یہ ایک حیران کر دینے والا شاعر ہے۔ پندرہ سولہ سال پہلے ''اورکہاں تک جانا ہے‘‘ کے نام سے اردو غزلوں کا مجموعہ دے کر بھی اس نے یہی کچھ کیا تھا۔ شاہین عباس کا طلوع بھی کم و بیش اسی زمانے میں ہوا اور جدید اردو غزل ان دونوں کے ہاتھوں مزید ثروت مند ہوئی۔ اس کتاب کا پس سرورق اشفاق احمد نے لکھا تھا اور دیباچہ اس خاکسار نے۔ اسے مُحبّی آصف فرخی نے اپنے اشاعتی ادارے شہزاد سے چھاپ کر شائع کیا تھا۔ اب آصف اس سے دوسرے مجموعے کا تقاضا کر رہے تھے اور یہ اس سلسلے میں غزلوں کی چھان پھٹک میں مصروف کہ بقول اس کے اچانک کہیں سے پنجابی کا ایک مصرعہ آیا اور اسے شاعری کے ایک نئے گرداب کے حوالے کر گیا اور پھر وہی کچھ ہوا جو اس مسودے کی صورت میں میرے سامنے ہے!
غزلوں کے اس مجموعے کا نام اس نے''نیندر پچھلے پہر دی‘‘ رکھا ہے۔ حمد اور نعت کے علاوہ یہ کوئی پچاس غزلیں ہیں اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سب کی سب ایک ہی بحر یعنی 'فعلن فعلن فعلن فعلن‘ میں ہیں۔ اس طرح یہ غزلیں ایک طویل نظم کی صورت اختیار کر گئی ہیں اور ہر غزل کو اس نظم کے بند کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے اور یہ اس گرداب کے تسلسل ہی کی ایک شکل اور وجہ ہے‘ نیز ان غزلوں کا مزاج بھی کچھ ایسا ہے اور ان میں ہمواری ہی اتنی ہے کہ میری طرح انہیں ایک ہی سانس میں پڑھنا پڑے گا‘ پھر ان میں وہی رمزیت، وہی سادگی اور پرکاری دستیاب ہوتی ہے جو اس کی اردو غزلوں کا خاصہ ہے۔ یوں اس نے یہ پنجابی غزلیں بھی لکھ کر ماں بولی کا قرض ادا کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ ہماری خاکستر میں
ایسی چنگاری بھی موجود تھی جو ہمارے سینوں میں نئے سرے سے ایک آگ روشن کر دینے کا حکم رکھتی ہے کہ ہم پر اصل حق تو اس زبان کا ہے جو ہم بولتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اردو میں ہم بولتے ہیں اور پنجابی میں باتیں کرتے ہیں اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب ہم بولنا بند کر کے باتیں کرنا شروع کر دیں گے اور یہ فرق جتنا برائے نام ہے اتنا ہی مزیدار بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پنجابی میں بات کرتے وقت اردو سے قطع تعلقی کا احساس نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس پنجابی شاعری میں بھی اردو کے الفاظ بلا تکلف آئے ہیں حالانکہ ان کے پنجابی مترادفات بھی موجود تھے۔ ایک جینوئن تخلیق کار جس صنف میں بھی ہاتھ ڈالتا ہے اس کے ساتھ پورا پورا انصاف بھی کرتا ہے کہ یہ اس کی خوبی بھی ہے اور مجبوری بھی‘ کیونکہ شعر کہتے وقت اس کے سانچے سے کوئی چیز اس وقت تک باہر نکلتی ہی نہیں جب تک کہ وہ اس کے معیار پر پوری نہ اتر رہی ہو کیونکہ شاعری شعر کہنے کا نہیں بلکہ شعر بنانے کا فن ہے۔ شعر کا پتلا تو ہر کوئی بنا لیتا ہے جبکہ اصل کام اس میں جان ڈالنا ہے۔ پتلا سازی کو میں موزوں گوئی کہا کرتا ہوں۔ اکبر معصوم کا کمال یہ ہے کہ اس کا شعر ہوتا ہی نہیں بنتا بھی ہے ورنہ الفاظ کو موزوں کر لینا کونسا مشکل کام ہے اور یہ آسانی ہم میں سے بہت سوں کو حاصل بھی ہے۔
