حضرت رئیس امروہوی
کتابیں جمع کرنے کا شوق بالکل نہیں ہے‘ پڑھنے کی دھت پرانی ہے۔ اتنا بڑا نیم کا پیڑ گھر میں ہے تو جھولا بھی چھوٹا کیوں ہو‘ کھری چارپائی ایک زمانے میں لٹکی رہتی تھی‘ جھولے لُونگھتے اور پڑھتے رہتے۔ اپنے موضوع‘ اپنی پسند کی کتابیں تالے میں رکھتے اور استفادے کے بعد ادھر ادھر ڈال دیتے ہیں‘ بڑا حصہ میرے کتب خانے ''مبارک اردو لائبریری‘‘ کے لیے بھجوایا جاتا ہے۔ ہر کتاب رسالے پر ضرور دستخط کرتے ہیں۔ کراچی کے کتب خانوں کے رُکن اور خود جا کر کتابیں لاتے ہیں‘ کتب خانے کی امانت میں کوشش یہ کرتے ہیں خیانت نہ ہو‘ کوئی لے نہ اڑے۔ انگریزی‘ اردو‘ فارسی تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں‘ انگریزی بولی نہیں جاتی‘ پڑھتے اور سمجھتے خوب ہیں۔ ایک انگریزی فلم''لارنس آف عریبیا‘‘ میں نے لے جا کر دکھائی‘ اس میں عورت نام کی کوئی چیز نہ تھی‘ وقفہ ہوتے ہی گردن گھما گھما کر حسین چہرے تلاش کرنے میں انہیں ناکامی نہیں ہوئی۔ لوگ کتابیں تبصرے کے لیے بھیجتے ہیں‘ یہ تعارف کافی سمجھتے ہیں‘ تنقید وہ نہ لکھ سکتے ہیں نہ کر سکتے ہیں‘ وہ تو بس ہر ایک کا دل رکھنے والی بات کرتے ہیں‘ کیسی ہی بے جان غزل ہو‘ مہمل مضمون ہو‘ یہی کہیں گے بہت اچھی غزل ہے‘ بہت اچھا مضمون ہے‘ حوصلہ افزائی ان کے خمیر میں ہے‘ اس سے رہنمائی کا حق ادا نہیں ہوتا نہ ہو‘ رئیس کو غرض نہ واسطہ‘ نقصان یہ ہوتا ہے ہم بانس پر چڑھ جاتے ہیں خواہ مخواہ۔ میں نے مشاہیر کے چند خطوط اپنی حاشیہ آرائی کے ساتھ ''نوازش نامے‘‘ کے عنوان سے انور عارف نے ساتھ دیا تو چھپوا لیے تھے۔ نسخہ اوّل پیش ہوتے ہی فرمایا‘ اب یہ حق ہے کہ آپ کی پیشانی چوم لی جائے اور سچ مچ چوم بھی لی‘ یہ ان کی بزرگانہ شفقت اور دوستانہ مروّت ہی تو تھی۔ بابائے اردو مشہور مقدمہ باز تھے‘ رئیس نے مقدمہ نگاری سے بھی ہاتھ کو نہیں روکا ۔ رسمی‘ سرسری اور تعریفی مقدمے بالکل ٹھس کتابوں پر کثرت سے لکھے‘ مداحانہ شان تو پائی جاتی ہے‘ محققّانہ آن بان نہیں۔
شاعروں، ادیبوں، سیاست کاروں سے ملنے ملانے کھل کھیلنے میں مَیں خاصا جھینپتا تھا اور شاید یہ کمزوری ہنوز باقی ہے‘ میرے اس احساسِ کمتری کو رئیس نے پہلی ہی ملاقات میں ختم کر دیا‘ حضرت کی سرکردگی میں تینوں بھائیوں نے اس طرح ہاتھوں ہاتھ بڑی عزت اور احترام اور اپنائیت سے لیا جیسے میں کوئی اہم شخصیت ہوں۔ اس میں تصنّع بالکل نہ تھا‘ چار سو میل سے آنے والے خوشہ چین کے خلوص اور وفا پیشگی کا بھرم رکھنا کوئی ان سے سیکھے۔ میرا گنوار پن اور جہالت قطعاً آڑے نہیں آئے‘ بے تکلف دنیا بھر کی باتیں سنتے سناتے رہے‘ ہمارے ''اعزاز‘‘ میں دعوت کا اہتمام بھی کیا گیا۔ ملاقاتیں بڑھیں‘ اعتماد بڑھا تو لے جا کر بیوی بچوں میں بٹھایا اور گھر کا ایک فرد بنا لیا‘ مجھے آگے بڑھانے میں خاصی دلچسپی بھی لی۔ نشر و اشاعت کے منصوبے میں مجھے رفیق کار اور برابر کا حصہ دار بنایا‘ پیر حسام الدین راشدی سے کہہ سن کر دو قلمی نسخے اپنے داموں پر دارالآثار کے لیے خریدوائے‘ چُوک ان سے یہ ہوئی کہ روپیہ میرے کھاتے میں جمع کرایا اور وہ میں نے چرا چرا کر ضائع کر دیا‘ کام میں خلل پڑ گیا‘ ملول تو وہ بہت ہوئے مگر یہ ان کا حوصلہ تھا میری بے اعتدالیوں اور عاشقانہ وارفتگی کو میری معصومیت اور نادانی جان کر درگزر سے کام لیا۔ تھوڑے سے وقفے سے ہاتھ پائوں مار کر وہ بلا شرکت غیرے کامیاب تاجر کتب بن گئے اور ہم وہیں کے وہیں رہے۔ مجھ سے تعلقِ خاطر بلا مبالغہ بے پناہ ہے‘ وہ دوستی کے رشتے کو خون کے رشتے میں بدل دینے اور میرے بیٹے کو اپنی بزرگی میں لینے کے لیے ہمہ تن تیار تھے مگر یہاں مشکل یہ آ پڑی کہ گھر کے رشتے پہلے طے ہو چکے تھے۔ رئیس میری باتوں کو تو ٹال جاتے ہیں مگر سُنتے پوری توجہ سے ہیں‘ میں بھی جلی کٹی سب سنا دیتا ہوں۔ اٹھارہ برس ہو گئے‘ بقولِ غالب اس عمر کا تو دُشمن بھی نہیں ملتا‘ نئے دوست نہ وہ پیدا کر سکتے ہیں نہ میں، یوں ملنے ملانے والوں کی کمی کیا ہے لیکن دل کی باتیں ہر ایک سے نہ کہی جاتی ہیں نہ کوئی سمجھ پائے گا‘ بقول حیرت شملوی ؎
ہر کسی کی سمجھ میں آ جائیں
دل کے ایسے معاملات نہیں
یاد آیا، حیرتؔ شملوی خاصے معروف شاعر‘ چھوٹی بحر میں غزل کا رنگ اُستادانہ‘ زبان کی سادگی اور بندش کی چُستی وصف خاص تھا۔ جلیل قدوائی تو کہتے ہیں غزل حیرتؔ کہتے ہیں‘ ہم تو جھک مارتے ہیں۔ امتیاز علی عرشی نے پوری بیاض پڑھ کر لکھا‘ آپ موجودہ دور کے تمام غزل گوئوں کے پیشوا ہیں۔ حیرتؔ پر دہلی میں فالج کا حملہ ہوا‘ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔ ان کے دفتری دوست اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ کر سبکدوش ہوئے۔ سرکاری خدمات سے قبل از وقت علیحدگی کا صلہ سوا سو روپلی۔ شاعرانہ بزم آرائیوں اور عام مجلسی زندگی سے کٹ کر مرنے کے لیے ایک دو تین پانچ دس کہاں پورے بیس برس جینا پڑا۔ ساٹھ برس سے زیادہ عمر پائی۔ پاکستان منتقل ہوئے تھے وہ باسٹھ عیسوی میں‘ پرانے دوستوں نے درگاہ عبداللہ شاہ غازی ؒ سے منسلک کر ادیا تھا‘ لنگر سے کھانا اور یونہی سا وظیفہ بھی پانے لگے۔ بارہا میں نے کوشش رئیس کو حجرہ حیرتؔ میں لے جانے کی کر ڈالی تاکہ دیکھ بھی لیں، مقصود اصلی ایک فریش اور صاحب فکر و نظر شخص اور شاعر کی دلداری بھی تھا‘ ہاں ہوں کر کے کل پرسوں کل پرسوں کرتے رہے۔ وہ جو بات بات پر کیا‘ کسی کی ہوا کھسکی اور شعر ہو گیا، حیرتؔ شملوی مرے تو میرے شیر نے‘ ہم لاکھ سر پھوڑا کیے‘ قطعہ لکھ کے دینا تھا نہ دیا اور مجھے انسانیت کی ناقدر شناسی پر نہیں‘ صاحب سلامت کی ناقدری پر بھی ماتم کرنا پڑا، ایک خُو حضرت کی یہ بھی ہے۔ مُلاّ واحدی سے بھی یک گو نہ اجتناب ہی رہا‘ گھسیٹ لے جانے کی جدوجہد بھی بار آور نہ ہوئی‘ہاں کوثر دہلوی کے ہاں زبردستی حلیم کھانے پہنچ گئے۔ ستم ظریفی یہ ہوئی وہ اپنی مجذوبیت اور ماتمی جھمیلوں میں ٹیلیفونی وعدہ بھول بھال گئے اور ہم کو ان کی بیوی کا قطعہ تاریخ وفات لکھنے کا صلہ پائو پھر حلیم بھی نہ ملا۔
عام طور پر رئیس کااپنے ہم عصروں سے معاملہ چشمک کا نہیں‘ الفت و مروّت کا ہے۔ مولانا ماہر القادری مر گئے‘ اللہ جنت نصیب کرے، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے والا و شیدا تو تھے ہی ایک صاحبِ طرز ادیب شاعر اور نقّاد بھی تھے۔ زبان اور اس کی نزاکتوں کا بڑا خیال اور بے حد پاس لحاظ تھا۔ ان کا وجدان ایک آبگینہ بن کر رہ گیا تھا‘ خفیف سی کھنک پر تلملا اٹھتے‘ تحقیق اور تفتیش کا حق کیا ادا کرتے‘ بالکل وہ جو کہتے ہیں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتے۔ یہ روش اب عام نہیں متروک ہو چلی ہے‘ اس لگن اور مزاج کے آدمی سرمایہ ہوتے ہیں‘ ملک و قوم کا۔ ہاں تو مولانا کو بیٹھے بٹھائے مجدد بننے کی سوجھی۔ لفظ 'مواد‘ سے کیڑے نکلتے‘ پیپ ابلتی اور بدبو پھیلتی ہوئی پا گئے۔ مواد جیسے وسیع الظرف لفظ کو ہٹا ہٹو لوازمہ رکھ کر مشتہر کر دیا...
آج کا مقطع
زندہ ہے محض وعدۂ فردا پہ کیوں ظفر
چھوڑو یہ بات ‘ حوصلہ دیکھوں جوان کا