بعض مسائل اور چھوٹی بڑی ناانصافیوں اور متعصّبانہ رویّوں پر ہم کڑھتے ضرور ہیں لیکن ان پر مصلحتاً بات نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے رویّے مستقل ہوتے رہتے اور ایک طرح کی دل سوزی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے‘ تاہم بعض فورم ایسے ہیں کہ جن کے اپنے وقار کا تقاضا ہوتا ہے کہ اپنی غیر جانبداری برقرار رکھیں جبکہ سیاسی معاملات کی بات اور ہے کیونکہ ان میں آپ کو کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف ہونا پڑتا ہے لیکن ادب کا مسئلہ ذرا مختلف ہے کہ اپنی پسند ناپسند کے باوجود کم از کم اتنی احتیاط ضرور روا رکھنی چاہیے کہ ایک آزاد خیال فورم ہوتے ہوئے آپ پر جانبداری یا تعصّب کا شائبہ نہ ہو سکے۔
اگرچہ ایسے رجحانات کے خلاف واویلا اسی طرح بے نتیجہ رہتا ہے جس طرح دیگر مثلاً اخلاقیات کے حوالے سے اٹھنے والی ہر آواز رائیگاں جاتی ہے چنانچہ بہتر یہی ہے کہ ایک باقاعدہ اعلان کے ذریعے ایسا کیا جائے جیسا کہ بعض رسائل کی پیشانی پر درج ہوتا ہے کہ یہ ترقی پسند سوچ کا ترجمان ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے قاری کی رہنمائی بھی ہو جاتی ہے اور وہ کسی فریب کاری کا بھی شکار نہیں ہوتا‘ یا یہ کہ اخبار یا رسالہ کون سے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ کچھ ظاہر نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی بات چھپی نہیں رہتی۔
ہمارے ہاں‘ بلکہ دنیا میں ہر جگہ اخبارات میں ادب کا حصہ بھی‘ تھوڑا یا زیادہ مخصوص کیا گیا ہوتا ہے اور اس میں زبان کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہوتی جیسا کہ ہمارے ہاں اردو اور انگریزی اخبارات میں ادب کا حصہ الگ سے موجود ہوتا ہے جو بالعموم ہفتہ وار بنیادوں پر ہوتا ہے۔ ان میں کسی لکھنے والے کا ذہنی رجحان یا جھکائو کسی امتیاز کا حامل ہو سکتا ہے لیکن من حیث المجموع پرچہ ایک آزاد اور غیر جانبدار پالیسی پر ہی چل رہا ہوتا ہے۔ اور‘اگر کوئی استثنائی صورت کہیں موجود ہو تو افسوس بھی لاحق ہوتا ہے اور تشویش بھی۔ ایک مؤقر انگریزی معاصر سے یہ شکایت پیدا ہوئی ہے بلکہ اکثر و بیشتر ہوتی رہتی ہے۔ پچھلے دنوں نظم کے ہمارے نامور شاعر ڈاکٹر ابرار احمد کے ساتھ ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ اس اخبار کے کچھ لوگ کافی عرصے تک صاحب موصوف کے انٹرویو کے لیے ان کا تعاقب کرتے رہے۔ بالآخر اس میں کامیاب بھی ہو گئے اور کوئی دو اڑھائی گھنٹے کا ان کا انٹرویو ریکارڈ بھی کیا جو کہ ظاہر ہے کہ معاصر ادبی صورتِ حال کو مُحیط اور مفصّل تھا لیکن جب شائع ہوا تو ایک چوتھائی سے بھی کم تھا اور ستم بالائے ستم یہ کہ اسے کراچی کے مرکزی ایڈیشن میں نہیں چھاپا ‘ بلکہ کئی دن رکھ کر واپس کر دیا۔
