میں پرندوں‘پیڑوں اور پھولوں پھلوں کا ذکر اس لیے کرتا رہتا ہوں کہ یہ میرے فیملی ممبرز ہیں اور اگر یہاں کوئی تھوڑی سی تبدیلی بھی آئے یا کوئی اضافہ ہو تواس کی اطلاع دینا میرے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نئے پرندے کا نزولِ اجلال ہو جائے جیسا کہ اگلے روز ہمیں لگا کہ گھاس پر ایک تیتر پھر رہا ہے۔ آفتاب نے فوراً بندوق منگوائی لیکن اسی دوران کھلا کہ یہ تیتر نہیں بلکہ سیاہ رنگ کی چھوٹی مرغابی ہے جسے کوٹ یا کہوٹ کہتے ہیں۔ حیرت اس پر ہوئی کہ یہ تو پانی کا پرندہ ہے‘ یہاں کیا لینے آ گیا اور یہ حیرت ابھی تک قائم ہے۔
آج بُھوسلے رنگ کے چار نئے پرندوں کی زیارت ہوئی جو شارق سے تو چھوٹے تھے لیکن چڑیا سے ذرا بڑے۔ آفتاب چونکہ ماہر پرندہ جات ہے اس لیے اس نے جو بتایا کہ یہ تلیئر ہیں تو ماننا ہی پڑا؛ حالانکہ تلیئر ایک تو چمکیلے سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور ایک چاکلیٹ رنگ کا سینے سے ہلکے نسواری رنگ کا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ تلیئر کی تین چار قسمیں ہوتی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ہم تو صحیح معنوں میں اسے تلیئر سمجھتے ہیں جو بڑ یا پیپل کے درخت پر اس کا پھل کم کھا رہے ہوتے ہیں اور شور زیادہ مچائے ہوئے ہوتے ہیں۔ سو‘ یہ اندازہ فوراً لگایا جا سکتا ہے کہ گائوں یا شہر میں بڑیا پیپل کا پیڑکس طرف ہے۔ حتیٰ کہ تلیئر ایک محاورہ بن چکا ہے!
کل سرخاب یعنی کمادی کُکّڑ نظر آیا تو آفتاب بولا کہ میں اسے مار دوں گا کیونکہ یہ ہمارے تیتروں کے انڈے پی جاتا ہے۔ اس سے یاد آیا کہ تقسیم سے قبل کچھ حریت پسندوں کا ایک گروہ نعرے لگاتا ہوا جا رہا تھا کہ سڑک پر جھاڑو لگاتے ہوئے ایک خاکروب سے کسی نے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں تو خاکروب نے جواب دیا کہ یہ ہم سے آزادی مانگ رہے ہیں! آفتاب نے بتایا کہ اس کا گوشت کچھ ایسا لذیذ نہیں ہوتا لیکن ہمارے رانگھڑ بھائی اسے بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ بات کسی وقت ہم اپنے شاعر دوست افضل گوہر سے کنفرم کریں گے جو کچھ عرصہ پہلے تک خود کو باقاعدہ رائو افضل گوہر کے نام سے موسوم کرتے رہے ہیں‘ حتیٰ کہ دو تین شعری مجموعے بھی اسی نام سے چھپوا چکے ہیں اور اب میری اس دھمکی پر باز آئے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے نام کے ساتھ رائو لکھنا نہ چھوڑا تو میں بھی اپنے نام کے ساتھ ''میاں‘‘ لگایا کروں گا!
کِنوں‘ لیموں اور موسمی وغیرہ کے پھل تو کافی آہستگی اور شرافت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں لیکن گریپ فروٹ ابھی سے اپنے اصل حجم سے نصف تک پہنچ چکا ہے۔ پتا نہیں اس کا نام گریپ فروٹ کس نے رکھ دیا حالانکہ گریپ یعنی انگور کے ساتھ اس کا کوئی دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ یہی صورت حال انار کی ہے جو کہ شروع سے ہی کافی بڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک بڑے پھول میں سے برآمد ہوتا ہے۔ شفیق الرحمن ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اونٹ جب پیدا ہوتا ہے تب بھی تقریباً اتنا ہی بڑا ہوتا ہے جتنا کہ ایک بڑا اونٹ۔ پھر یہ بھی لکھا کہ 'اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘ والا محاورہ غلط ہے کیونکہ پانی پیتے وقت اس کی گردن بالکل سیدھی ہوتی ہے‘ ہم نے خود دیکھی ہے!