غزل گوئی میں موضوع کو کبھی زیادہ اہمیت حاصل نہیں رہی کیونکہ اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ کسی نئے مضمون کے بغیر بھی شعر بن جاتا ہے جبکہ موضوع کی تازگی اور بڑائی کے باوجود شعر شعر نہیں بنتا اور ایک کار لاحاصل ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی اور شعر بن جاتا ہے اور یہ غزل کے شعرکا خاصہ بھی ہے کہ اس سے نئے یا بڑے مضمون کا تقاضا ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ کہ شعر کو شعر ہونا چاہیے اور بس۔ اور یہ طلسم کاری کسی کسی ہی کو ودیعت ہوتی ہے یعنی یہ ہاری ساری کے بس کا روگ ہے بھی نہیں۔
میں اپنی باتوں کو اکثر اوقات دہراتا بھی رہتا ہوں‘ مثلاً میرے ''اقوال زریں‘‘ میں سے ایک یہ ہے کہ شاعری کی گاڑی میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا۔ فسٹ کلاس ہوتی ہے اور تھرڈ کلاس‘ یعنی جو شعر فسٹ کلاس نہیں ہے وہ تھرڈ کلاس ہے اور یہ بھی کہ اچھی شاعری بُری شاعری ہوتی ہے اور اچھا شاعر بُرا شاعرِ‘ کیونکہ شاعری کو غیر معمولی اور زبردست ہونا چاہیے جبکہ شاعر کو یگانہ و یکتا‘ اس جیسا کوئی دوسرا نہ ہو‘ ورنہ اچھی اور گزارے موافق شاعری ہمارے گرد و نواح میں منوں اور ٹنوں کے حساب سے ہو رہی ہے جو کسی کا بال تک بیکا نہیں کر سکتی، اس لیے بھی کہ ایسی شاعری پر کوئی قدغن نہیں ہے‘ حالانکہ ہونا چاہیے کہ تازگی اور تاثیر ہی شعر کا جوازہے اور بس۔
اکبر معصوم فسٹ کلاس کا مسافر ہے‘ اس نے پہلے بھی ہمیں خوش کیا تھا اور اب بھی اس نے یہی کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ خوشیاں بانٹنے اور بکھیرنے سے بڑھ کر افضل کام اور کوئی نہیں ہو سکتا اور ہمیں جتنا خوش ہونے کی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ آئیے اس تحفہ شاعری کا ذائقہ چکھتے ہیں :
دُنیا سانوں نظر نہ آئی
اوہ اکّھاں اگّوں نئیں ہٹیا
اوہو ای ککھ تے اوہوئی مٹّی
ساڈا بھا ودھیا نہ گھٹیا
چٹے سر نوں عشق نے رنگیا
کیہڑے پُھل کس رُتّے آ گئے
ساڈی نظرچ اوہ رنگریز اے
جو کالے نوں چِٹّا رنگے
ہے کوئی جہڑا اپنے آپ چوں
ادّھی رات نوں کلّا لنگھے
رولا تے سارا اندر سی
لوکی اُٹھ کے باہر نوں بھجّے
بُڈّھا ہون دا خوف بڑا سی
اندروں فیر جوانی کڈھ لئی
شاعر دی تے گلّ ای ہور اے
شعر وی کلے رہ جاندے نیں
کنڈے ککّھ تے کانے میرے
دیکھے کوئی خزانے میرے
مریا ہویا گیت ایں کوئی
ہُن روواں یا گانواں تینوں
تُسی وی دشمن ہو گئے اُتّوں
ساڈی اپنے نال وی جنگ اے
ہور نیں اوہ لہُو تھکن والے
سانوں عشق دی سُکّی کھنگ اے
جھڑ گئے سارے سُکّے‘ ساوے
ایسا عشق ہلُونا دِتّا
اینے دُور وی نیئں ہُن تیتھوں
یاد کریں تے یاد نہ آئیے
چُک لیّے اسمان وی سِر تے
پیراں ہیٹھ زمین تے ہووے
چنگا ہو نجا پھیرنا پئے گا
اندر بڑے کھلارے ہو گئے
بچپن کتے وی مل سکدا اے
کھیسے وچ پتاسے رکھیے
اندر عشق نے بوٹا لایا
اگّ دییئے یا پانی‘ دسّو
شہزادے مُڑ کے نیئں آئے
ہُن کیہ کرے کہانی‘ دسّو
آج کا مقطع
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں، ظفر
پھر اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے