صبح کی واک کا مزہ اس وقت دوبالا ہو جاتا ہے جب تازہ اور ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی ہو‘ اور جب یہ آپ کے گالوں کو تھپتھپاتی ہوئی گزرتی ہے تو واک کے پیسے وہیں پورے ہو جاتے ہیں۔ تازہ ہوا جب اندر پہنچتی ہے تو آپ کے پھیپھڑے دعا دیتے ہیں جس طرح پانی پینے سے آپ کے گردے دعا دیتے ہیں۔ خوبصورت منظر دیکھنے سے آنکھیں لذیذ کھانا کھانے سے زبان اور عمدہ بات سوچنے سے آپ کا دماغ آپ کو دعا دیتا ہے‘ سو‘ یہ دعائیں دیتے اور لیتے رہنا چاہیے اور مثلاً ہوا پھانکتے ہوئے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا ضروری ہے اور اگر آپ نیچرسٹ ہیں تو فطرت کا شکریہ۔
واک جہاں آپ کے وزن کو بڑھنے سے روکتی ہے وہاں بڑھے ہوئے وزن کو کم کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ ایک صاحب کا وزن بہت بڑھ گیا تو وہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد انہیں کہا کہ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ آپ ہر روز پانچ میل پیدل چلا کریں اور ایک ہفتے کے بعد مجھے رپورٹ کریں سات دن کے بعد اُن صاحب نے ڈاکٹر کو فون کر کے کہا:
''ڈاکٹر صاحب! میں اپنے گھر سے 35میل دور پہنچ چکا ہوں‘ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ تاہم‘ ڈاکٹروں کے پاس ڈاکٹری ہی نہیں‘ ایک منطق بھی ہوتی ہے جس سے وہ مریض کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایک صاحب ایک بہت پیچیدہ مرض میں مبتلا ہو گئے جس کا علاج صرف اور صرف آپریشن تھا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد انہیں کہا کہ یہ بہت بڑا آپریشن ہے اور اس پر خرچ بھی کافی آئے گا۔ مریض نے کہا‘ آپ خرچ کی پروا نہ کریں۔ پھر ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ اس میں بچنے کے امکانات صرف دس فیصد ہیں‘ جس پر مریض منہ لٹکا کر بیٹھ گیا تو ڈاکٹر بولا‘
''میں نے اب تک 9مریضوں کا آپریشن کیا ہے اور وہ سب کے سب اللہ کو پیار ے ہو چکے ہیں۔ آپ تو دسویں ہیں‘ آپ کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
تاہم‘ ڈاکٹروں ہی کی نہیں‘ مریض کی بھی اپنی منطق ہوتی ہے۔ ایک بزرگ ڈاکٹر کے پاس گئے اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب میری دائیں ٹانگ اکثر سوئی رہتی ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ کوئی بڑی بات نہیں‘ یہ عمر کا تقاضا ہے۔ جس پر بزرگ بولے، ڈاکٹر صاحب ‘ میری بائیں ٹانگ کی عمر بھی تو اتنی ہی ہے‘ یہ کیوں نہیں سوتی؟‘‘
کچھ دور ہی نکل گیا‘ معافی چاہتا ہوں۔بتانا یہ چاہتا تھا کہ پھول مزید کم ہو گئے ہیں جن پیلے پھولوں کا پچھلی بار ذکر کیا تھا‘ کم و بیش پورے کے پورے جھڑ چکے ہیں جبکہ انار کے پھول بھی غائب ہیں اور ان کی جگہ سبز سبز انار نکل آئے ہیں۔ شفیق الرحمن ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اونٹ جب پیدا ہوتا ہے تو بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے جتنا کہ ایک بڑا اونٹ۔ مطلب یہ کہ انار شروع میں ہی ایسے ہیں کہ دور سے ہی نظر آتے ہیں جبکہ سٹرس پھلوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے جن کی بڑھوتری خاصی صبر آزما ہوتی ہے۔ چنانچہ گریپ فروٹ‘ کِنوں اور موسمی‘ ایسی محبوبائیں ہیں جو ابھی کافی انتظار کھینچوائیںگی۔
