شدید حبس اور گرمی میں بادلوں اور بارش کا نزول ایسے ہی ہے ع
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
بادل تو رات ہی کو تن گئے تھے لیکن برسے کوئی پچھلی رات سے شروع ہو کر چار ساڑھے چار بجے صبح تک ؛ چنانچہ اس کے استقبال کے لیے میں پونے چار بجے ہی پورچ میں تھا۔ بادل گرج‘ بلکہ میری چھوٹی پوتی کے بقول کھڑک بھی رہا تھا اور برس بھی جبکہ ساتھ ساتھ بجلی بھی چمکنے کے علاوہ کڑک رہی تھی۔ اس کیفیت پر دو شعر جو یاد آ رہے ہیں یہ تھے: ؎
بادل کی سیاہ سرزمیں پر
بجلی کا درخت سا اُگا تھا
وہ ابر سر میں گرجتا ہے آج کل بھی ظفرؔ
ابھی لہو میں وہ بجلی کہیں چمکتی ہے
ہوا اور ٹھنڈ اتنی تھی کہ سویٹر منگا کر پہننا پڑا۔
دو خبریں میرے پاس اور بھی ہیں۔ ایک تو سورج مکھی کا وہ پھول جو شاید بارش اپنے ساتھ لے کر آئی تھی کیونکہ اس سے پہلے وہ کہیں یہاں نہیں دیکھا گیا‘ یعنی پورے علاقے میں ایک ہی پودا اور اس کی چوٹی پر دمکتا ہوا یہ پھول جو قحطِ گُل کے اس موسم میں ایک الگ شان سے کھڑا تھا۔ یہ خود رَو ہی ہو سکتا ہے ورنہ صرف ایک پودے کے کیا معنی ہوئے۔ سورج مکھی کے پھول ہی سے میں نے گُلِ آفتاب بنایا تھا جو بعد میں گلافتاب بن کر میرے دوسرے مجموعے کا سرنامہ ہوا۔ آبِ رواں میں یہ اس طرح سے تھا ؎
کہیں پربتوںکی ترائیوں پر ردائے رنگ تنی ہوئی
کہیں بادلوں کے بہشت میں گُلِ آفتاب کھلا ہوا
یہ مجھے یاد نہیں ہے کہ بہشت کو میں نے مذکر کیوں باندھ دیا تھا حالانکہ بالعموم اسے مونث ہی باندھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بہشت میں حوروں کی بجائے صرف مولوی صاحبان ہی ہوں!
بارش رکی تو سرخاب صاحب بھی قریب ہی گھاس پر آ برا جمان ہوئے۔ آفتاب بولے کہ یہ چونکہ ذرا بڑی اور بھاری ہے اس لیے مادہ ہے اور عقاب سمیت کئی پرندے ایسے ہیں جن کی مادہ نر سے فربہ اور بڑی ہوتی ہے ۔ عقاب کی مادہ کو بازکہتے ہیں جسے ہم آج تک نر ہی قرار دیتے آئے ہیں۔ اور یہ اس قدر تند خُو ہوتی ہے کہ اگر زیادہ ناراض ہو جائے تو اپنے خوفناک پنجوں سے اسے چیڑ پھاڑ کر مار بھی ڈالتی ہے۔ نیز یہ کہ پرندہ جب اپنی مادہ کو متوجہ کرنا چاہے تو دو آوازیں نکالتا ہے جبکہ مادہ جواب میں اپنی رضا مندی کا اظہار ایک ہی آواز سے کرتی ہے۔ چونکہ شکار موصوف کا شعبہ خاص ہے اس لیے شکاری لوگ تیتر اور بٹیر سمیت ہر پرندے کی آواز نکال سکتے ہیں۔
پھول چونکہ املتاس ہی کے دستیاب ہیں اس لیے بھنورے کو انہی پر اکتفا کرنا پڑتی ہے۔ یہ چونکہ پھول پر منڈلاتا رہتا ہے اس لیے اسے عاشق کے ساتھ بھی تشبیہ دی جاتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ عاشق کو بھنورے کا لقب دیا گیا ہے۔ یہ شہد کی مکھی کے برعکس ہر ایک پھول ہی کا مزہ چکھتا ہے۔ گویا اس کا بوسہ لیتا ہے اور پھر اگلے پھول پر‘ حالانکہ شہد کی مکھی تسلی سے رس چوستی ہے‘ شاید اس لیے کہ اسے شہد بنانا ہوتا ہے جبکہ بھنورے میاں تو کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے۔ چنانچہ یہ اگر عاشق ہے بھی تو ہرجائی قسم کا۔
کُتوں کو نہانے کے لیے پول میں چھوڑا گیا تو وہ چھوٹی کتیا سمیت تیرکر باہر نکل آئے۔ انسان کے علاوہ تمام کے تمام جانور جبلی طور پر پیراک ہوتے ہیں۔ مثلاً ہاتھی کے ایک دن کے بچے کو اگر گہرے پانی میں چھوڑا جائے تو وہ تیر کر باہر نکل آئے گا۔ حتیٰ کہ دو ماہ کا انسانی بچہ بھی تیرنا جانتا ہے۔ آفتاب نے اپنے کیمرے سے ایک وڈیو دکھائی جس میں دو ماہ کے بچے کو اس کی ماں گہرے پانی میں جب تھوڑی دیر کے لیے چھوڑتی ہے تو وہ سانس بند رکھتے ہوئے تیرنے کے لیے باقاعدہ ہاتھ اور پائوں چلاتا ہے اور پریشان ہونے کی بجائے سمائل دیتا ہے کیونکہ وہ ماں کے پیٹ میں ایک واٹر بیگ ہی کے اندر ہوتا ہے اور پانی اس کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہوتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بچہ تیرنے کا
