے لیکن پھر بھی کُشتوں کے پشتے لگا دیے جاتے ہیں۔
میں اگر شاعری پر تنقید کرتا ہوں تو یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ میں اپنے آپ کو بڑا شاعر سمجھتا ہوں حالانکہ یہ بات نہ آپ خود طے کرتے ہیں نہ آپ کا عصر۔ بلکہ اس کا فیصلہ آنے والا زمانہ کرتا ہے کیونکہ آپ کے مشہور یا مقبول ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جو آپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد موجود نہیں رہتیں اور آپ کی شاعری صرف کاغذ پر زندہ رہ جاتی ہے‘ اگر وہ زندہ رہ جانے کے قابل ہو۔ پھر ایسا اندازہ لگاتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آپ اگر مقبول ہیں بھی تو کیسے اور کس درجے کے لوگوں میں پسند کیے جاتے ہیں‘ یعنی اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بقول آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے تو شاعر اپنے مدّاحوں سے۔ اسی لیے قارئین یا سامعین کی درجہ بندی بھی ضروری ہو جاتی ہے۔
یہ ایک عجیب لطیفہ ہے کہ ہر طرح کی شاعری کو پسند کرنے والے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں کیونکہ آپ شاعر پر کوئی پابندی لگا سکتے ہیں نہ اس کے پسند کرنے والوں پر۔ پھر بھی شعر کا ایک عمومی معیار ضرور طے کر دیا گیا ہے جو مسلّمہ بھی ہے اور رائج بھی‘ اور اس طرح اچھی اور بُری یا کمزور شاعری کا فیصلہ بھی ساتھ کے ساتھ ہوتا رہتا ہے‘ سو‘ یہ چھلنی لگی رہتی ہے اور چھان بُورا الگ ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس میں نقاد بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے بشرطیکہ وہ یہ کام دیانتداری اور کسی لاگ لپٹ کے بغیر کرے‘ اگرچہ یہ بات تقریباً ناپید ہو چکی ہے جو ایک الگ بحث طلب مسئلہ ہے۔ تاہم‘ شاعر کو خود بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے‘ وہ اسے ظاہر یا تسلیم کرے نہ کرے۔
اوپر عمران ہاشمی کی جو بات نقل کی گئی ہے وہ سو فیصد درست ہے کیونکہ یہ کام ہر سطح پر‘ اور ہر جگہ ہو رہا ہے۔ اس میں قباحت یا فکرمندی کی بات یہ بھی ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کا نوٹس ہی نہیں لیا جا رہا بلکہ ثقہ لوگ اس کی حمایت بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی ہم ایک تحسین باہمی اور' من تراحاجی بگوئم تو مرا مُلاّ بگو‘ہی کے ماحول میں جی رہے ہیں جو ایک طرح سے حالات کی مجبوری کے سبب سے بھی ہے کیونکہ اگر عمدہ شاعری ہو ہی نہیں رہی تو جو مال موجود اور دستیاب ہے اُسی کو غنیمت سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی شاعری سے گلوخلاصی کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔
لیکن سچی بات کوئی اس لیے نہیں کرتا کیونکہ اسے کوئی پسند نہیں کرتا‘ بلکہ سچی بات کہنا تو دور کی بات ہے‘ اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ سچی بات کہنے والا صرف اپنے مخالفین اور دشمنوں ہی کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے ۔اور بقول علامہ عبدالماجد دریا بادی'' حضرت عمرؓ کی حق گوئی نے اُن کا کوئی دوست نہ رہنے دیا‘‘۔ ہمارے معاشرے کی بنیاد جھوٹ‘ غلط بیانی اور مبالغے پر قائم ہے۔ ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اگر آپ کمزور اور تیسرے درجے کی شاعری کو پروموٹ کریں گے تو اسی کو شاعری سمجھ لیا جائے گا اور اصلاح احوال کے سارے امکانات ہی ختم ہو جائیں گے۔
