برادرم مسعود اشعر نے اگلے روز اپنا کالم کچھ اسی طرح سے شروع کیا ہے۔ غالب نے یہ شعر شاید ہمارے لیے ہی کہہ رکھا ہے ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
سوچا کہ یا مظہر العجائب یہ شعر غالب کا تو نہیں ہے۔ شک مٹانے کے لیے دیوان غالب بھی کھنگال مارا‘ لیکن شعر وہاں موجود نہیں تھا۔ پھر سوچا کہ شاید نسخہ حمیدیہ میں ہو کیونکہ موصوف نے ہر اچھا شعر اپنے دیوان سے نکال کر نسخۂ حمیدیہ میں ڈمپ کر چھوڑا تھا۔ چنانچہ نسخۂ حمیدیہ منگوایا۔ اسے بھی چھان مارا لیکن وہاں بھی ندارد۔ ایسی بھول بھلیوں سے نکلنے کے لیے میں بالعموم اُستاذی ڈاکٹر تحسین فراقی کو زحمت دیا کرتا ہوں۔ انہیں فون کیا تو کہنے لگے غالب کا تو نہیں ہے‘ البتہ شیفتہ کا ہو سکتا ہے۔ سو‘ جس طرح مسعود اشعر کو ہر اچھا شعر غالب کا لگتا ہے اسی طرح فراقی صاحب بھی ہر اچھا شعر‘ اگر وہ غالب کا نہ ہو تو شیفتہ ہی کا سمجھتے ہیں جیسا کہ ہر خراب شعر کے بارے یہ گمان کر لیا جاتا ہے کہ یہ حرکت ظفر اقبال ہی کی ہو سکتی ہے!
اب یہ تو طے ہے کہ یہ شعر غالب کا نہیں ہے اور نہ ہی اس نے یہ ہمارے لیے کہہ رکھا ہے۔ البتہ مسعود اشعر صاحب نے محاورے پر عمل کرتے ہوئے حامد کی ٹوپی محمود کے سر پر ضرور رکھ دی ہے لیکن یہاں بھی غلطی کھا گئے کہ ٹوپی محمود کے سر پر رکھ دی لیکن یہ حامد کی نہیں کسی اور کی ہے‘ چنانچہ اس ٹوپی کا سراغ لگانے کے لیے کہ غالب کے سر پر سجا دی جانے والی ٹوپی ہے کس کی‘ ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر ریاض مجید سے لے کر حضرت ناصر زیدی سمیت کئی لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ہوا حالانکہ ع
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
تشویش اس بات پر بھی ہے کہ غالب کی بہت سے اپنے ہم عصروں کے ساتھ بنتی بھی نہیں تھی‘ اس لیے اگر تو یہ شعر غالب کے کسی ناپسندیدہ شاعر کا ہے تو اس کی ٹوپی اپنے سر پر رکھ کر موصوف خاصے بدمزہ ہوئے ہوں گے اور شاید اب تک اس پر پانچ سات تبرّے بھی بھیج چکے ہوں کیونکہ نیکی کے کام میں وہ بھی دیر کرنے کے قائل نہیں تھے یعنی قصۂ زمین بر سرزمین ۔ ہم آپ بے شک کہتے رہیں کہ شعر بہت عمدہ بلکہ ضرب المثل بن چکا ہے لیکن غالب کو قائل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے کہ ع
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
علاوہ ازیں شاعر خواہ بہت عمدہ بلکہ غالب کا پسندیدہ بھی ہو تو پھر بھی غالب جیسے نک چڑھے شاعر کے سر پر اس کی ٹوپی رکھ دینا اسے کیسے گوارا ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو اپنی ٹوپی بھی بڑا احسان جتا کر اپنے سر پر رکھتا ہوگا‘ کسی چیز کا اس کے سر کے اوپر ہونا‘ بے شک وہ اس کی ٹوپی ہی کیوں نہ ہو‘ بجائے خود ایک گستاخی شمار ہو گی۔
اس لیے ہمارے دوست مسعود اشعر کو سب سے پہلے تو غالب کی روح سے معذرت کرنی چاہیے جس کے سر انہوں نے کسی اور کا شعر مڑھ دیا ‘ اور ساتھ ہی ساتھ اس دوسرے شاعر کا بھی کھوج لگا کر اس سے معذرت کرنی ہو گی جس کا اچھا بھلا شعر موصوف نے غالب کے کھاتے میں ڈال دیا بلکہ ان کی معذرت اس خاکسار کے ساتھ بھی بنتی ہے جسے انہوں نے خواہ مخواہ ایک بھنبل بھوسے میں ڈال دیا۔ حتیٰ کہ ان لوگوں سے بھی ‘ جو جانتے ہوں کہ یہ شعر غالب کا نہیں اور فلاں شاعر کا ہے۔ بہرحال یہ بھی عین غنیمت ہے کہ شعر انہوں نے صحیح نقل کر دیا ورنہ کچھ عرصہ پہلے وہ فراق گورکھ پوری کے ایک شعر کے ساتھ ایسی بے تکلفی روا رکھ چکے تھے۔
