نیاز مرحوم نے روپے پیسے کی دُھول کبھی نہیں اڑائی۔ تنگدست بھی نہیں رہے‘ دُوراندیش‘ معاملہ فہم اور کاروباری حد تک کاروباری بھی تھے۔ کراچی میں دو منزلہ ذاتی مکان تقریباً چالیس ہزار روپے میں خرید لیا تھا‘ جو عابد منزل سے بدل کر اب نیاز منزل کہلاتا ہے۔ یہ بھی کسی نے لکھا ہے کہ ایک زمانے میں فلمی کاروبار بھی شروع کیا تھا‘ مگر اس میں چل نہ سکے‘ البتہ فلمیں دیکھنا نہیں چھوڑیں اور وہ بھی زیادہ تر انگریزی۔ ذاتی توہین بہت کم برداشت کرتے اور عدالتی کارروائی بھی کر گزرتے۔ مدرس بھی اچھے تھے۔ حکیم اجمل خاں کے انگلش سکول کی ہیڈ ماسٹری کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے انہی کو منتخب کیا تھا۔
میں جب آخری بار (12 ستمبر 65 ء) کو ان سے ملا ہوں‘ (دیکھ ایک روز پہلے چکا تھا‘ جناح ہسپتال جا رہے تھے ٹیکسی میں) تو بظاہر تندرست دکھائی دیئے‘ مطالعے کے کمرے میں سے چل کر کمرۂ استقبالیہ میں آئے اور بڑھ کر مجھے پہلی اور آخری بار گلے سے لگا لیا۔ ان کی نگاہوں میں مظلومیت اور محبت کی ملی جُلی کیفیت دل کے پار ہوئی جاتی تھی۔ کسی قدر کھوئے کھوئے سے گُم سُم‘ چُپ چُپ‘ بولتے وہ یوں بھی کم تھے‘ بجز خلوتیانِ راز کے۔ رعشہ بڑھا ہوا تھا‘ کینسر کے زخم کی وجہ سے مُونچھیں بڑھ گئی تھیں اور بھلی لگتی تھیں‘ کیمرہ ہوتا تو اس وقت کی تصویر یادگار ہی نہیں نادرۂ روزگار ہوتی۔ ہماری موجودگی میں ان کے ایک عزیز ڈاکٹر تھے یا شاید وکیل‘ آ گئے اور پاک بھارت جنگ پر کچھ باتیں گوش گزار کرتے رہے جنہیں مرحوم نے بڑی توجہ سے سُنا‘ خود کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔
میں تنہا نہیں تھا‘ شیخ محمد صادق اور اقبال ہاشمی سعادتِ دید میں شریک تھے۔ اپنے ساتھیوں کا تعارف میں نے یہ کہہ کر کرایا کہ یہ لوگ آپ کے چاہنے والوں میں سے ہیں‘ کہیں کہیں آپ سے نظریاتی اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ ٹُکر ٹُکر دیکھتے رہے‘ بولے کچھ نہیں۔ برادر عزیز سرفراز نے ٹیپ ریکارڈر کا ذکر کیا، اتفاق سے اس وقت میرے پاس ایک فیتہ ایسا تھا جس میں حیرت شملوی کی آواز مقید ہے‘ جی چاہا حیرت کی آواز نیاز صاحب کو سنوا دوں۔ سرفراز نے ٹیپ ریکارڈر لا کر رکھا‘ بٹن دبایا گیا‘ پتا چلا اس کی ساخت کچھ اور ہے اور یہ فیتہ یہاں کام نہ دے گا۔ اس تمام کارروائی کو نیاز خاموشی سے دیکھتے رہے‘ معترض نہیں ہوئے۔ میں نے سرگوشی میں سرفراز سے پوچھا‘ اپنے ابّا کی آواز بھی کسی فیتے میں بھری یا نہیں‘ بولے اس کی اجازت نہیں‘ تُم کہو تو شاید مان جائیں۔ مگر ہمت میری بھی نہ پڑی اور بات رہ گئی۔ اقبال ہاشمی مُصر تھے کہ میری بیاض نیاز کی قلمی تحریر سے خالی رہ گئی تو تازیست خلش رہے گی۔ ناچار اس شوق فضول کے پیش نظر جرأت رندانہ سے کام لینا پڑا اور یہ کہہ کر میں نے بیاض آگے بڑھا دی۔۔۔۔ آپ کا تصّور خدا کیا ہے؟ ممکن ہے یہ ان کی آخری تحریر ہو جو ایک عقیدت مند کی بیاض میں نقل ہوئی ہے۔ آئیے خدا کی باتیں آپ بھی سُن لیجیے:
