حضرت رئیس امروہوی
رئیس نے اپنے ہفتہ واری کالموں میں اس کی بھر پور حمایت کی۔ میں نے لکھا یہ کیا کر رہے ہیں۔ جواب آیا‘ بھئی مولانا ہمارے یار ہیں‘ ہم تو ان کی تائید ہی کریں گے۔ ماہر صاحب اس ایجادِ بندہ پر بہت خوش نظر آتے تھے۔ اتفاقاً مجھے یہ ترکیب مولوی عبدالحق کے ہاں مل گئی۔ اس توارد کی اطلاع میں نے دی تو سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور اسے دبا بھی لیا۔''فاران‘‘ وغیرہ میں ذکر تک نہ کیا۔ جہاں مولوی صاحب نے مات کھائی وہاں مولانا کیا تیر مارتے۔
قد کاٹھ کے لحاظ سے رئیس کا شمار لکھنؤ کے بانکوں میں ہونا چاہیے‘ کچھ تو عمر کا تقاضا بھی ہے اب تو وہ سوکھے سڑوں میں گنے جا سکتے ہیں؛تاہم جسم خاصا چھریرا ہے‘ کھڑی سُتواں ناک جسے خطرناک نہیں کہا جائے گا‘ بھورے بال ‘ بھوری روشن آنکھیں ‘ نگاہوں کے تیور تند تیز ‘ دہانہ تنگ نہ کھلا ہوا‘ مناسب اور معقول ‘ باچھیں کھلی ہوئی نہیں بلکہ تیر اور کمان کا سنگم ہے۔ پیک‘ مصنوعی دانت اترے ہوئے ہوں تب تو بہہ بھی نکلے‘ ویسے نہیں۔پتلے پتلے ہونٹ‘ عورت ہوتے تو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ میر دے ہی چکے ہیں‘ سامنے کے اوپر کے دانت تو سلامت ہیں‘ نیچے کے کچھ نکلوا دیئے کچھ بنوا لیے۔ کسی نیم حکیم کا مشورہ تھا ورنہ بچنے کو بچ بھی سکتے تھے‘ بحیثیت مجموعی چہرے کی لمبائی چوڑائی ایسی بری نہیں‘ گردن خاصی لمبی ہے‘ نقوش میں عمرکے ساتھ ساتھ وہ تیکھا پن اب نہیں رہا‘ دھیما پڑ چکا ہے ایک تصویر میں نے محفوظ کر رکھی
ہے برطانوی فلم ایکٹر وکٹر میچیور کی چھب کیسی‘ یوں لگتا ہے ‘ نقل مطابق اصل ہے‘ رنگت سرخی مائل ہے۔ بیگم صاحبہ کا کہنا یہ ہے جب پہلی بار میں نے دیکھا تو یوں جانا جیسے چاند نکل آیا ہو۔ ہزار حسین اب یہ چاند گہنا سا گیا ہے‘ کچھ داغ دھبے بھی نمایاں ہو چلے ہیں ‘ گرمی ہو سردی ہو ‘ اچکن ضرور پہنیں گے ۔ میرے سامنے تو کراچی کے سب سے اچھے درزی نذیر مرحوم سے تین تین سو روپے سلوائی دے کر سلواتے رہے۔ کالے رنگ کو ترجیح دی جاتی ہے کرتے میں نے بھی کڑھوا کڑھوا کر بھیجے‘ خود بھی کڑھے ہوئے کرتے کبھی کبھی خرید لیتے ہیں۔ جوتے ہلکے پھلکے پسند کیے جاتے ہیں۔بہاولپوری کھسے زری اور چاندی کے کام کیے ہوئے متعدد میں نے پیش کیے۔ خوب شوق سے جھم جھماتے ہوئے جوتے چلے ایک بار خوش ہو کر لکھا‘ کیا خوبصورت جوتا رسید کیا ہے۔ گھر میں عام طور پر معمولی چپل ہی گھسیٹتے پھرتے ہیں ‘ بالکل لاابالی ‘ ناخن ہاتھوں کے پائوں کے بڑھے ہوئے‘ میل بھرا ہوا‘ راہ چلتے حجاموں سے کٹوا لیے‘ کبھی خلیفہ گھر پر بھی بلوا لیے گئے۔ اب تو چند یا صاف ہو چلی ہے‘ پہلے تو خوب بالوں سے بھرا ہوا سر تھا اور وہ بالکل سیدھا سپاٹ الٹ لیا کرتے ہیں۔ پتلون کوٹ ٹائی سے بھی شوق فرمایا گیا مگر زیادہ چل نہ سکے۔ مزاج ناساز ہو تو اترے چہرے کی جھریاں خوب نمایاں ہو کر ابھر بھی آتی ہیں‘ اس حالت میں تصویر اتری تو خاصی ہیبت ناک ہی نکلی۔ ڈاڑھی مونچھوں کے جھنجھٹ میں کبھی نہیں پڑے ۔ٹوٹا پھوٹا برش ‘ گھٹیا ڈنڈا مارکہ صابن‘ شکستہ آئینہ‘ غلیظ ربڑ کی پیالی میں پانی ڈال ‘ الٹے سیدھے ہاتھ مار روزانہ تو نہیں‘ ایک دن چھوڑ کر ضرور یہ مونڈن ہوتا ہے ۔طرح طرح کے منجن اور کوئلہ وغیرہ دانتوں پر گھسا جاتا ہے۔ بیت الخلا میں پانچ سیر کا لوٹا لے کر نہ جائیں تو حق طہارت ادا نہیں ہوتا۔ بواسیر کے مریض بھی تو ہیں‘ ویسے وہ بیمار بہت کم پڑتے ہیں‘ جنسی وظیفہ وہ اس بڑھاپے میں بھی ادا کرتے ہیں‘ صاحب‘ وہ بوڑھے لگتے تھوڑے بہت ضرور ہیں مگر اس کاٹھی کے لوگ ساٹھ برس کی عمر میں بوڑھے ہوتے نہیں‘ وہ مہمانوں میں نہایت لذت انگیز گفتگو