اور ‘ یہ بھی انہوں نے ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ہی کا مظاہرہ کیا ورنہ وہ ''بقول شاعر‘‘ کہہ کر بھی اپنا کام چلا سکتے تھے‘ کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا‘ نہ ہی میرے جیسوں کی رگ خودنمائی اس طرح پھڑکتی کیونکہ ایسی اصلاح احوال کو بالعموم پسند بھی نہیں کیا جاتا اور غالب اگر زندہ ہوتے اور اس غلط بخشی پر اعتراض کرتے تو بجا بھی تھا‘ تاہم‘ یہ بھی ہے کہ غالب نے جہاں خود اتنے اچھے شعر کہہ رکھے ہوں تو اسے ایسی باتوں کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ ویسے شیفتہ کا بھی کچھ زیادہ قصور نہیں جس نے اس طرح کے شعر کہہ رکھے ہیں کہ ؎
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
منقول ہے کہ ایک بار کسی گائوں سے ایک امرود بیچنے والا گزرا۔ گائوں والوں کے لیے یہ ایک بالکل نئی چیز تھی؛ چنانچہ وہ اپنے بوجھ بجھکڑ کے پاس پوچھنے کے لیے گئے کہ یہ کیا چیز ہے۔ اسے بھی کچھ پتا نہیں تھا چنانچہ امرود بیچنے والے کو بلایا گیا اور اس سے پوچھ کر اپنی پوتھی میں اس کا نام لکھ دیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہاں سے کچھ لوگ ایک ہاتھی کو لے کر گزرے تو گائوں والے ایک بار پھر اپنے بوجھ بجھکڑ کے پاس گئے۔ کہ یہ کیا چیز ہے‘ جس نے ان آدمیوں کو بلا کر پوچھا اور ہاتھی کا نام بھی اپنی نوٹ بک میں لکھ لیا۔
کچھ عرصے کے بعد ایک بار امرودوں والا پھر وہاں سے گزرا تو گائوں والوں نے یہ سوچ کر اس چیز کا نام بوجھ بجھکڑ نے اپنی پوتھی میں لکھ لیا تھا۔ اس کے پاس گئے اور ایک امرود اس کو دکھایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے اپنی پوتھی کھولی اور پڑھ کر بتایا کہ یہ ہاتھی ہے یا امرود؟
سو‘ یہ قرینہ تو کچھ ایسا غلط نہیں کہ ہر عمدہ شعر کے بارے میں‘ اگر معلوم نہ ہو تو‘ کہہ دیا جائے کہ یہ غالب کا ہے یا شیفتہ کا‘ کیونکہ کوئی اپنی نوٹ بک میں ہر شعر کے بارے میں تو لکھنے سے رہا کہ یہ شعر کس کا ہے‘ تاہم اتنی احتیاط تو کی ہی جا سکتی ہے کہ شک و شبے کی صورت میں شاعر کا غلط ملط نام لکھنے سے اجتناب کیا جائے اور میرے جیسے بھی اپنی علمیت کا ڈھونڈورہ پیٹنے سے باز رہیں کیونکہ آدمی کے پاس اگر اور کچھ کرنے کو نہ ہو تو بال کی کھال نکالنے ہی بیٹھ جاتا ہے‘ تاہم‘ اگر مسعود اشعر کی یہ مجبوری ہے کہ وہ شعر یا شاعر کا نام غلط لکھ دیں تو میری مجبوری اس کی نشاندہی بھی ہے کہ آخر چغل خوروں نے بھی اپنا کام کرنا ہی ہوتا ہے۔ اور‘ اس سلسلے کا آخری لطیفہ یہ ہے کہ فراقی صاحب نے مجھے کہا تھا کہ میں دیوانِ شیفتہ دیکھ کر آپ کو آدھ گھنٹے کے اندر بتاتا ہوں‘ لیکن آج تیسرا دن ہے‘ انہوں نے بھی نہیں بتایا اور اگر بتا بھی دیتے کہ یہ شعر شیفتہ کا نہیں ہے تو بھی یہ مسئلہ حل طلب ہی رہ گیا کہ آخر یہ ہے کس کا... صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!
آج کا مطلع
اگر اتنی بھی رعایت نہیں کی جا سکتی
صاف کہہ دوکہ محبت نہیں کی جا سکتی