خُدا کا تصّور اور خُدا کا وجود دونوں ایک دوسرے سے مختلف باتیں ہیں‘ یہاں تک کہ خود انسان نے جو تصورِ خُدا کا قائم کیا ہے وہ بجائے خود ثبوت ہے اس امر کا کہ وہ حقیقتِ خداوندی سے بے خبر ہے۔ چوں نہ دیدیم حقیقت رہِ افسانہ زدیم (12-9-1965 نیاز فتح پوری)
اس کے بعد وہ آٹھ مہینے زندہ رہے‘ زندہ کیا رہے مر مر کے جیتے رہے۔ وہ جو ہوا کے زور سے درخت کی ٹہنی سمیت کنوئیں میں جا لٹکا اور نکل آیا‘ بھنور میں ڈوبتی ہوئی کشتی سے چھلانگ لگا کر کنارے آ لگا‘ سوتے میں آگ کی لپیٹ میں آ کر بچ نکلا‘ دلدل میں پھنس کر گھوڑے کو تو نہیں اپنی جان بچا لایا۔ دو قدم پر بیٹھے ہوئے شیر کو اپنی موجودگی کے احساس سے بے خبر رکھ لینا‘ ڈاکوئوں کے نرغے میں گھر کر سلامت رہنا‘ ریلوں کی ٹکّر میں خراش تک نہ آنا‘ کراچی کے موٹر رکشا بالفاظ دیگر ''موت کے گولے‘‘ پر سفر کرنا اور معمولی زخم کھانا‘ مولویوں کی دسترس سے باہر رہنا اور آخر کار ایک پِھنسی سے زیر ہونا تعجب خیز تو ہے مگر جو چیز نیاز جیسی بھاری بھرکم ہستی پر غالب آ جائے‘ اس کی بلاخیزی میں شک ہی کیا رہ جاتا ہے۔ سرطان کا علاج دلیّ کے ایک ایسے حکیم کے سینے میں دفن ہوا جس نے محلّہ بھر کے کہنے سُننے اور خوشامد کے باوجود حکیم اجمل خان کو خالی ہاتھوں واپس کر دیا۔ جناح ہسپتال اور زمانہ بھر میں درد دل اور زخم جگر کا علاج تو ممکن ہے مگر اس مُوذی سرطان کا کوئی توڑ نہیں۔ مرض کبھی بڑھا کبھی گھٹا‘ مجموعی طور پر یہ کہنا بجا ہو گا۔۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی۔ ہسپتال جاتے جاتے بھی بیوی بچوں کے لیے نون تیل، لکڑی کی فکر میں، سید محمد تقی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
بہرحال یہ بضاعتِ حقیر حاضر ہے‘ اس سے کام لیجیے یا نہ لیجیے‘ میں تو اب چلا۔ اگر اتفاق سے جانبر ہو گیا تو خیر ورنہ ان مقالات کا معاوضہ میری بیوی گلزار بیگم کو بذریعہ منی آرڈر یا دستی اس پتہ پر بھیج دیا جاوے۔ ستمبر تک کا حساب صاف ہو چکا۔ یہ سُن کر جوش نے خُوب کہا ''اور اس مُلک میں پیدا ہو‘‘۔ بہرحال نیاز صاحب کے ہاں مرتے مرتے احساس فرض بھی نمایاں ہے۔
مرض الموت میں بھی نیاز کے حوصلے بلند‘ ولولے جوان اور ہمت قوی رہی۔ محب گرامی پیرزادہ لطیف الرحمن صدیقی مزاج پُرسی کے لیے جانے لگے تو مُلاّ واحدی صاحب نے کہا ‘یہ فرض میری طرف سے بھی ادا کر دیجئے گا۔ معذور ہوں ورنہ خود حاضر ہوتا۔ پیرزادہ جب ہسپتال سے رخصت ہونے لگے تو نیاز نے فرمایا واحدی سے کہہ دیجیے گا ''میں موت سے نہیں ڈرتا‘‘ وہ تو آ کر رہے گی‘ میں مسلمان ہوں اور مسلمان مروں گا‘ اس کے گواہ آپ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے قلم سے یہ فقرہ بھی موجود ہے‘ میں ایک سُنی مسلمان ہوں‘ اس سے نہ کچھ زیادہ نہ کم۔
کوئی علاج کا رگر نہ ہوا اور وہ بھی مر گیا جس کی موت پر ممکن ہے آسمان خود بھی پشیمان ہوا ہو۔ نگار زندہ ہے مگر کب تک۔ کل وہ آج اس کی باری ہے۔ البتہ نگارشات نیاز امر ہیں گویا۔نیاز مر گئے لیکن نیاز مر نہیں سکتے۔29 دسمبر 1968 ء
نوٹ:گزشتہ کالم میں ارشد نسیم کا نام ارشد نعیم پڑھا جائے۔
آج کا مطلع
سخن سرائی تماشہ ہے‘ شعر بندر ہے
شکم کی مار ہے‘ شاعر نہیں مچھندر ہے