کرتے اور رفیع احمد خان کے رنگ میں فحش اورعریاں اشعار فی البدیہہ کہا کرتے ہیں۔ افسوس یہ ذخیرہ بیاض سے یہاں نقل نہیں ہو سکتا‘ مجھ میں تو ہمت ہے ایسا کر گزروں‘ آپ کے ظرف و نظر کے آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے کہیں۔ بوڑھوں میں خوب مہذب بن جاتے ہیں‘ بچوں سے پیار کرتے ہیں مگر جسے ٹوٹ کر کہنا چاہیے وہ نہیں۔ اولادِ نرینہ کی کمی کو جان کا عذاب کبھی نہیں جانا نہ بنایا‘ چلتے بہت تیز ہیں۔ مجھے تو اپنی عام رفتار کو بھاگنے کے قریب تک بڑھانا پڑتا تھا‘ لمبے لمبے ڈگ بھرنا ان کا معمول ہے ۔
طاہر صلاح الدین کی عمر ہی کیا تھا‘ یہی کوئی بائیس پچیس برس‘ اس چھوٹی سی زندگی میں نشیب زیادہ فراز کم اس کا مقدر بنے۔ وہ تھا بھی تو مست الست لاابالی‘ اس پر عاشقانہ دیوانگی اور جنون ‘ وہ اپنے آپ میں بھی بہت زیادہ نہیں رہتا تھا۔ اس کے باوجود نہایت خلیق اور نستعلیق کھویا کھویا بجھا بجھا سا ایک البیلا نوجوان شاعر ڈیرہ غازی خاں میں پیدا ہوا۔ لاہور کہ گہوارۂ بزرگانِ عشقِ مجازی و حقیقی ہے‘ یہاں دل پر پہلی اور آخری چوٹ پڑی۔شہر سے نکل رہ جنگل کی لی‘ احساسات و و ارادت قلبی مادری زبان سرائیکی نہیں‘ اردو کے سانچے میں از خود ڈھلنا شروع ہوئے۔ شورشِ باطنی پر قابو پانا ایسا آسان تو نہیں ؛تاہم اک ذرا سانس میں سانس سمائی تو کسی کامل کا دامن تھامنے کا خیال کسے نہ آتا‘ نظرِ انتخاب رئیس صاحب پر پڑی‘ مشورۂ شعر و سخن کے علاوہ اصلاح نفس و
حال پر بھی راز دارانہ مراسلت رہی۔ اصلاح کلام کو تو وہ خاطر میں نہ لایا‘ قیس نوازی کو دیکھ کر مرید ہو گیا‘ وطن کو خیر باد کہہ کر‘ رئیس کے گھرکو اپنا گھر بنا لیا‘ مزاج شناس ہوکر دخیل بھی ہوا۔ طاہر صلاح الدین کی سعادت مندی اور خدمت گزاری کو دیکھ کر اگلے وقتوں کے استاد شاگردوں کے رشتے ناتے یاد آنے لگے۔دن بھر چلمیں بھرنا ‘ چائے اور دیگر فواکہات پیش کرنا‘ کاغذات سنبھالنا‘ بازار سے سودا سلف لانا باورچی خانے سے لے کر دفتری کاروبار میں ہمہ تن منہمک رہتا۔ رئیس بھی غضب کے جری ہیں‘ جان چکے تھے کہ یہ چوٹ کھایا ہوا انسان‘پھیپھڑے دونوں کے دونوں مجروح لیے پھرتا ہے‘ خون جگر کھاتا اور تھوکتا ہے‘کیا مجال حضرت کی جبیں شکن آلود ہوئی ہو‘ہر وقت کا ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا‘ کوئی کراہت نہیں‘ کوئی گھن کسی طرح کا پرہیز نہیں۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں سے نسخے تجویز کرائے‘ ایک سے ایک بڑھیا دوا اپنی گرہ سے خرید کر دی۔ مرض اور بدپرہیزیاں ضرورت سے زیادہ بڑھیں تو کہہ سن کر اوجھا سینی ٹوریم میں داخل کرا دیا۔ وہاں کے لوگوں کو خط لکھے فون کیے ‘ خود گئے ۔طاہر بار بار ہسپتال چھوڑ دیتے‘یہ بہلا پھسلا کر پھر وہاں بھجواتے لیکن مرض بڑھتا گیا اور جان لے کر ٹلا۔ طاہر صلاح الدین کے مرنے کی خبر رئیس کو غمزدہ اور آبدیدہ کر گئی!
آج کا مقطع
بازارِ بوسہ تیز سے ہے تیز تر‘ ظفر
اُمیّد تو نہیں کہ یہ مہنگائی ختم ہو