ہاں‘ یاد آیا‘ پرندوں کی ایک نئی جوڑی بھی اگلے روز دیکھنے میں آئی۔ یہ بھی کافی حد تک تیتر نما ہی تھے لیکن فرق یہ تھا کہ ان کی ٹانگیں ذرا لمبی تھیں اور سینہ سفید رنگ کا۔ یقیناً ان کا کوئی نام بھی ہو گا کیونکہ حضرت انسان کے ہاتھوں شاید ہی کوئی جانور بچا ہو جس کا اس نے نام نہ رکھا ہو اور جن میں سے بعض نام نہایت نامناسب بھی ہیں اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ع
برعکس نہند نامِ زنگی کا فور
مثلاً شُتر مرغ جو نہ شتر ہوتا ہے نہ مرغ، یعنی نہ وہ بانگ دے سکتا ہے اور نہ اس پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ ہی وہ شتر غمزے دکھا سکتا ہے۔ گُوزِ شتر تو بہت دورکی بات ہے۔
آفتاب نے میرے اوپر جو نئی قدغنیں لگائی ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ چائے پھیکی پینی ہے یا بہت کم چینی ڈال کر ۔ چھوٹے سائز کا آم کھا سکتے ہیں لیکن ایک دن چھوڑ کر‘ حالانکہ آم جیسی چیز کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک پورا دن اسے منہ ہی نہ لگایا جائے۔ آلو بخارا صرف دو دانے۔ اس کے نام پر البتہ اعتراض مجھے بھی ہے کیونکہ آیا یہ بیشک بخارا سے ہو‘ لیکن یہ آلو ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح غالباً شکر قندکو فارسی میں سیبِ زمینی کہا جاتا ہے حالانکہ سیب کے ساتھ تو ہے ہی‘ یہ زمین کے ساتھ بھی زیادتی ہے جبکہ اس کے لیے شکر قند کا لفظ بھی انتہائی مبالغہ آمیز ہے۔ تاہم یہ صرف احتیاطی ہدایات ہیں ورنہ میں شوگر پاس نہیں کرتا۔ صرف بائی پاس کے زمانے میں بلڈ شوگر کی شکایت رہی‘ جو اس آپریشن کے دوران ہو جایا کرتی ہے۔ احتیاطاً گولی بھی لیتا ہوں اور شوگر کے کوئی آثار بھی نہیں ہیں نہ کبھی ٹیسٹ کے دوران یہ ظاہر ہوئی۔ ایک اتوار چھوڑ کر میں جنید کے پاس ایک دن کے لیے ماڈل ٹائون چلا جایا کرتا ہوں۔ اس بار مجی اقتدار جاوید کو پتا چلا تو ملاقات کا شرف بخشا۔ دو شاعر یا ادیب اکٹھے ہوں تو ایک سیشن غیبت کا بھی ہوا کرتا ہے جو باقاعدہ ہوا بھی۔ اس کے بعد بھارتی شاعر ستیہ پال آنند کا ذکر آیا تو اقتدار نے بتایا کہ یہ شخص مسلمان مشاہیر کا ذکر بڑی تحقیر سے کرتا ہے۔ میں نے کہا‘ کوئی بات نہیں، یہ اس کا حق ہے۔ بتایا کہ مثلاً عظیم فارسی شاعر حافظ شیرازی کو ایک بدحال گداکر نما شخص کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا کہ وہ امیر تیمور کا زمانہ تھا‘ کسی نے اسے جا کر بتایا کہ حافظ نے آپ کی اس عظیم سلطنت کے بارے میں یہ شعر کہہ رکھا ہے ؎
اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دل ما را
بخال ہندواش بخشم سمر قند و بخارا را
تیمور نے کہا کہ اسے ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔ حافظ کو جب خستہ لباس میں پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا‘ تم نے یہ شعر کہہ رکھا ہے؟ حافظ نے اثبات میں جواب دیا تو تیمور نے کہا، بڑی سخاوت ہے یہ تو۔ حافظ نے جواب دیا کہ جس حال میں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں‘ یہ ایسی ہی سخاوتوں کا نتیجہ ہے۔ اس حاضر جوابی پر بادشاہ خوش ہوا اور انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔
آج کا مطلع
مرنے والے مر جاتے ہیں
دُنیا خالی کر جاتے ہیں