ڈاکٹر ابرار احمد نے اس پر کوئی احتجاج اس لیے نہیں کیا کہ ایک تو یہ ان کے شایانِ شان ہی نہیں تھا اور دوسرے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مؤقر جریدہ لاہوریا پنجاب کے ادیبوں کے حوالے سے ایک عمومی سردمہری کا رویہ رکھتا ہے۔ ٹھیک ٹھاک سینئر ہونے کے باوجود چونکہ میرے وہ جونیر ہیں اور مجھ پر جونیئرز کا مفت کا ٹھیکیدار ہونے کا دورہ بھی پڑتا رہتا ہے‘ اس لیے میں اس کانوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکا کیونکہ یہ واقعہ بجائے خود توہین آمیز بھی تھا کہ انہوں نے انٹرویو دینے کی خواہش کا اظہار کبھی نہیں کیا تھا۔
مجھے ذاتی طور پر اس روزنامے سے کوئی شکایت نہیں ہے(البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ میں بھی اس کے ''عتاب زدگان‘‘ میں شامل کر لیا جائوں!) ادب میں دھڑے بندیاں شروع ہی سے ہوتی چلی آئی ہیں لیکن ان کا تعلق خود شاعروں‘ ادیبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر زبان کے حوالے سے اس طرح کی صورت حال ہو تو یہ کوئی پسندیدہ بات نہیں ہے ۔
اصل افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طرح کی امتیازی سوچ بعض ادیبوں کے ساتھ ساتھ کچھ جرائد میں بھی پائی جاتی ہے‘ اگرچہ‘ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا‘ لیکن اگر ایسے رویّے کا اظہار ایسے اخبار کی جانب سے کیا جائے جو سبھی حلقوں میں عزت اور تکریم کی نظر سے دیکھاجاتا ہو تو اس پر جتنا بھی فکر مندی کا اظہار کیا جائے ‘ کم ہے۔ اس کے مقابلے میں پچھلے دنوں اسی اخبار کے ادبی سیکشن میں ایک انتہائی معمولی شاعر کو پورے دو صفحوں کی کوریج دی گئی جو کہ میرٹ کے خلاف تھا۔ میرا بیٹا اگر ایک شعری مجموعہ لے کر آ جائے اور محض اس بناء پر توجہ کا طلب گار ہو کہ ظفر اقبال کا بیٹا ہے تو یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسے اقدامات سے خود اخبار یا جریدے کا وقار مجروح ہوتا ہے‘ شاعر تو وہ اتنا ہی رہے گا جتنا اور جیسا وہ ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے معاملات پر لوگ نظر رکھتے اوراپنے اپنے نتائج اخذ کرنے میں حق بجانب ہوتے ہیں‘ ورنہ کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ٹیلنٹ اپنے آپ کو خود منوا لیتا ہے‘ اسے کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسے فیصلوں سے کسی کا قد چھوٹا یا بڑا کیا جا سکتا ہے‘ چنانچہ اس بدسلوکی کے بعد بھی ڈاکٹر ابرار احمد اتنا ہی بڑا نظم گو رہے گا جتنا کہ وہ ہے‘ اس لیے خود معتبر جرائد و اخبارات کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے ایسے اظہارات سے ان کے اپنے وقار اور احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے کہ یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے جس کے کُفران سے جہاں تک ہو سکے اجتناب کیا جانا خود ان کے اپنے بھی حق میں جاتا ہے کیونکہ اچھی شہرت بھی ایک آبگینے سے کم نازک نہیں ہوا کرتی ؎
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
اور‘ اب آخر میں وسیم تاشف کے دو اشعار‘ جن کا تعلق بہاول نگر سے ہے اور جو میری جائے پیدائش بھی ہے:
کسی کی دیکھ بھال میں گزر گیا
یہ دن بھی ہسپتال میں گزر گیا
درخت مل کے نہاتے ہیں تیز بارش میں
اور ابر دور سے تصویر کھینچ لیتا ہے
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں‘ ظفر
کہاں سے دور ہے دنیا‘ کہاں سے دور نہیں