ہمارے ہاں عام چلن یہ ہے کہ شاعری کی کوئی کتاب چھپتی ہے اور ظاہر ہے کہ اب اس کی تقریب رونمائی بھی ہو گی جس کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ جیسی بھی ہو‘ اس کی تعریف میں زمین اور آسمان ایک کر دیئے جائیں۔ بلکہ اس سے پہلے بھی‘ یعنی کتاب کے دیباچے‘ بلکہ دیباچوں اور سرورق کی تحریروں ہی میں اسے پتا نہیں کیا سے کیا قرار دے دیا گیا ہوتا ہے کیونکہ جہاں بُری شاعری پر کوئی قدغن نہیں ہے اسی طرح اس کی بے محابا تعریف کرنے والوں کے لیے بھی کوئی سزا مقرر نہیں ہے جبکہ اس کی ایک وجہ پی آر بھی ہے کیونکہ یہ رعایتی نمبر اس لیے بھی دیئے جاتے ہیں کہ یہ نمبر دینے والے خود بھی اس کے طلب گار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں میں اگر ایسی شاعری کا رونا رویا کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں خود کوئی تیر مار رہا ہوں۔ اس لیے کہ میں بھی انہی میں شامل ہوں اور ایک ہی جگہ پر‘ ایک ہی آب و گل میں سانس لینے والے ایک دوسرے سے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں‘ اور اگر ہوں بھی تو آخر کس حد تک‘ لیکن اس کے باوجود اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس انتہائی تشویشناک صورتحال کے خلاف اپنی آواز بھی نہ اٹھائوں‘ مقصد یہ بھی ہے کہ اگر میں بھی ایسی شاعری کر رہا ہوں تو کم از کم میں ہی کچھ شرم کروں اور باز آ جائوں۔ بے شک خال خال اچھا شعر اب بھی کہا جا رہا ہے۔ اگلے روز پی ٹی وی کے مشاعرے میں ریاض مجید کی غزل مجھے سب سے اچھی لگی اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ عشق کی طرح شاعری کا بھی عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ نئے لوگ بھی کچھ عرصہ اپنی چمک دمک دکھاتے ہیں لیکن جلدی ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے اور وہی کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے گردونواح میں ہو رہا ہوتا ہے۔
اگرچہ ناروا کو روا کہنا ہمارے ہاں ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے لیکن اس کی کوئی حدود و قیود بھی مقرر نہیں ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے ایک ماہنامے نے ایک شاعر کا نمبر نکالا ہے اور اس میں ہمارے معروف ادیبوں اور نقادوں نے وہ وہ ملمّع سازیاں کی ہیں کہ شاعر سے زیادہ ان حضرات پر ترس کھانے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے صاحب نمبر کی شاعری اب بھی دیکھی ہے اور پہلے بھی دیکھتا رہا ہوں اور قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اس میں مجھے ایک بھی شعر ایسا نظر نہیں آیا جس پر شعر کی تہمت لگائی جا سکتی ہو یا جس میں تازگی‘ تاثیر اور لطف سخن کا کوئی شائبہ بھی موجود ہو۔ غزل میں رُوکھے پھیکے شعر کا تو کوئی جواز ہے ہی نہیں۔ محض الفاظ کو جمع کرنے اور جوڑ دینے سے شعر وجود میں نہیں آتا۔ یا گھسے پٹے مضامین کو گھسے پٹے انداز میں موزوں کر دینے کا نام بھی شاعری نہیں ہے۔ اس سے شاعر کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہو گا البتہ اس پر تعریف و تحسین کے ڈونگرے برسانے والوں کی اپنی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے اور جس پر صرف اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے‘ پھر یہ ہے کہ کسی بڑے شاعر سے کوئی تعلق ہونے کی وجہ سے آپ کا احترام تو کیا جا سکتا ہے‘ اور کرنا چاہیے بھی‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی بیحد معمولی شاعری کو بھی باقاعدہ بانس پر چڑھا دیا جائے کیونکہ یہ اس بڑے شاعر کے ساتھ بھی کوئی انصاف نہیں ہے بلکہ مایوسی ہوتی ہے کہ کیا اُس بڑے شاعر سے موصوف نے یہی کچھ سیکھا ہے؟ یہ تو اس کے نام کو بٹہ لگانے والی بات ہوئی۔ نیز یہ کہ کیا آپ کے لیے اس بڑے شاعر سے تعلق ہونا ہی کافی نہیں تھا؟ ؎
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
آج کا مقطع
چاہتا کچھ بھی نہیں تُجھ سے ظفرؔ
کس تکبر میں ہے آیا ہوا تُو