باقاعد ایکشن دیتا ہے اور اسی طرح ہاتھ اور ٹانگیں چلاتا ہے۔ اس پر مغرب میں بہت ریسرچ ہو چکی ہے اور فلموں کے ذریعے اس کا ریکارڈ بھی تیار کیا گیا ہے جومارکیٹ میں دستیاب ہے‘ البتہ آدمیوں کو تیرنے کی مشق کرنا ہوتی ہے۔ میں پھلوں اور پھل کے پودوں کا جو ذکر بار بارکرتا ہوں تو اس لیے کہ میں انہیں بسر کرتا ہوں‘ یہ میرے ہم جلیس ہیں۔ پاکستان اس لیے بھی ایک نہایت خوش نصیب ملک ہے کہ یہاں پھل کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سلسلے کی اہم تحقیق یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک پھل نہیں‘ بلکہ زیادہ سے زیادہ دستیاب پھل ملا کرکھانا چاہئیں۔ اور پھل کا اصول یہ ہے کہ یہ خالی پیٹ کھائیں کیونکہ یہ جلد ہضم ہو جاتا ہے اور اگر کھانے کے ساتھ یا بعد کھایا جائے تو کھانا دیر سے ہضم ہوتا ہے اور پھل ساتھ ساتھ خواہ مخواہ خوار ہوتا رہتا ہے۔ پھلوں کی چاٹ بنا کر کھانی چاہیے۔ لیکن چاٹ مسالے کے بغیر۔ دستیاب موسمی پھل‘ کوئی بھی ہوں مثلاً آج کل سیب ‘ کیلا‘ پپیتا‘ خربوزہ‘ تربوز ‘ چیکو اور لوکاٹ کی چاٹ بنائی جا سکتی ہے۔ سیب کے بارے میں تاکید ہے کہ اسے چھیل کر نہیں بلکہ چھلکے سمیت کھانا چاہیے لیکن آج کل اس پر چونکہ زہریلے سپرے کئے گئے ہوتے ہیں جو دھونے سے دور نہیں ہوتے‘ اس لیے اسے چھیل کر کھانا ہی بہتر ہے۔ مکسڈ فروٹ کی سب سے بڑی اہمیت اور فضیلت یہ ہے کہ یہ کینسر کا حتمی علاج ہے۔ یہ کینسر ہونے سے بچاتا اور کینسر کے مریض کو شفا دیتا ہے۔
کچھ عرصے سے میرا کھانے پینے کا شیڈول ذرا مختلف ہے یعنی صبح اٹھتے ہی کم از کم دو گلاس تازہ پانی‘ ایک یاد دو گھنٹے کے بعد مکسڈ فروٹ اور پھر دو اڑھائی گھنٹے بعد جب بھوک لگے تو ناشتہ نہیں بلکہ کھانا‘ یعنی سالن کے ساتھ روٹی‘ اس کے بعد سارا دن کچھ نہیں کھانا‘ صرف منچنگ کی جا سکتی ہے یعنی چائے‘کافی ‘ بسکٹ اور ابلا ہوا انڈہ وغیرہ۔ رات کا کھانا بھی پیٹ بھرکر نہیں کھانا۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں جو اس پر عمل کرنے ہی سے ظاہر ہو سکتے ہیں۔ سافٹ ڈرنکس اور یخ ٹھنڈا پانی نہیں پینا‘ خاص طور پر یہ نام نہاد جوسز جن میں ایسنس ہوتا ہے اور چینی۔ تازہ پانی کے دن بھر میں بارہ چودہ گلاس پینا نہایت ضروری‘ تاہم یہ ضروری نہیں کہ آپ بھی اپنا بنا بنایا شیڈول تبدیل کریں‘ تاہم پھل اسی طریقے سے کھانا ہیں۔ واضح رہے کہ فاسٹ فوڈز بھی صحت کے لیے اچھے نہیں ہیں۔
آج ہماری واک تو بارش کھا گئی۔ ایسا لگتا ہے کوئی بہت بڑا خلا باقی رہ گیا ہے۔ البتہ اس چڑیا سے کوئی چھ ماہ کے بعد دوبارہ ملاقات ہو گئی جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور جو ہماری عام چڑیا سے وزن میں کسی قدر زیادہ ہوتی ہے اور کھانے کے قابل بھی۔ ویسے تو ہم عام چڑیوں کو بھی نہیں چھوڑتے جبکہ گوجرانوالہ وغیرہ میں چڑوں کی شامت زیادہ آئی رہتی ہے۔ اس کی دم عام چڑیا سے تقریباً دوگنا لمبی ہوتی ہے اور اس کے پروں کے نقش و نگار بھی نسبتاً مدھم ‘ تاہم ہماری عام چڑیوں کے برعکس یہ پتا نہیں چلتا کہ ان میں چڑیا کون سی ہے اور چڑا کون سا۔
آج کا مطلع
تنہائی آئے گی‘ شبِ رسوائی آئے گی
گھر ہے تو اس میں زینت و زیبائی آئے گی