قحط گل کے اس موسم میں ایک حشر جو بہت جلد بپا ہونے والا ہے وہ املتاس کے پھولوں کا ہے جن کی کلیاں نمودار ہو رہی ہیں اور جو نکلنے میں کوئی ہفتہ ڈیڑھ مزید لیں گی اور جس کی خوشخبری پیشگی دے رہا ہوں۔ اس پر پچھلے سال بھی پھول آئے ہوں گے چونکہ املتاس کے دو ہی پودے ہیں۔ ایک پر اس کا ایک بانسری نما پھل بھی لٹک رہا ہے جو پہلے تو سبز تھا لیکن اب سیاہ ہو چکا ہے۔ پچھلی دفعہ جب اس پر پھول آئے تو میں شہر منتقل ہو چکا تھا اور‘ اب میں واک کرنے کے بعد جہاں ایکسر سائز وغیرہ کرنے کے لیے بیٹھتا ہوں‘ دونوں پیڑ وہیں پر ہیں اور میں ان کی کلیوں کو للچائی ہوئی نظروں سے ہر روز دیکھتا ہوں کہ ابھی یہ کھلنے میں اور کتنا وقت لیں گی۔ کچنار کے پھول بھی چار دن بہار جانفرا دکھلاتے ہیں جو سفید بھی ہوتے ہیں اور جامنی رنگ کے بھی۔ اوّل تو یار لوگ پھول بننے کا موقعہ ہی نہیں دیتے اور اس کی کلیاں پکانے کے لیے توڑ تاڑ کر برابر کر دیتے ہیں اور ‘ میں ان سب پر لکھتا اس لیے رہتا ہوں کہ یہ خود مجھے ایسا کرنے پراکساتے ہیں۔ یہ خطرہ مول لیتے ہوئے کہ قاری شاید اسے پسند نہ ہی کرتے ہوں۔ میں نے شاعری میں بھی ہمیشہ اپنی پسند ہی کا رسک لیا ہے !
حضرت سرخاب سے آج پھر ملاقات ہو گئی۔ میں اسے کمادی ککڑ اس لیے بھی نہیں کہوں گا کیونکہ یہ سرخاب نہ ہونے کے باوجود ایک خوبصورت چیز ہے۔ اس کے پروں کا رنگ واقعی سرخ تو نہیں لیکن برائون ہے اور اس کے سیاہ رنگ کے پس منظر میں بہت بھلا لگتا ہے‘ اس لیے اس کے بارے میں میرے جذبات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ جسے آپ ایک بار پسند کر لیں اور اچھا سمجھ لیں ‘ اسے برا کہنا اور سمجھنا بڑی مشکل چیز ہے۔ امید ہے کہ میرے بارے میں بھی اس کے خیالات تبدیل نہیں ہوئے ہوں گے! تاہم اصلی سرخاب کے حوالے سے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اسے سرخاب کیوں کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دو لفظوں سے بنا ہے سرخ اور آب۔ یہ سرخ تو ہے‘ جتنا بھی ہے۔ لیکن پانی کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے کہ پانی کا پرندہ تو مُرغابی ہے جو مرغ اور آب سے بنا ہے یعنی پانی کا پرندہ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ مچھلی جو رہتی ہی پانی میں ہے بلکہ پانی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی‘ اس کا نام رکھتے وقت کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ اسے بھی کسی طرف سے پانی کے ساتھ جوڑ دیا جائے جبکہ کھایا اسے اتنے ذوق و شوق سے جاتا ہے بلکہ اس کی بجائے مگرمچھ جیسی خوفناک چیز کا حصہ اسے بنا دیا گیا‘ حتیٰ کہ کان یا ناک میں پہننے کا ایک زیور بھی مچھلی کہلاتا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ بکرے اور گائے بھینس کے بازو سے نکلنے والی گوشت کی بوٹی کو بھی مچھلی ہی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ مچھلی کو پانی کی رعایت سے کم از کم پاناما تو کہا جا ہی سکتا ہے کیونکہ پھسل کر لیک کرنے میں اس کا بھی جواب نہیں ہے اور جس کا مطلب ہے کہ اسے بڑی آسانی سے پاناما لیکس بھی کہا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں گھڑے کی مچھلی وہ ہوتی ہے جسے جس وقت چاہے پکڑ کر کھا پی لیا جائے یعنی اسے پکڑنے کے لیے جال یا کنڈی لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے کہ سیاسی جماعت میں ایک لیڈر ہوتا ہے اور باقی سب گھڑے کی مچھلیاں ‘ جنہیں تل کر بھی پکایا جا سکتا ہے اور شوربے کے ساتھ بھی۔ اپنا ایک گم شدہ شعر یاد آ رہا ہے‘ سن لیجیے ؎
بہت زیادہ ضروری ہے مچھلیوں کی طرح
یہ رات دن مری آنکھوں کا آب میں ہونا
آج کا مطلع
جو کیا ہے‘ اس انتظام کو دیکھ
نام کو چھوڑ‘ میرے کام کو دیکھ